جذبے ہیں جواں، کیونکہ یہ ہے پیارا پاکستان!

فرید رزاقی  منگل 26 مئ 2015
 کرکٹ صرف قذافی اسٹیڈیم میں ہی نہیں کھیلی جارہی بلکہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، گھر گھر اور گلی گلی کرکٹ ہی موضوع گفتگو ہے۔

کرکٹ صرف قذافی اسٹیڈیم میں ہی نہیں کھیلی جارہی بلکہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، گھر گھر اور گلی گلی کرکٹ ہی موضوع گفتگو ہے۔

22 مئی 2015 جمعۃ المبارک کا دن پاکستان کی کرکٹ تاریخ کے لیے بہت مبارک ثابت ہوا۔ یہ وہی دن تھا جب زمبابوے اور پاکستان کے درمیان ہونے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کے ساتھ ہی پاکستان کی کرکٹ تاریخ پر چھائے گہرے تاریک بادل چھٹ گئے تھے۔

حکومت وقت اور پی سی بی نے کرکٹ بحالی کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جسے سراہا جانا چاہیے۔ حکومت اور کرکٹ بورڈ نے جو کیا وہ تو کیا لیکن زمبابوے کی جرات کو بھی سلام پیش کرنا چاہیے کہ جب کوئی ٹیم یہاں آنے کے لیے راضی نہیں تھا اُس وقت اِس ٹیم نے ہمارا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ زمبابوے کی ٹیم کو غیر معمولی مہمان نوازی سے مستفید کروایا جارہا ہے، بلکہ اِس مہمان نوازی پر تو لوگوں نے یہ تک کہنا شروع کردیا کہ ارے بھائی اتنی آو بھگت نہ کی جائے کہ کہیں یہ واپس جانے سے انکار نہ کردے کہ وہاں عزت تو دور کی بات تنخواہیں بھی نہیں دی جاتیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ زمبابوے ہمیشہ اس مہمان نوازی کو یاد رکھے گی۔

ہمیں بخوبی یاد ہیں وہ دن جب لاہور میں بسنت منانے کے لیے پوری دنیا لاہور اُمڈ آیا کرتی تھی۔ پھر کیا ہوا؟ اِس تہوارمیں دھاتی اور کیمیکل مافیا نے زندگیوں کا سودا کرنا شروع کردیا جس کے سبب مجبوراََ بسنت پر پابندی لگانا پڑی۔ پھر ملک میں دہشتگردی کے گہرے بادل آئے، یہ وہ مشکل وقت تھا جس کا نقصان نہ صرف ملک نے اُٹھایا بلکہ ہر ہر شہری نے بھی اِس کے منفی اثرات کا وزن برداشت کیا۔

خیر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور اہل لاہور کو میزبانی کا ملا سنہری موقع۔ پاکستان سے محبت اور بھائی چارے کے بلند و بانگ دعوے تو سب ممالک نے کیے لیکن عملی قدم صرف زمبابوے نے اٹھایا۔ وطن دشمنوں نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح پاکستان کے میدان آباد نہ ہوں لیکن انہیں اپنے منہ کی کھانا پڑی۔ اب جبکہ دو ٹی ٹونٹی میچز پر مشتمل سیریز اپنے انجام کو پہنچی اور پاکستان نے سیریز اور زمبابوے نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں تو کیوں نہ اِس سیریز کے دوران کرکٹ کے دیوانوں کی زندہ دلی اور مشکلات پر بات کرلی جائے۔

شاید یہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہوگا کہ دو مختلف ملکوں کو شائقین برابری کی سطح پر سپورٹ کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے جب پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش کے دورے پر تھی تب کلمے اور نظریاتی رشتے کے باوجود پاکستان کو کتنا سپورٹ کیا گیا، اس کا رونا یہاں بے مقصد ہوگا۔ لاہور میں مئی کے مہینے میں گرمی کی شدت اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ ہر کوئی انتہائی ضرورت کے بغیر گھر اور آفس سے نکلنا تو دور اسکی سوچ سے بھی کتراتا ہے۔ لیکن میچ سے قبل کئی کئی گھنٹوں تک دھوپ میں طویل قطاریں میں لگنا جذبے کے بغیر ناممکن ہے۔

پہلے ٹی ٹونٹی کے بعد انتظامیہ کو کچھ ہوش آیا تو شائقین کرکٹ کے لیے گراونڈ سے باہر واٹر کولر تو لگا دیے گئے لیکن انکی تعداد کی وجہ سے ٹھنڈے پانی کی بجائے گرم پانی کی فراہمی ہورہی ہے۔ اِس سیریز کے دوران پردیسیوں نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ جن کے کوئی عزیز ہیں وہ وہاں بن بلائے مہمان کا درجہ اختیار کرچکے ہیں اور جن کا کوئی رشتہ دار نہیں تو اُنہوں نے ہوٹلوں کی ویرانی کو رونق میں تبدیل کردیا ہے۔ اِس موقع پر ہوٹل مالکان نے بھی شائقین کرکٹ کی خوب کھال ادھیڑی، لیکن شائقین ہیں کہ شکایت کا کوئی لفظ نکالنے کے لیے تیار نہیں۔ اِن لوگوں کے درمیان وہ لوگ بھی ہیں نہ تو جن کا اِس شہر میں کوئی رشتہ دار ہے اور نہ ہوٹل میں رہنے کے پیسے تو اُنہوں نے کھلے آسمان تلے پارکوں اور فٹ پاتھ پر بسیرا کیا ہوا ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ کرپشن جہاں ہمارے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کا وطیرہ ہے، وہیں پر یہ ناسور قوم میں بھی سرایت کرتا جارہا ہے۔ خدا خدا کرکے میدان آباد ہوئے ہیں تو ٹکٹس کی خریداری میں شائقین کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہی ہیں جو اپنے تعلقات اور اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے زیادہ ٹکٹس لے کر منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔

انتظامیہ کو ٹکٹس کی فروخت کے لیے کوئی کوٹہ سسٹم بنانا چاہیے تاکہ بیرون ملک اور دیگر شہروں سے آنے والے شائقین کوبھی ٹکٹس میسر ہوں۔ اطلاعات کے مطابق پہلے دو ون ڈے میچز کی ٹکٹس فروخت ہوچکی ہیں جبکہ تیسرے میچ کے لیے بھی ابھی تک ٹکٹس دستیاب نہیں ہورہی ہیں۔

 

قذافی اسٹیڈیم میں ہاؤس فُل جذبوں سے سرشار شائقین نے پوری دنیا پر واضح کردیا ہے کہ ’’Land of Youth‘‘ امن پسند اور کرکٹ کی دیوانی ہے، جسے کوئی امن دشمن شکست نہیں دے سکتا۔ زمبابوے کے قائد کا کُھل کر پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرنا اور ہارنے کے باوجود ہونٹوں پر مسکراہٹ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پاکستانیوں کے دل جیت کر مطمئن ہیں اور ان کا پاکستان میں سیکورٹی پر مکمل اطمینان کا اظہار آئی سی سی کے منہ پر طمانچہ ہے کہ جس نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آفیشل اسٹاف بھیجنے سے معذرت کی تھی۔

شائقین نے دونوں رخصار پر پاک اور زمبابوے کے پرچم بنا کر پوری دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستانی اپنے مہمانوں کی کس قدر عزت کرتے ہیں اور اُنہیں دل کھول کر خوش آمدید کہتے ہیں۔ شائقین کا جذبہ دیکھتے ہوئے پاکستانی قائد اظہر علی نے کہا ہے کہ منگل تک کا انتظار مشکل ہورہا ہے۔ پاکستان میں کرکٹ صرف قذافی اسٹیڈیم میں ہی نہیں کھیلی جارہی بلکہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، گھرگھر اور گلی گلی کرکٹ ہی موضوع گفتگو ہے۔ پاکستانیوں نے اپنےجذبے سے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ کوئی سازش، کوئی دہشت گردی ہمیں کھیل سے دور نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔ ہمیں پوری اُمید ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ یہاں کھیل کے میدان ہمیشہ کے لیے آباد ہونے جارہے ہیں۔

کیا آپ بھی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی سے خوش ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

فرید رزاق

فرید رزاقی

ایم ایس سی جامعہ پنجاب سے کر چکے ہیں۔ ماہنامہ پیغام ڈائجسٹ لاہور کے چیف ایڈیٹر اورآفاق انسائیکلو پیڈیاکی مجلس ادارت سے بھی منسلک ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے ممبرشپ کوآرڈینیٹر۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @FaridRazaqi پر رابطہ کرسکتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔