غزہ کی صورتحال اور دنیا کی بے وفائی

صابر کربلائی  اتوار 29 مارچ 2015

مقبوضہ فلسطین کی غزہ پٹی پر گزشتہ برس صہیونی ریاست اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ 50 روزہ جنگ کے خاتمے کو لگ بھگ ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے، اس پچاس روزہ اسرائیلی جارحیت میں صیہونی رجیم نے سفاکیت اور دہشت گردی کے تمام تر ریکارڈز کو توڑ دیا، دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا نرم دل فرد ہوگا۔

جس نے غزہ کے مظلومین پر ہونے والی ہولناک اسرائیلی دہشت گردی پر اشک باری نہ کی ہو، یا صہیونی جارحیت کی مذمت نہ کی ہو، اس جنگ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دو ہزار سے زیادہ افراد کو لقمہ اجل بنا دیا گیا جن میں معصوم بچوں سمیت خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں، درجنوں رہائشی عمارتوں پر میزائلوں کی بارش کرکے ان عمارتوں کو زمین بوس کردیا گیا، اسپتالوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا، جہاں مظلوم زخمی فلسطینیوں کو طبی امداد فراہم کی جاتی تھی۔

ان اسپتالوں کو بھی اسرائیلیوں نے بمباری کا نشانہ بنایا، اسکولوں کی عمارتوں کو عین اس وقت نشانہ بنایا جاتا رہا جب معصوم بچے علم حاصل کرنے میں مشغول تھے، اسی طرح اقوام متحدہ کی زیر نگرانی چلنے والے مراکز صحت سمیت اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان پچاس روز میں اسرائیل نے جیسے قیامت برپا کردی ہو اور فلسطینیوں کو باور کروایا گیا کہ فلسطین کی زمین جو کہ ان کی آبائی سر زمین ہے ان پر تنگ کردی گئی ہے اور اب یا تو وہ مارے جائیں گے یا پھر جبری طور پر اپنے وطن فلسطین کو چھوڑ کر ہجرت کرجائیں۔

لیکن ان تمام تر سختیوں اور مصائب کے باوجود دوسری طرف ملت فلسطین نے استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اگرچہ یہ نہتے ہی تھے لیکن جذبہ ایمانی سے سرشار فلسطینی قوم امریکی سرپرستی میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والی صہیونی جارح ریاست کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔

بہرحال پچاس روز کے بعد اسرائیل کو فلسطینیوں کی شرائط کے مطابق جنگ بندی کرنا پڑی اور ایسی صورتحال میں کہ جو مقاصد جنگ سے قبل بیان کیے گئے تھے جن میں غزہ پر مکمل اسرائیلی تسلط سمیت فلسطین سے اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور حزب اللہ کی معاونت کو کچلنا تھا، یہ سب اسرائیلی منصوبے ناکام ہوگئے۔ لیکن دوسری طرف بہت بڑے پیمانے پر جس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہو، غزہ میں بسنے والے اٹھارہ لاکھ عوام کا نقصان ہوا، جس میں ان کے گھر تباہ و برباد ہوگئے، ان کے کھیت اجڑ گئے۔

ان کے باغات کو بنجر کردیا گیا، اور اس طرح کئی ایک دیگر مسائل اور مشکلات پید اہوگئیں جس کا ازالہ کیا جانا شاید فلسطینیوں کے بس میں نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر میں بشمول یورپی ممالک انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں ہوں یا پھر یورپی ممالک سمیت عرب ممالک ہوں، جنھوں نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ غزہ کی از سر نو تعمیر کا کام شروع کریں گے اور مظلوموں کا جو نقصان ہوا ہے اسے پورا کریں گے۔ اس حوالے سے مصر میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس سمیت فلسطینی اتھارٹی اور مصری حکومت کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا کہ جس میں فلسطینیوں کی مدد کے ساتھ ساتھ مصر رفح کراسنگ کو امدادی سرگرمیوں کے لیے کھولے گا تاہم آج ایک سال کا عرصہ قریب ہونے کو ہے لیکن غزہ میں بسنے والوں اور غزہ کی حالت اسی طرح ابتر ہے جس طرح جنگ کے ایام میں تھی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک نے اپنے کانوں اور آنکھوں کو مکمل طور پر بند رکھا ہے اور ان کو کسی مظلوم کی چیخ وپکار سنائی ہی نہیں دیتی اور یہی وجہ ہے کہ نہ وہ کسی کی فریاد کو پہنچتے ہیں اور وہ نہ کسی کے رونے سے پریشان ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی گریہ و زاری انھیں ان کی نیندوں سے اٹھا پاتی ہے، ان کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں۔

آج دنیا کو فلسطین پر بالعموم جب کہ غزہ پٹی پر بالخصوص اسرائیل کی جانب سے آئے روز جاری مظالم و جارحیت نظر نہیں آتی، نہ ہی اسے یہاں کی پوری آبادی پر تباہ کن محاصرے کے نتائج نظر آتے ہیں، آج غزہ ہر طرف سے محاصرے میں ہے اور اس کی صورتحال دن بہ دن بد سے بدتر ہورہی ہے۔ اب صورتحال بہت ہی سخت ہوچکی ہے، لوگوں کے حالات مایوس کن ہوچکے ہیں، اس لیے جن ممالک نے وعدے کیے تھے ان میں سے کسی کی طرف سے اب تک کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا ہے۔

نہ ہی تباہ شدہ گھروں کی تعمیر عمل میں آئی ہے اور نہ ہی زمین سے دشمن کی جانب سے ڈھائے گئے آثار ہٹائے گئے ہیں، تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر اب تک اپنی جگہ ہیں، کھنڈرات میں تبدیل شدہ سڑکیں اسی حالت میں موجود ہیں، ادارے اب تک بند پڑے ہیں، علاقوں میں نہ کوئی بلدیاتی سطح پر اور نہ مقامی سطح پر کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اس لیے ان کے پاس کسی بھی قسم کی کوئی امکانات ہی موجود نہیں ہیں، نہ کوئی مال و زر ان کے پاس ہے جو نظام زندگی کو دوبارہ بحال کیا جائے۔

کیا دنیا فلسطینیوں کا مذاق اڑا رہی ہے؟ یا وہ ان کی سوچ کو پست سمجھ کر فلسطینیوں کی اس حالت پر قہقہے لگارہی ہے؟ آخر دنیا کے ممالک ان کے ساتھ یہ کیا کر رہے ہیں؟ ہمیشہ میٹنگوں پر میٹنگز اور وعدے وعید کیے جاتے ہیں، فلسطینیوں کی مصیبتوں پر پریشانی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن عملی میدان میں سب پیچھے ہیں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ حالانکہ انھوں نے خود آکر اسرائیلی بربریت اپنی آنکھوں سے دیکھی، اس کے بعد اب سب اچانک سے غائب۔ مجھے نہیں لگتا اب ان وعدے وعیدوں پر مستقبل قریب میں عملدرآمد ہوگا۔

غزہ کو ایک سے زائد مرتبہ تباہ کیا گیا، جہاں پر دشمن نے ایک سے زائد جنگیں جھونکی ہیں اور اسے دنیا کے سامنے تباہ و بربادکیا ہے۔ اسے دوبارہ تعمیر تو کیا کسی نے اس کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ پرانے تعمیرنو کے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے، اس کے خوابوں کے منصوبوں پر ابھی تک صبح طلوع نہیں ہوئی ہے، تو اب یہ فلسطینی قوم کیوں ان وعدوں کی وفائی کی توقع کرے؟ ہم یہ کیوں فرض کریں کہ عالمی برادری قاہرہ و پیرس میں فلسطینیوں کے لیے جمع ہوئی ہے؟ ہمیں کیوں تعجب ہے کہ اس مرتبہ وہ اپنے معاہدوں کی پاسداری کریں گے؟ وہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنائیں گے؟

غزہ کی تعمیر نو کے پیچھے اور غزہ کے مظلوموں کی مدد کے پیچھے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ یہ چاہتے ہوں کہ جو کوئی ہتھیار ڈالے، مزاحمت چھوڑ دے، اسرائیل کے خلاف تمام عسکری کارروائیوں کوترک کرکے ہمیشہ کے لیے خانہ نشین ہوجائے اور جو نہ کبھی ہتھیار کے بارے میں سوچتا ہو اور نہ ہی میزائل و توپوں کو جمع کرے، تو پھر جاکر غزہ کے نصیب میں تعمیرنو لکھ دی جائے، اگر یہ شرائط غزہ والے مان جائیں، تمام جماعتیں ہتھیار ڈالنے پر متفق ہوجائیں۔

مزاحمتی سرگرمیوں کو ترک کریں، اسرائیل اور اس کے آبادکاروں کی مخالفت کو ترک کریں، شاید دنیا والے اپنے قدیم گمان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوں کہ کوئی تو مقاومت کو چھوڑ دے اور جو کوئی اس کی برائی کرے گا اس سے سختی ہٹ جائے گی، جو مقاومت کی مخالفت کرے گا، اس کی تکریم ہوگی، مگر جو کوئی اس کے ساتھ تمسک کر رہے گا، اس کا ٹھکانہ عذاب ہوگا، پریشانی و مصیبت ان کے، ان کی قوم کے لیے ہمیشہ منتظر رہے گی۔

کیا ہے کوئی جس کا ضمیر ان بے آسروں کے لیے جھنجھوڑے؟ ذرا بین الاقوامی و عربی برادری اس کی طرف بھی توجہ دے، غزہ اس وقت آگ کے شعلے کے نیچے ہے کہ عنقریب وہ پک کر پھٹ جائے، سو یا تو عنقریب ہم کسی کریم کو پائیں گے، یا پھر پرانے وعدوں کی طرح کبھی بھی وفا نہیں ہوگی، یا پھر ہم انھیں اپنی ہی حالت پر چھوڑ دیں کہ ان کے مقدر میں جو لکھا ہے وہ ہو، کہ ہمیشہ ابدی مصیبت میں ہی رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔