ایک نئی تفریق، مسلمان اور حقیقی مسلمان

جاہد احمد  ہفتہ 21 نومبر 2015
 اچھے طالبان اور برے طالبان، بگڑے طالبان اور ناراض طالبان کے بعد داعش کے لئے پیش خدمت ہے ’’مسلمان‘‘ اور ’’حقیقی مسلمان‘‘۔ فوٹو: فائل

اچھے طالبان اور برے طالبان، بگڑے طالبان اور ناراض طالبان کے بعد داعش کے لئے پیش خدمت ہے ’’مسلمان‘‘ اور ’’حقیقی مسلمان‘‘۔ فوٹو: فائل

روئے زمیں پر موجود تمام تر حیات میں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز بنی نوع انسان کے درمیان ایسے قبیل بھی موجود ہیں جو علم و دانش کو پیروں تلے روند کر رجعت پسندی میں لتھڑے محض مخصوص مفروضات کی بنیاد پر نوعِ انسانی میں مزید تفریق پیدا کرتے ہوئے انسانوں میں بھی افضل و برتر اور اعلیٰ و ارفع ترین درجے پر فائز ہونے کے دعویدار ہیں۔ آج کے جدید دور میں ایسے رجعت پسند عناصر، جو دلیل کی نفی کرتے اصولوں کی بنیاد پر پروان چڑھے ہوں، اپنا وجود برقرار کھنے کا ایک ہی طریقہ جانتے ہیں جو بندوق کی نالی سے گذر کر تسلط قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔

فرانسیسی عوام نے گذشتہ جمعہ پیرس میں داعش کی جانب سے برپا ہونے والی بد ترین دہشت گردی کی کاروائی میں ہلاک ہوئے 129 افراد کی یاد میں موم بتیاں روشن کیں، تمام ملک میں یوں موم بتیاں روشن کرنے کا علامتی عمل ایسی انسانیت سوز مکروہ کاروائیوں کے مرتکب گروہوں کے خلاف نہ صرف قومی اتحاد اور بے خوفی کا پیغام دیتا ہے بلکہ بہادری سے اس عفریت کا مقابلہ کرنے کا اعادہ بھی کرتا ہے۔

یہ تو بات ہے ایک ایسی کافر فرانسیسی قوم کی جسے داعش کی ایک ہولناک کاروائی اور 129 افراد کے نقصان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے ایک نقطے پر لمحہ بھر میں متحد و متفق کردیا، جبکہ دوسری طرف بات ہے ایسی مومن پاکستانی قوم کی جس نے کم و بیش 60 ہزار افراد مذہب کے نام پر دہشت گردی میں کھونے کے باوجود کچھ بھی نہ سیکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

اگر پاکستانی قوم آج بھی شدت پسند اور بنیاد پرست عناصر کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر دہشت گرد کارروائیوں کی وجوہات اور محرکات کو سمجھنے سے قاصر ہے تو افسوس سے نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ ہزاروں افراد کی قربانی بھی منجمد ذہنوں میں ارتعاش پیدا نہ کر سکی۔ اس موقع پر پاکستانی قوم کا رویہ اور ردِعمل تو شاید باقی دنیا سے کہیں زیادہ متناسب اور فکر انگیز ہونا چاہیئے تھا لیکن معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں جو یقینًا پاکستانی جتھے کی غیر سنجیدہ اور سیکھ سے عاری کمتر اجتماعی سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔ درست وجوہات کو صرفِ نظر کرتے ہوئے بس محدود حد تک دہشت گردی کی مذمت کردینا ایسا بچگانہ رویہ ہے جو دور رس نتائج پیدا کرنے میں ناکامی کا سبب بنتا ہے، اسی طرح اصل وجوہات کو خود ساختہ اور من بہلاتی توجیہات کا لبادہ اوڑھا دینا کسی بھی مسئلے کے حل تلاش کرنے میں ناکامی پر منتج ہوتا ہے۔

پاکستانی جتھا ایسی توجیہات تخلیق کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا، زیادہ دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں، گذرے دس بارہ برسوں میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسند طالبان کے ہاتھوں روز کٹنے والی قوم اپنے قاتلوں کے حق میں ایسے ایسے دلائل پیش کرتے تھے اور اس اس سطح کی تفریقات پیدا کرتی تھی کہ طالبان بھی سوچتے ہوں گے! اچھا، کیا واقعی!!!

اصلی مسلمان طالبان اور نقلی امریکی و یہود و ہنود ایجنٹ طالبان، کیونکہ کوئی مسلمان تو کسی مسلمان کو یوں مار ہی نہیں سکتا، جب طے ہوگیا کہ دہشت گردی کرنے والے طالبان وطنِ عزیز کے ہی اصل سپوت ہیں تو ایک عدد نئی تفریق تخلیق کی گئی جس کے مطابق اصلی طالبان میں بھی دو گروہ تشریح کئے گئے اچھے طالبان اور برے طالبان، جب یہ معلوم ہوا کہ اچھے طالبان کی گولیوں اور خود کش حملوں میں اتنا ہی نقصان ہوتا ہے جتنا بُرے طالبان کی کاروائیوں سے تو گھڑا گیا کہ ہمارے بگڑے بھائی ہیں بس ذرا امریکی ڈرون حملوں سے ناراض ہیں۔

جب اسی ناراضگی اور ردِعمل میں سیکیورٹی اہلکاروں کے گلے بھی کاٹنے لگے تو پاکستانی قوم نے سمجھ لیا کہ اب شاید ان کے باقاعدہ دفاتر کھلوانے اور شریعت کے نفاذ کے حوالے سے مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے جبکہ ریاست کے اندر ریاست کا درجہ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، تب یہ ریاست میں فریق قرار پائے۔ آرمی پبلک اسکول تک بات پہنچی تو معلوم پڑا کہ دراصل سب ہی دہشت گرد ہیں اور یہ طالبان تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتے اور اب حالات یہ ہیں کہ دہشت گردوں پر پاکستانی بمباری سے کسی قسم کا کوئی باہمی نقصان نہیں ہوتا۔

مذہبی نظریات کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل اب بھی پاکستانی سوچ کو ذہنی الجھاؤ کا شکار کرتا ہے، حالانکہ پاکستان نے اس تمام عمل کو شروعات سے باقاعدہ تجربہ کیا ہے، نتائج دیکھے ہیں، بھاری قیمت بھی ادا کی ہے لیکن صد افسوس کہ سیکھا اور سمجھا انتہائی محدود انداز میں ہے۔ پاکستانی سوچ اب بھی ایسے تمام معاملات میں حقائق قبول کرنے سے انکار کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ پیرس واقعہ کے بعد بھی محرکات کو سمجھنے کے بجائے اور اس عفریت کے فوری سدِباب پر اپنے تجربات کی بنیاد پر پُرمغز بات چیت کے بجائے مذہب کی عالمگیریت اور حقانیت پر بحث کی جا رہی ہے۔ خالد احمد کے اشعار دریا کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں کہ،

دیکھنا یہ ہے کہ ہم سرِ کہسار کیوں آئے
قد بڑھانے اگر آئے ہیں تو بیکار آئے

جگہ جگہ قد بڑھا کر دکھانے کی ضرورت اسے ہوتی ہے جو پست قد ہو۔ سروقد کو قد ثابت کرنے کی کیا فکر، لیکن وہ پاکستانی ہی کیا جو الباکستانی منطق پیش نہ کرے تو اس ایک ہفتے کی تمام تر حشر انگیزیوں کا لبِ لباب یہ نکلا کہ دہشت گرد تنظیم داعش ’’مسلمان‘‘  تو ہے لیکن ’’حقیقی مسلمان‘‘ نہیں ہے۔ لہذا اب اصلی طالبان اور نقلی طالبان، اچھے طالبان اور برے طالبان، بگڑے طالبان اور ناراض طالبان کے بعد داعش کے لئے پیش خدمت ہے ’’مسلمان‘‘ اور ’’حقیقی مسلمان‘‘، دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی الباکستانی تفریق کب تک کام آتی ہے۔

طالبان اور داعش کی تفریق کے حوالے سے کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

جاہد احمد

جاہد احمد

جاہد احمد ایک لکھاری، ادیب و صحافی ہیں۔ اردو مجلے ماہنامہ "بیاض" کے شریک ایڈیٹربھی ہیں۔ ان سے رابطہ [email protected] پرکیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔