ہم حلق بریدہ سے ہی تقریر کریں گے

قادر خان  اتوار 12 جولائی 2015
qakhs1@gmail.com

[email protected]

کراچی کئی عشروں سے لاقانونیت کی مثال بنا ہوا ہے ۔ بدامنی کے ذمے داروں کے حوالے سے کسی ایک فریق کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ، کیونکہ شہر پر قبضے کی جنگ میں ہر اسٹیک ہولڈر کسی نہ کسی طور ملوث رہا ہے۔یہ ملک کا معاشی حب و شہ رگ ہے اس لیے اس کے وسائل پر کسی کی بھی رال ٹپکنا کوئی انوکھی بات نہیں ۔

حقوق کے نام پر ہر سیاسی، مذہبی جماعت سے لے کر سول سوسائٹی اور این جی اوز نے کراچی کو دل کھول کر لُوٹا ہے اور اس کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے جو اسے بخوبی آتا تھا ۔ چند لاکھ نفوس کا ساحلی شہر، یہاں کے رہنے والے پر امن کاروباری اور محنت کش عوام۔ جب یہ شہر مختلف قومیتوں کی آجامگاہ بنتا چلا گیا اور اس شہر نے سونے کی چڑیا کی حیثیت اختیارکرلی تو اس پر لسانیت، قومیت، فرقہ واریت کے نام پر سیاست کرنے والے عفریتوں نے ڈیرے ڈالنے شروع کردیے۔

لسانیت کے نام پر اقوام کو لڑایا تو پھر قومیت کے نام پر خون کی ندیاں بہا دیں گئیں، شدت پسندی کو عروج دینے کے لیے مذہب کے نام پر فرقہ واریت کو عروج دے دیا گیا ۔ اب اس کو ملک دشمن عناصر کی چال کہیں یا پھر موساد ، تھنڈر اسکواڈ، را ، گینگ وار، کالعدم جماعتیں یا تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ۔کراچی کو جس نے چاہا تختہ مشق بنایا،کسی نے بھی اس پر رحم نہیں کیا ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ قصور وار اگر کسی کو گردانا جائے تو وہ خودکراچی کی عوام ہیں۔ لاکھوں سے کروڑوںکی تعداد میں تبدیل ہوگئے ۔

لیکن یہ بھیڑوں کا ریوڑ، صرف چند افراد کے ہاتھوں یرغمال بن کر اربوں روپے بھتے کی صورت میں دیتا گیا ۔کراچی کے یہ باسی ،ایک ووٹ حق کے مطابق دینے کے بجائے یہ سوچے سمجھے بغیرکہ درست ووٹ کا حقدار ہے یا نہیں خود پر جابر حکمران مسلط کرتے چلے گئے۔کنگ میکرز بننے کی خواہش ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کی پہلی دلی آرزو بنتی چلی گئی ۔کبھی اردو بولنے والوں کو سندھیوں سے لڑادیا توکبھی پختونوں کی گردنیں تن سے جدا ہونے لگیں توکبھی بلوچوں کے جسم جلا کر اس سے فٹ بال کھیلے جانے لگے ۔

ایسا کونسا سا ستم ہے کہ کراچی کے عوام نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو،ایسا کون سا ظلم ہے جس کا وہ شکار نہ ہوا ہو ۔ڈروخوف کی اس فضا میں اپنا شناختی کارڈ بھی جیب میں رکھتے ہوئے ڈر لگتا کہ مخالفین کہیں دیکھ نہ لیں کہ کٹی پہاڑی کا تو نہیں،کہیں عزیز آبادکا تو نہیں،کہیں لیاری کا تو نہیں کون سی زبان بولتے ہو،کہاں سے آئے ہو،کیوں آئے تو، واپس جاؤ، جہاں سے جو جہاں آیا ہے واپس چلا جائے۔ایک طوفان ہے کہ کراچی میں جاگزیں ہوا ۔

نواز شریف پھر 1992 کا عزم لے کرآئے اورکراچی میں جرائم پیشہ عناصرکے نام پر ایک آپریشن شروع کردیا ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی منظوری دی اور پھر آپریشن کا پہلا مرحلہ اسٹارٹ ہوگیا ، سب نے واہ واہ کی،کسی نے نہیں پوچھا کہ بے گناہ گرفتار ہوا کہ گناہگارگرفتار ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں ملزمان دھرلیے گئے۔ دوسرا مرحلہ شروع ہوا ،کچھ سیاسی ومذہبی جماعتوں کو تھوڑی پریشانی ہوئی لیکن بیانات دیے کہ کڑوے گھونٹ پی رہے ہیں ۔کراچی میں امن کے خاطر پہلے ہمارے گھر سے آپریشن کیا جائے تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔تیسرا مرحلہ شروع ہوا تو جیسے سیاسی جماعتوں میں ایک بھونچال سا آگیا ۔ چوتھا مرحلہ نقطہ عروج تھا۔

جس نے آپریشن کو مکمل سیاسی قرار دے دیا ۔ مینڈیٹ کی باتیں کی جانے لگیں،اختیارات سمجھائے جانے لگے،حدود میں رہنے کو کہا جانے لگا، لیکن کئی عشروں سے کراچی میں رہنے والی رینجرز کو ہر چار ماہ بعد کراچی میں امن کی بحالی کا مینڈیٹ دیا جاتا تھا ۔کبھی رینجرزکو پانی کی بحالی و تقسیم کا مینڈیٹ دے دیا کہ ہائی ڈرینٹ کے خلاف کارروائی کرو، کبھی وی آئی پیز کی سیکیورٹی کا مینڈیٹ دے دیا ۔

مینڈیٹ کے نام پر رینجرز سے ہر کام لیے جانے لگا ۔ جو اس کے شایان شان بھی نہ تھا ۔واٹربورڈ کی موجودگی کے باوجود رینجرز، پانی کے ٹینکرز سپلائی کرنے لگی ۔کے الیکڑک جیسے سفید ہاتھی کی موجودگی کے باوجود عوام کو بجلی فراہمی کے لیے رینجرز کو آگے آنا پڑا۔ دوسری جانب جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے ان پر خود کش حملے ، فائرنگ اور ہیڈ کواٹرز پر حملے آئے روز کا معمول بنتے چلے گئے۔لسٹیں الگ جاری ہونے لگیں کہ ماورائے عدالت قتل کیے گئے، لیاری نے اپنی فہرست توعزیز آباد نے اپنی فہرست جاری کی ۔

پولیس کہاں گئی،اس کے اختیارات کہاں گئے اس کی تنظیم نو پر توجہ کیوں نہیں دی گئی ۔ پولیس کو سیاسی عناصر سے پاک کیوں نہیں کیا گیا، سرحدوں کی محافظ رینجرزکوکالجوں ، میدانوں میں ڈیرے ڈالنے پرکئی عشروں سے مجبورکیا گیا۔ رینجرز کے لیے بجٹ مختص کیے جاتے رہے ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن جب بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اختیارات اور مینڈیٹ کی گردان شروع ہوگئی۔

جرائم پیشہ عناصر کے کوئی تو مائی باپ ہے نہ ، جن کی سرپرستی میں یہ کام کرتے ہیں۔ سیاسی جماعت کا جھنڈا اٹھا کر بے گناہ عوام کے سینے میں اتار دیتے ہیں۔کرپشن کی تاریخ رقم کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو سب کچھ بدل گیا ۔ اچھا بُرا ہوگیا، بُرا اچھا ہوگیا ۔جمہوریت کا فرسودہ نعرہ یک جہتی پھر بلند ہوا۔ اور تمام مفاد پرست محمود ایاز بن کر ایک صف میں کھڑے ہوگئے۔رینجرز کو کرائے کی فورس سمجھا جانے لگا۔سیاسی بنیادوں پر خواہشات پوری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔

اس وقت تو کسی نے رینجرز کی واپسی کی بات نہیں کی جب ہزاروں پختونوں اور بلوچوں کو گھروں سے باہر نکال کر میدانوں میں اوندھا باندھ کر ان میں جرائم پیشہ افراد تلاش کیے جاتے تھے۔ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کے نام پر ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر پوری کی پوری آبادی کا محاصرہ کرکے گھروں کی کئی کئی روز تلاشی لی جاتی تھی۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے اس وقت رینجرزکی واپسی کی بات کیوں نہیں کی گئی۔جب کراچی میں غریبوں کا خون بہایا جاتا ، مسجدیں دھماکوں سے گونجتی ، سرکاری پلاٹوں پر قبضے کرلیے جاتے، قیمتی زمینوں پر بلدیہ ٹاؤن کی ابتدا سے ڈیفنس تک چائنا کٹنگ کے نام کھربوں روپے عوام سے لوٹے جانے لگے۔

بھتے کے نام پرکھربوں روپے تاجروں سے چندہ لیے جانے لگا ، ہائیڈرنٹ کے نام پر کراچی کا پانی،شہر کے باسیوں پرکئی ہزارگنا مہنگا فروخت کیے جانے لگا تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔آج اگر کئی عشروں بعد رینجرز،عسکری قیادت کے بدولت کچھ با اختیار ہوئی ہے تو اپنے صبرکے پیمانے کو لبریز نہ ہونے دیں ۔ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے پر اسی کو تکلیف ہوتی ہے جس کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے۔

کراچی میں رینجرز کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن پہلے کراچی پولیس میں تطہیر کا عمل تو کریں ، ان میں اتنی استعداد کار تو پیدا کریں کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف رینجرز سے بڑھ کر کارروائی کرسکے۔ انھیں بے گناہوں کو گرفتار کرکے رشوت لینے اورگناہگاروں کو رشوت لے کر چھوڑنے کی تربیت تو دیں۔پڑھے لکھے نوجوان آنا چاہتے ہیں فورس جوائن کرنا چاہتے ہیں،کیمونٹی پولیس بنا کر علاقے میں غیر سیاسی پولیس تو پہلے بنائیں۔جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مخلص پولیس افسران کو آگے لائیں ، انھیں اختیارات دیں۔رینجرز ایک سیکنڈ کے لیے بھی کراچی میں نہیں رکے گی اگر حکومت پولیس کو حقیقی معنوں میں پولیس بنانے کے لیے حب الوطنی کا مظاہرہ کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔