مریخ پر پانی کس نے دیکھا۔۔۔۔؟

ع۔ر  جمعرات 8 اکتوبر 2015
سُرخ سیارے پر موجود تحقیقی گاڑیاں زیر زمین پانی سے ’ چھیڑ چھاڑ‘ نہیں کرسکتیں ۔  فوٹو : فائل

سُرخ سیارے پر موجود تحقیقی گاڑیاں زیر زمین پانی سے ’ چھیڑ چھاڑ‘ نہیں کرسکتیں ۔ فوٹو : فائل

گذشتہ دنوں ناسا نے مریخ پر پانی کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ امریکی خلائی ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاکہ سُرخ سیارے پر زیرِ زمین پانی موجود ہے، اور کسی زمانے میں وہاں ہماری زمین کے بحر منجمد شمالی و جنوبی سے بھی زیادہ بڑے سمندر موجود تھے۔

ناسا نے مریخ پر پانی کی موجودگی کی تصدیق اس سیارے پر بھیجی گئی خلائی گاڑیوں کی ارسال کردہ تصاویر کے تجزیے کے بعد کی گئی ہے۔

تاہم کسی نے سیارے پر بہتے ہوئے پانی کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔ یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مریخ پر دندناتی ہوئی خلائی گاڑیاں (Curiosity اور Opportunity) سرخ سیارے کی زمین کی تہ سے پانی حاصل کر کے اس کا نمونہ یا تصویر ارسال کر دیتیں اور اس مقام کی نشاندہی بھی کرتیں جہاں پانی تھا تو حالیہ اعلان کو حتمی سمجھا جاسکتا تھا۔ ناسا کے خلائی مرکز میں بیٹھ کر مریخ کی زمین کو کھوجتی خلائی گاڑیوں کو کنٹرول کرنے والے ماہرین کے لیے پانی کا نمونہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا کچھ مشکل نہیں، مگر وہ ایسا نہیں کریں گے!

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان خلائی گاڑیوں کو اس کام کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاسکتا، کیوں کہ یہ چودہ کروڑ میل کا فاصلہ طے کرکے زمین سے مریخ تک پہنچی ہیں۔ زمین سے پرواز کرتے وقت ہی ان کی باڈی پر ان گنت جراثیم کا ہونا یقینی ہے۔ اس کے علاوہ سفر کے دوران خلا سے بھی ان کی سطح پر گرد اور دوسرے جراثیم چمٹ گئے ہوں گے۔

اگر یہ گاڑیاں زیرِ زمین پانی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی تو وہ جراثیم سے آلودہ ہو جائے گا۔ آلودہ پانی کا تجزیہ کرنے پر اس میں زندگی کا سُراغ  پایا جائے گا، اور پھر یہ فیصلہ انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گاکہ خردبینی جان داروں کی صورت میں زندگی مریخ کے پانی میں پہلے ہی موجود تھی یا پھر یہ زمین اور خلا کے سفر کے دوران ساتھ چلے جانے والے جراثیم ہیں۔ اس طرح یہ غیریقینی صورت حال جہانِ سائنس کو کئی طرح کے مخمصوں اور پیچیدگیوں سے دوچار کردے گی۔

Curiosity اور Opportunity مریخ کے پانی میں ہاتھ کیوں نہیں ڈال سکتیں؟ جراثیم سے آلودہ ہوجانے کے خدشے کے علاوہ اس کی قانونی وجوہ بھی ہیں! جنوری 1967ء میں عالمی خلائی معاہدہ تشکیل دیا گیا تھا جو قانونی پابندیوں کی بنیاد ہے۔ 2013ء تک اس معاہدے پر 103 ممالک دستخط کرچکے تھے۔ یہ معاہدہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانوں اور اشیاء کی نقل و حرکت اور افعال کی حدود کا تعین کرتا ہے۔

اس معاہدے کے علاوہ ’کمیٹی آف اسپیس ریسرچ پلینیٹری پروٹیکشن پالیسی‘ (COSPAR ) کی عائد کردہ شرائط کے تحت بھی مریخ کو تحفظ حاصل ہے۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ مریخ جہاں حیات کی موجودگی کا امکان ہے، اسے کسی بھی طرح کے نقصان یا آلودہ ہونے سے بچایا جائے گا۔ یہ نقصان یا آلودگی خلائی گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچنے والے جراثیم سے بھی پھیل سکتی ہے۔ لہٰذا مریخ پر موجود پانی کو ’ چھیڑا ‘ نہیں جاسکتا۔

اس صورت حال کے تدارک اور سرخ سیارے کے پانی کے ذخائر تک رسائی کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ایک تجویز خلائی گاڑیوں کو جراثیم سے پاک کرنے کی ہے، مگر اس عمل کے دوران ان پر نصب آلات کے خراب ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ البتہ ExoMars اور Mars کو ایسے نظام سے لیس کیا جاسکتا ہے جس کی مدد سے یہ خود کو جراثیم سے پاک کرتے ہیں۔ یہ خلائی تحقیقی گاڑیاں بالترتیب 2018ء اور 2020ء میں زمین کے ہمسائے کی طرف روانہ کی جائیں گی۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صفائی کے خود کار نظام کے باوجود یہ کہنا مشکل ہوگا کہ یہ گاڑیاں جراثیم سے بالکل ہوسکتی ہیں۔ یوں سائنس داں ہنوز اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ مریخ کے زیرِ زمین پانی میں کیسے ’ہاتھ ڈالا‘ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔