مساجد، آگہی کے کچھ نکات

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 4 اگست 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک قاری نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ ہم نے جدیدیت کی خامیوں کی طرف تو کئی مرتبہ توجہ دلائی ہے اور ترقی سے پیدا ہونے والے خدشات پر بھی بات کی ہے مگر اس سلسلے میں مذہبی حوالے سے بات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بات یہ ہے مذہب کا معاملہ بڑا حساس ہوتا ہے، بات کو درست انداز میں سمجھانا اور سمجھنا آسان کام نہیں، یہ بات درست ہے کہ ترقی کی اندھی تقلید میں مذہب سے جذباتی وابستگی رکھنے والوں سے بھی نادانستہ طور پر کوتاہیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں، مثلاً ہم اپنی مساجد کے کل اور آج کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس کے استعمال یا فوائد کے حوالے سے بھی اور تعمیرات کے حوالے سے بھی بہت حد تک تبدیلیاں آ چکی ہیں۔

آج سے کوئی تیس چالیس سال پہلے شہروں میں مساجد کا رنگ و روپ کچھ اور ہی ہوتا تھا، مثلاً ایسی مساجد نظر نہیں آتی تھیں کہ جن کی چار دیواری کے ساتھ دکانیں تعمیر کر دی گئیں ہوں۔ آج اکثر مساجد کی تقریباً چاروں سمت باہر کی جانب کمرشل بنیادوں پر دکانیں نظر آتی ہیں، اگر یہ مساجد کسی بازار کے قریب ہوں تو آپ کو مسجد کا دروازہ تلاش کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسی مساجد بازار کی اور خود اپنی دکانوں کے ہجوم میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔

حالانکہ ہم نے سنا تھا کہ ایک مومن کو بازار سے کم سے کم گزرنا چاہیے، یعنی بازار میں وقت گزارنے کو اچھا نہیں گردانا گیا ہے، لیکن اس ترقی کا کیا کیا جائے کہ اس جدیدیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جس قدر رقم کی ضرورت ہوتی ہے وہ مساجد کی ان دکانوں کے کرایوں سے ہی پوری ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ آج مساجد کی یہ ’ضرورت‘ بھی پہلے جیسی نہیں رہی بلکہ ’ترقی‘ سے ہم آہنگ ہو گئی ہے۔

پہلے مساجد کے دروازے چوبیس گھنٹے کھلے ملتے تھے، نمازی جماعت کے وقت کے علاوہ بھی کسی بھی وقت نماز ادا کر سکتا تھا اور کوئی مسافر بھی دن ہی کیا رات کے کسی پہر بھی یہاں آ کر پڑاؤ ڈال سکتا تھا، یہ مساجد اتنی سادہ ہوتی تھیں کہ کسی چوری چکاری کا بھی کوئی خطرہ سرے سے موجود نہیں تھا۔ البتہ آج ہماری اکثر مساجد اس قدر قیمتی اشیاء سے آراستہ ہوتی ہیں کہ ان کی حفاظت کے لیے کسی مسجد کے درجن بھر خادمین بھی کافی نہیں ہوتے اور مساجد کو جماعت شروع ہونے اور ختم ہونے کے ایک آدھ گھنٹے کے فرق سے تالا لگا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ یوں اگر کوئی نمازی زیادہ لیٹ ہو جائے تو اس کا مسجد میں نماز پڑھنا تقریباً ناممکن ہی ہو جاتا ہے۔

یہ صورتحال کسی اسلام دشمن عناصر کے کسی سازشی عمل سے نہیں ہوئی بلکہ اس ترقی کے باعث ہوئی جس کی بدولت جدید اور قیمتی اشیاء ہماری مساجد کا لازمی جز بن گئیں۔ آج بہت سی مساجد میں نماز کے اوقات وغیرہ سے آگہی کے لیے جدید ڈیجیٹل الیکٹرانک بورڈ لگے ہوئے ہیں جب کہ اس سے قبل یہ کام مسجد کی دیوار پر چاک سے اوقات لکھ کر پورا کر لیا جاتا تھا۔ گاؤں دیہاتوں کی مساجد میں آج بھی انتہائی سادگی پائی جاتی ہے۔

سادگی تو اسلام کا ایک خاصہ بھی ہے۔ ذرا سوچیے کہ آج ہماری مساجد سے یہ سادگی ترقی کے نام پر کس طرح غائب ہو رہی ہے۔ مساجد اللہ کا گھر ہیں، ان کا تقدس سادگی سے عبارت ہے۔ دیہی علاقوں کی مساجد میں آپ کسی بھی وقت چلے جائیں وہ نہ صرف کھلی ہوں گی بلکہ آپ وہاں واش روم (استنجا خانہ) بھی استعمال کر سکتے ہیں، جب کہ آج شہروں کی مساجد میں عموماً استنجا خانہ بھی مخصوص اوقات میں کھلا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ یا تو بند ہو گا یا پھر آپ کو اس کے استعمال کے پیسے دینے ہوں گے، پھر یہ اتنے صاف بھی نہیں ہوتے۔ اسی طرح شہروں میں ٹائلز اور سنگ مرمر کے ساتھ بنائی گئی مساجد کے وضو خانے دیکھنے میں تو نہایت شاندار ہوتے ہیں مگر بیٹھنے کی جگہ اتنی کم کہ وضو کرتے ہوئے دائیں اور بائیں والے کے کپڑے آپ کے وضو کے پانی سے گیلے ہو جاتے ہیں، پھر وضو کا پانی جہاں گرتا ہے وہاں ایسی گہرائی بھی ہوتی ہے کہ کسی کا چشمہ یا گھڑی وغیرہ گر جائے تو آپ واپس اٹھا نہیں سکتے۔

یہاں اگر میں اپنے پلازہ کی ایک مسجد کی مثال پیش کروں تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس میں سامنے اور دائیں جانب صرف چار فٹ کی دیوار اور اس کے اوپر کے حصے پر شیشے کی سلائیڈ اور باریک جالیاں لگی ہوئی ہیں جس کے سبب بجلی جانے کی صورت میں یہاں زیادہ گرمی اور حبس نہیں ہوتا، میں اکثر سوچتا کہ اگر دوسر ی طرف کی دیواریں بھی ایسی ہی بنا دی جائیں تو بجلی جانے کی صورت میں اور بھی اچھا ماحول ہو سکتا ہے۔

ابھی گزشتہ رمضان میں یہاں مسجد کی انتظامیہ نے چندہ اکھٹا کر کے قبلہ کی جانب ایک بڑی سے دیوار کھڑی کر کے محراب اور سنگ مرمر کی کرسی خطبہ پڑھنے کے لیے بنا دی، ساتھ ہی شیشے کے ٹکڑوں سے اس تمام کو مزین کر کے دو چھوٹے چھوٹے فانوس لگا دیے۔ یوں اس عمل سے مسجد پہلے سے زیادہ سج گئی اور بظاہر خوبصورت بھی لگنے لگی، مگر ہوا اور روشنی کا راستہ رک گیا اور بلاوجہ اب تین عدد بلب اور ایک عدد پنکھا اضافی طور پر پانچوں وقت کی نماز میں چلنے لگا جس کی پہلے ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی، اب بجلی جانے پر پہلے سے زیادہ مشکل ماحول میں نمازی اپنی نماز ادا کرتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ شہروں میں تمام مساجد ایسی ہیں۔ ایسی مساجد بھی ہیں کہ جہاں کوئی کمرشل دکان مسجد کا حصہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی جگہ سرسبز لان اور درخت مسجد کے باہر کے حسن کو ہی دوبالا کیے ہوتے ہیں اور اندر جائیں تو اس قدر صفائی کا اہتمام ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ انسان ابھی اور وقت یہی گزارے۔

آیئے ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہ مساجد کا اصل مقصد کیا ہے؟ اسے شاندار عمارت کا نمونہ بنا کر قیمتی اشیاء سے آراستہ کر کے اس کی حفاظت کرنا اور اس غرض سے اوقات بھی مقرر کر دینا یا پھر یہ کہ نمازیوں کو بروقت، ہر وقت پاک صاف ہونے، وضو او استنجا کی سہولت اور نماز کی ادائیگی کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

اس سوال پر بھی غور کریں کہ ماضی کی وہ مساجد بہتر تھیں کہ جہاں صفحیں سادہ چٹائی کی بنی ہوئی ہوتی تھیں، بڑا کھلا صحن ہوتا تھا، کچھ مساجد میں درخت بھی لگے ہوتے تھے اور وہاں نمازیوں کو ہی نہیں بلکہ مسافروں کو بھی کسی بھی وقت آ کر آرام کرنے اور واش روم استعمال کرنے کی مفت سہولت ہوتی تھی یا آج کل کی مساجد کہ جو جدید آرائش سے آراستہ ہوتی ہیں مگر ان میں مخصوص اوقات کے علاوہ نمازی کا آنا بھی تقریباً ممنوع ہوتا ہے؟ مساجد کا اصل مقصد نماز کی سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ اس نکتہ کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔