پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا شاندار استقبال

عباس رضا  اتوار 24 مئ 2015
شائقین نے میدان میں ایک طویل عرصہ بعد لگنے والی رونق کا خوب لطف اٹھایا، فوٹو : فائل

شائقین نے میدان میں ایک طویل عرصہ بعد لگنے والی رونق کا خوب لطف اٹھایا، فوٹو : فائل

 ایک ون ڈے میچ کے دوران سٹیڈیم کے باہر ایک سوکے قریب پولیس اہلکار جن میں سے بیشتر ڈنڈا بردار ہیں، شائقین وینیو پر پہنچ کر بھی قطاروں میں کھڑے ٹکٹیں حاصل کر رہے ہیں، اندر سٹینڈز پر موجود لوگ مقابلہ شروع ہونے کے منتظر ہیں، تالیوں کی گونج اور میدان سے باہر بھی شور ہے، مفت خورے کسی عہدیدار کی معاونت سے اندر جانے کی کوشش کر رہے ہیں، ٹیموں کی آمد کے بعد باہر والوں کی بیتابی بڑھ رہی ہے۔

بڑے اچھے ماحول میں میچ ہوتا ہے، تماشائیوں اور سکیورٹی حکام میں خوف کی کوئی فضا نہیں، چند پولیس اہلکار سٹیڈیم کے دروازے بند ہونے کے بعد خود بھی میدان کے قریب آکر بیٹ اور بال کی جنگ دیکھنے میں مگن ہیں، آخری 10 اوورز سے قبل ایک پولیس آفیسر آکر اپنے ماتحت سٹاف کو ہدایات دیتا ہے، باہر کھڑے سینکڑوں افراد کو بھی میدان کے اندر آکر میچ دیکھنے کا موقع فراہم کردیا جاتا ہے، کچھ نشستوں اور کچھ جہاں جگہ ملی وہیں پر پاکستان کے فتح کی جانب سفر کو دیکھتے اور ایک ایک رن کو تالیوں کی گونج کے ساتھ سراہتے ہیں۔ مقابلہ ختم ہونے کے بعد سٹیڈیم کے اطراف میں رونقیں نظر آتی ہیں اور پرجوش عوام کے تبصروں کی آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا، یہ تھا لاہور میں دیکھے ایک میچ کا آنکھوں دیکھا حال۔

چند سال بعد منظر نامہ تبدیل ہوتا ہے، ملک کے کئی علاقے دہشت گردی کی زد میں ہیں، چند عناصر نے عوام پر خوف کی چادر تان رکھی ہے، سری لنکن ٹیم کو صدر کے برابر سیکورٹی فراہم کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن کھلاڑیوں کی بس ہوٹل سے روانہ ہوتی ہے تو اس کے ہمراہ روانہ ہونے والے اسکواڈز خود قبر نما وینز میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔

تین اطراف سے کور کی گئی گاڑیوں میں اہلکاروں کے لیے آس پاس کی حرکات پر نظر رکھنے کا موقع ہے، نہ ہی مزاحمت کا کوئی چارہ کار، لبرٹی چوک پر اچانک دہشت گردوں کا حملہ ہوتا ہے تو بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، میزبان ملک کے اہلکاروں کا جانی نقصان ہوتا ہے، ڈرائیور محمد خلیل جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بس کو اسٹیڈیم تک لے جاتے ہیں لیکن مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ پاکستان کرکٹ بھی زخموں سے چُور چُور ہوجاتی ہے۔

سانحہ ایک دو نہیں کئی متعلقہ محکموں کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ قصوروار بڑے تھے لیکن سزا کسی کو نہیں ملی، نتائج پاکستان کرکٹ اور دیگر کھیل آج تک بھگت رہے ہیں۔

6 سال تک میدان اور شائقین انٹرنیشنل ٹیموں کی آمد کو ترستے رہے، جب بھی کوئی امید کی کرن نظر آئی ملک میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہوگیا کہ آخر میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ پس منظر کچھ بھی ہو زمبابوے نے سیریز کھیلنے کی حامی بھر کے بڑی جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے، خود بھی کبھی تنہائی کا شکار رہنے والے ملک نے ہی پاکستان کے دکھ کو سمجھااور کراچی میں سانحہ صفورا کے بعد پیدا ہونے والے خدشات کو جھٹک کر شیڈول کے مطابق دورہ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں گرین شرٹس کے سابق کوچ ڈیو واٹمور کا مثبت کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس بار مناظر ماضی سے قطعی مختلف تھے، مہمان سکواڈ پیر اور منگل کی درمیانی شب ہرارے سے براستہ دبئی لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پہنچا، زیڈ سی کے حکام اور امپائررسل ٹفن بھی 28رکنی دستے کے ہمراہ تھے، ٹیم کا استقبال صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ اور پی سی بی کے عہدیداروں نے کیا، بس کو کوسخت سکیورٹی حصار میں ایئرپورٹ سے ہوٹل منتقل کیا گیا، بکتربند گاڑیوں، ایلیٹ فورسز کی 60 موبائلز نے ریڈزون کو ہر لحاظ سے کلیئر رکھا، موبائل فون جیمز بھی فعال تھے، لاہور پولیس اور رینجرز کی 6 ہزار سے زائد نفری کا سخت حفاظتی حصار مسلسل قائم رہا، روٹ پر خفیہ کیمرے اور ہر اہم مقام پر شوٹرز بھی مستعد نظر آئے۔

اگلی دوپہر کو ٹیم کو 3 بڑی بسوں میں ایلیٹ فورس اور بکتر بند گاڑیوں کے پہرے میں پریکٹس کے لیے سٹیڈیم لے جایا گیا، اس دوران مال روڈ سے قذافی سٹیڈیم تک کا راستہ سیل رہا، سی سی ٹی وی کیمرے اور مانیٹرنگ روم بھی متحرک رہے، پولیس کے اعلیٰ حکام سکیورٹی آپریشن کو مانیٹر کرتے رہے۔ فول پروف انتظامات میں ٹیم پریکٹس کے لیے آتی اور جاتی رہی، اسی سکیورٹی پلان کو مزید مؤثر بناتے ہوئے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کی تیاریاں کی گئیں۔

سخت سیکورٹی اور شدید گرمی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ شاید لوگوں کی زیادہ تعداد قذافی سٹیڈیم کا رخ نہ کرے لیکن صورتحال اس کے برعکس نظر آئی، ثابت یہ ہوا کہ حالات کی ستم ظریفی کے سبب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کروانے کے لیے انتظامی امور میں تبدیلی ضرور آئی ہے، تاہم شائقین کے جوش اور جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی، دورہ بنگلہ دیش میں گرین شرٹس کی محدود اوورز کے میچز میں ناقص کارکردگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی کی لہر بھی کہیں پیچھے رہ گئی۔

شائقین جمعہ کی دوپہر سے قبل ہی قذافی سٹیڈیم آنا شروع ہوگئے تھے، بعد ازاں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتاگیا، پارکنگ دور ہونے کی وجہ سے انہیں طویل فاصلہ پیدل طے کرنا پڑا، راستے میں واک تھرو گیٹ اور میٹل ڈیٹیکٹرز کی وجہ سے لمبی قطاروں میں انتظار بھی کرنا پڑا، وینیو میں داخل ہونے کے لیے 25منٹ سے لیکر ایک گھنٹہ تک کا وقت درکار ہوتا، تاہم نوجوان بیزار ہونے کے بجائے قطاروں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آئے۔

ان میں سے بیشتر گرین شرٹس میں ملبوس تھے، کئی نے چہروں پر پرچم پینٹ کروارکھے تھے، اسٹیڈیم میچ شروع ہونے سے قبل ہی پر جوش شائقین سے کھچا کھچ بھر چکا تھا، بڑی تعداد میں فیملیز نے بھی میدان کا رخ کیا، خواتین کے لیے الگ چیکنگ پوائنٹس موجود تھے،اس لئے ان کو دیگر کی نسبت کم انتظار کرنا پڑا، پولیس کے اعلیٰ افسران نے صبح کو اہکاروں کا ایک لیکچر میں عوام کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی ہدایت کردی تھی جس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا، ملازمین اور ٹریفک وارڈن پارکنگ اور وینیو میں مطلوبہ سٹینڈ کی تلاش میں دقت محسوس کرنے والوں کی بڑی خوشدلی سے رہنمائی کرتے نظر آئے، انٹری پوائنٹس پر مائیکرو فون کے ذریعے اعلانات کرکے بھی تماشائیوں کو راستوں اور سکیورٹی پالیسی کے بارے میں بتایا جاتا رہا، ٹیموں کی آمد ورفت کی کڑی نگرانی کی گئی، اس دوران روٹ کی جانب آنے والے تمام راستے مکمل طور پر بند رہے۔

میچ کے دوران بھی قذافی اسٹیڈیم کے چاروں طرف کی سڑکوں پر سکیورٹی اداروں کی گاڑیوں کی لمبی قطار اہلکاروں سمیت موجود رہی، کتوں کی مدد سے نشتر پارک کی مسلسل سرچ کی جاتی رہی، ہیلی کاپٹر نے بھی فضائی نگرانی کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم اسٹینڈز میں موجود شائقین کو کھانے پینے کی اشیا کے حصول میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا، باہر سے کوئی چیز لانے کی اجازت نہیں تھی، مشروبات فروخت کرنے والوں نے عوام کو لوٹنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، ایک بوتل کے شروع میں 100بعد ازاں 300روپے تک وصول کئے گئے۔

شائقین نے میدان میں ایک طویل عرصہ بعد لگنے والی رونق کا خوب لطف اٹھایا، نہ صرف پاکستان بلکہ زمبابوے کو بھی خوب داد ملی، اگرچہ میزبان ٹیم کے فیلڈزر نے مواقع ضائع کئے، سرفراز احمد نے دلہا بننے کی خوشی میں سٹمپ چھوڑ کر مہمان ٹیم کو تحفے دیئے، بولرز بھی کمزور حریف کو ایک اچھا ٹوٹل حاصل کرنے سے نہ روک پائے، میلہ مختار احمد نے لوٹ لیا، ایک عرصہ بعد پاکستانی اوپنرز نے پر اعتماد اور جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرتے ہوئے فتح کی بنیاد رکھی، تاہم ایک عمدہ شراکت کے بعد آسان نظر آنے والے ہدف کو بعد میں آنے والے بیٹسمینوں نے غیر ذمہ داری سے مشکل بنالیا، تجربہ کار محمد حفیظ اور ہمیشہ کی طرح ناقابل اعتبار عمر اکمل کے بعد شعیب ملک بھی توقعات پر پورا نہ اترسکے۔

، آل راؤنڈر نے پہلے تو 7رنز بنانے کے لیے 14گیندیں صرف کر دیں، پھر آخری اوور میں فتح کے لیے درکار 6رنز بنانے سے قبل ہی آؤٹ ہوگئے، سلیکٹرز نے بنگلہ دیش میں صرف ایک میچ کے بعد ہی کئی کھلاڑیوں کو ناکارہ پرزے سمجھ کر باہر کر دیا، ایک طرف تشکیل نو کا نعرہ بھی لگایا گیا ہے تو دوسری جانب موقع پانے والوں میں محمد سمیع اور شعیب ملک جیسے ویٹرن بھی شامل ہیں جو کئی بار پہلے بھی کم بیک کر چکے۔

مختار احمد جیسے کئی کرکٹرز ڈومیسٹک سپر ایٹ ٹورنامنٹ میں اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھلا چکے، آئندہ سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے مضبوط اسکواڈ تشکیل دینا ہے تو کئی بار ناکام ہونے والے بڑے ناموں کو چھوڑ کر نئی کھیپ پر توجہ دی جائے، زمبابوے کے خلاف سیریز نوجوان کھلاڑیوں کی آزامائش کا اچھا موقع ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔

کپتان شاہد آفریدی نے بجا طور پر کہا ہے کہ میگا ایونٹ سے 3 ماہ قبل قومی ٹیم میں تبدیلیاں کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس نوعیت کے فیصلوں سے کھلاڑیوں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے، ون ڈے ٹیم میں بھی کمزور مہروں کو ساتھ رکھنے یا آزمائے ہوئے پلیئرز کوایک بار پھر آزمانا مناسب نہیںہوگا، مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔