موپَساںکا’’نیکلیس‘‘ اور سُمرسٹ مائم کا ’’لاکٹ‘‘

تشنہ بریلوی  ہفتہ 4 جولائی 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

تُرکی سے آنے والے ہارکے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ۔یہ ہار ایک ملک کی خاتونِ اول نے ہدیہ کیا اوراگریہ کسی دوسرے ملک کی خاتونِ اول تک پہنچ جائے توکیا فرق پڑتا ہے ۔ ایسی قیمتی اشیاء قیمتی لوگوں کے ہاتھوں میں ہی رہیں تو بہتر ہے ۔ ہم جیسے لوگ اِن کی قدرکیا جانیں اور خاتونِ اول کا ہدیہ فروخت کرنا بھی کسی طور مناسب نہیں اس لیے کہ ہدیہ برائے فر وخت نہیں ہوتا ۔ جہاں تک غریب خواتین کی مدد کا سوال ہے تو غریب خواتین کی مدد کے لیے ہمارے وڈیرے ‘ پیر ‘سردار‘جاگیردار‘خان اور پولیس والے ہمہ وقت مشغول ہیں ۔ان میں سے بہت سوں کو تو اس کے علاوہ کوئی اورکام ہی نہیں۔لہذا اس ترک ہارکو فراموش کرتے ہوئے دو مشہورکہانیوںکا ذکر کرتے ہیںجو ہار ہی کے گرد گھومتی ہیں۔

سب سے پہلے تو فرانس کے شہرۂ آفاق فکشن رائٹر’’گی دا موپَساں‘‘Guy De Maupassantکی کہانیNecklace(Collier)کا ذکرضروری ہے۔ سعادت حسن منٹوکو اردو کا موپساں کہا جاتا تھا، لہذا ہم موپساں کو فرنچ کا منٹو بھی کہہ سکتے ہیں ۔ دونوں کم عمری میں انتقال کر گئے اور دونوں کا دماغی توازن بگڑگیا تھا لیکن دونوں نامور ترین افسانہ نگاروںمیںشمار ہوتے ہیں۔

موپساں کی اس شاہکارکہانی میں ایک کم حیثیت میاںبیوی کا ذکرکیاگیاہے ۔ بیوی بہت خوبصورت ہے لیکن میاں غریب کلرک۔ بیوی صبر اور شکر کے ساتھ گذر بسر کرتی ہے۔ حرفِ شکایت ِ زبان پر نہیں لاتی۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ ایک بہت شاندار تقریب میں اُن کا بلاوا آجاتا ہے۔ ایسی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے قیمتی لباس کے ساتھ کچھ زیور بھی ضروری ہے اور زیور بھی قیمتی۔بیوی تقریب میںشرکت سے انکارکردیتی ہے ۔ میاںکہتا ہے کہ اس نے بڑی مشکل سے یہ دعوت نامہ حاصل کیا ہے اور وزیر صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ بھی وہاں موجود ہوں گے ۔ لباس کا تو کسی صورت سے انتظام ہوجاتا ہے لیکن زیور ؟ خاتون کو یاد آتا ہے کہ اس کی ایک دولت مند ہم جماعت ہے ۔

کیوںنہ اس سے زیور ایک دن کے لیے مانگ لیا جائے ۔ خاتون کی دوست بڑی فیاضی سے اپناتمام زیور دکھاتی ہے۔خاتون کو ایک ڈائمنڈ کا نیکلس پسند آجاتا ہے ۔ لہذا وہ یہی ہار پہن کر تقریب میں شرکت کرتی ہے ۔

ہر شخص کی نظر اس پر ہوتی ہے ۔وزیر صاحب بھی اس سے ملتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر انھیں سواری حاصل کرنے میں بہت دقت ہوتی ہے اور وہ رات کے چار بجے گھر پہنچتے ہیں۔ لباس تبدیل کرتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ ہار گم ہوچکا ہے۔ کہیںراستہ میںگرگیا ہوگا ۔ میاںبیوی کا برا حال ۔ فوراً ہی متبادل ہارکا انتظام کیا جاتا ہے اور 36 ہزار فرانک میںایک جوہری کی دکان سے ویسا ہی ہار خریدا جاتا ہے۔ میاںبیوی اپنا سارا اثاثہ بیچ دیتے ہیں۔ دوستوں رشتے داروں سے ادھار لیتے ہیں اور دس سال کی محنت اوراذیت کے بعد سارا قرضہ اتار دیتے ہیں۔ ان دس برسوںمیں خاتون سب کچھ کھو دیتی ہے خصوصاًاپنا حسن اور جوانی۔

ایک دن پارک میں اس کو اپنی پرانی دوست نظرآتی ہے جس سے اس نے ہار لیاتھا ۔ دوست دس سال بعد بھی شاداب اور صحت مند ہے۔

خاتون اپنی دوست سے مخاطب ہوتی ہے ’’ ہیلو ژانیت‘‘

ژانیت اس کی طرف دیکھتی ہے اور ایک اجنبی عورت کی اس بے تکلفی پر حیران ہو کر کہتی ہے’’ مادام میں آپ کو نہیںجانتی ۔ آپ کون ہیں؟‘‘

’’ژانیت میں تمہاری پرانی دوست ماتھیلدا ہوں۔‘‘

’’اچھا تو تم ماتھیلداہو ۔ مگر تم کس قدر بدل گئی ہو۔ پہچاننا مشکل ہے۔‘‘

’’ جو کچھ بھی میری حالت ہے وہ تمہاری ہی وجہ سے ہے ۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’ تمہیں یادہے کہ دس سال پہلے میں نے تم سے ایک ڈائمنڈ نیکلس مانگا تھا ۔‘‘

’’ ہاں،ہاں یاد ہے ۔ وہ تو تم نے واپس بھی کردیاتھا ۔‘‘

’’واپس ضرور کردیاتھا لیکن دراصل تمہارا ہار کھوگیاتھا ۔ میں نے ایک جوہری سے 36ہزار فرانک میںاس جیسا ہی ہار لے کرتمہیںواپس کیاتھا ۔‘‘

’’36ہزار فرانک‘‘ ژانیت کھڑ ی ہوگئی ’’ ماتھیلدا ۔ تم کیا کہہ رہی ہو؟ میرا ہار تو Imitation(ایمیٹیشن) تھا ۔ مشکل سے چار پانچ سو فرانک کا ۔‘‘

یہاںکہانی ختم ہوجاتی ہے لیکن اچھے افسانے کی طرح کہانی تو آپ سے چمٹ کر رہ جاتی ہے۔

لیکن موپساں کی سب سے زبردست کہانی تو Boulf De Suiffشمار ہوتی ہے کہ جس سے متاثر ہو کر کرشن چندر نے بھی ایک شاندار کہانی لکھی تھی۔

ولیم سمر سٹ مائم بہت مشہور افسانہ و ناول نگار تھا ۔ اس کے افسانوںRainاورLetterپر کئی فلمیں بھی بنیں۔مائم نے بھی ہار کے بارے میںایک کہانی لکھی ۔ وہ پانی کے جہاز میں سفر کررہاہے اس کا روم میٹ ایک یہودی ہے جو بہت باتونی ہے ۔ ایک اور مسافر بھی جھگڑالو قسم کا ہے وہ جاپان میںامریکی سفار ت خانے میں ملازم ہے ۔ اس کی خوبصورت بیوی بھی‘ جس سے وہ ایک سال بعد ملا ہے ‘ جہاز میں اس کے ساتھ ہے ۔ایک دن میز پرچائے پیتے ہوئے یہودی اور امریکی مسافر کے درمیان بحث ہوجاتی ہے ۔ امریکی مسافر کی بیوی کے گلے میں ایک بہت خوبصورت لاکٹ ہے۔ یہودی کہتا ہے کہ یہ ہار بہت قیمتی ہے اور دس ہزار ڈالر سے کم اس کی قیمت نہیں۔امریکی مسافر ہنس کر کہتا ہے :

’’ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ یہ ہار تو میری بیوی نے نیویارک سے بیس ڈالر میں خریدا ہے ۔ سو ڈالر کی شرط !‘‘

یہودی کہتا ہے ’’شرط منظور میںخودجیولر ہوں ۔ایک منٹ میں بتاسکتا ہوں کہ یہ ہار اصلی ہے یا نقلی۔ میں سو ڈالر ہارنے کو بالکل تیار ہوں۔ مادام ذرا ہار گلے سے اتاریں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنا محدب شیشہ نکالتا ہے۔

ہار کوہاتھ میںلے کر یہودی اس کا بغور معائنہ کرتا ہے اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ سر اٹھاتا ہے لیکن قبل اس کے وہ کچھ بولے اس کی نظر عورت پر پڑتی ہے جو ملتجی نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے ۔ یہودی کی مسکراہٹ غائب۔ وہ ہار واپس کرتا ہے اور کھڑے ہو کر اپنی ہپ پاکٹ سے ویلٹ نکال کر سو ڈالر کا نوٹ امریکی کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔

’’ ہاںمیں غلطی پر تھا ۔یہ نقلی ہار بیس ڈالر سے زیادہ کا نہیں ہے۔‘‘ یہودی کا خوب مذاق اڑایاجاتا ہے۔

رات کو جب مائم اور یہودی دونوں اپنے کمرے میں سونے کی تیاری کررہے ہوتے ہیں تو اچانک دروازے کے نیچے سے ایک لفافہ سرکایاجاتاہے ۔ مائم دروازہ کھولتا ہے مگر کوئی نظر نہیں آتا ۔ لفافہ پر کوئی نام نہیں ۔ لفافہ کھولا جاتا ہے تو اس میں سے سو ڈالر کا ایک نوٹ برآمد ہوتا ہے۔

سو ڈالر کا نوٹ پکڑتے ہوئے یہودی کہتا ہے ’’اگر میری ایک خوبصورت نوجوان بیوی ہوتی تو میں کسی حالت میں بھی اسے ایک سال کے لیے نیویارک میں اکیلا نہ چھوڑتا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔