سپریم کورٹ بار الیکشن میں حامد خان گروپ کی شکست

خالد قیوم  منگل 6 نومبر 2012
 گورنر پنجاب لطیف خان کھوسہ نے بھی میاں اسرار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ فوٹو : فائل

گورنر پنجاب لطیف خان کھوسہ نے بھی میاں اسرار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ فوٹو : فائل

لاہور: سارک اسپیکر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے ایک اہم بات کی، ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب بھی کچھ ادارے پارلیمانی بالا دستی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔

ان کا واضح اشارہ سپریم کورٹ کی طرف تھا۔ صدرکے بیان سے چند روز پہلے عدالت عظمیٰ نے بلوچستان پر ایک اور فیصلہ دیا جس سے سیاسی حکومتوں کو کوئی خوشی محسوس نہیں ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ کہیں یوسف رضا گیلانی کے معاملے پر عدالتی حکم تسلیم کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی کو کم تو نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے سیاستدان تو درکنار وکلاء بھی زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ سپریم کورٹ بار کے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر حامد خان کے گروپ کے نامزد کردہ امیدوار احمد اویس کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں اسرارالحق وکلاء کے بہت بڑے رہنماء نہیں ہیں لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حامی گروپ کے صدارتی امیدوار کے خلاف وکلا کے تمام اہم دھڑے عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں اکٹھے ہوگئے۔

یوں میاں اسرار ہی نہیں بلکہ تمام عہدوں پر عدلیہ سے بعض معاملات پر اختلاف رکھنے والے پینل کو بھرپور کامیابی ملی۔ اسے اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلوں پر وکلا کا ردعمل بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ قانون دان حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ بعض فیصلے سیاسی ایجنڈے کا پتہ دیتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے بارے میں فیصلے پر شدید تنقید ہو رہی ہے جس عدلیہ نے وزیراعظم کو نکالا، خود کو اس کا حمایت یافتہ قرار دینے والا گروپ سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں اپنا صدر منتخب نہیں کراسکا۔ اس بار مسلم لیگ(ن) نے بھی احمد اویس کا ساتھ نہیں دیا۔

ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی رانا مشہود،سینیٹر ظفر علی شاہ، افتخار گیلانی، نصیر بھٹہ اور خواجہ محمود سمیت دیگر لیگی شخصیات نے بھی میاں اسرار کو ووٹ دیئے۔ احمد اویس آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل(ر) حمید گل کے قریبی عزیز ہیں۔ حمید گل نے احمد اویس کی حمایت کیلئے مسلم لیگ(ن) کی قیادت سے رابطہ بھی کیا مگر وہ ن لیگ کی قیادت کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار ملک قیوم اور پی سی او ججز نے میاں اسرار کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یٰسین آزاد کی صدارت کے دوران وکلاء کے رہائشی منصوبے سمیت دیگر کئی اہم مطالبات بھی منظور کرائے گئے، اس سے بھی الیکشن پر اثرات پڑے۔

وکلاء حلقوں میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ گورنر پنجاب لطیف خان کھوسہ نے بھی میاں اسرار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، وکلاء سیاست میں ان کا بڑا اثرو رسوخ ہے ۔ گورنر نے سپریم کورٹ بار کے الیکشن میںپارٹی کے اندر اور باہر وکلاء سے رابطے کئے اور انہیں میاں اسرار کی حمایت پر آمادہ کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ(ن) ، ایم کیوایم ، اے این پی اور دیگر جماعتوں کے وکلاء رہنماؤں کو بھی حمایت کیلئے فون کئے۔ دراصل اس بار سینیئر وکلاء نے عدلیہ کی بعض پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا ہے ۔ وکلاء کا ایک بڑا اعتراض یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ میں آئینی اور سیاسی کیسز پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور معمول کے کیسز کو کاز لسٹ میں نظر اندازکیا جاتا ہے، اس سے وکلاء متاثر ہورہے ہیںاور عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں مسائل کا سامنا ہے۔ عاصمہ جہانگیر گروپ نے لاہور ہائیکورٹ بار کے انتخابات کیلئے عابد ساقی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے۔ وہ لاہورہائیکورٹ بار کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور انہیں بارکے دیگر بااثر دھڑوں کی بھی آشیرباد حاصل ہے۔ ان کے مد مقابل حامد خاں گروپ کے محمد شاہ امیدوار ہیں۔وہ لاہور بار کے سابق صدر بھی رہ چکے ہیں ۔

اس وقت طاقت کے دو مراکز ، فوج اور عدلیہ میں بھی تناؤ دکھائی دے رہا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیانات زیر بحث ہیں ۔ ماضی میں ان دونوں اداروں میں موافقت رہی ہے۔ عدلیہ نے ہر فوجی حکومت کو جائز قراردیا ۔ 65سال میں پہلی بار فوج اور آئی ایس آئی کے کردار پر عدالتوں میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی بحالی میں فوج کا کردار ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے بھی ہمیشہ فوج کے لیے گنجائش رکھی اور ایک موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ جب کچھ لوگ ان سے استعفیٰ لینے کیلئے آئے تو جنرل کیانی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔مسلم لیگ (ن) کے حلقے بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے چیف جسٹس کو بحال کرایا۔ سابق صدر غلام اسحاق کے دور میں مہران بینک کے پیسے نوازشریف اور دیگر سیاستدانوں نے لئے جبکہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے تقسیم کئے لیکن فیصلہ آج کے ایوان صدر کے خلاف دیا گیا ہے کہ ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں ہونا چاہیئے اور صدر غیر سیاسی ہونا چاہئے۔

پیپلزپارٹی کے حلقے کہتے ہیں کہ وحیدہ شاہ کو تو نااہل قراردیا جاتا ہے مگر وزیراعلیٰ شہباز شریف ساڑھے چار سال سے حکم امتناعی پر چل رہے ہیں، شریف برادران کے خلاف نیب ریفرنس لانے پر عدالتوں میں حکم امتناعی ہے ۔ اصغر خاں کیس میں اسلم بیگ اور اسد درانی سپریم کورٹ میں پیسے تقسیم کرنے کا بیان حلفی دے چکے ہیں، انہیں سزا دے دی گئی ہے مگر آئی جے آئی اور شریف برادران کا ذکر بھی نہیں ہے۔ فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک سیاسی اتحاد کو فائدہ پہنچانے کیلئے پیسے بانٹے گئے۔اس وقت ملک میں بے یقینی کی فضا بڑھ رہی ہے، کیا ہی بہتر ہو کہ سپریم کورٹ اور دیگر مقتدر ادارے آئین اور قانون کی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے آئندہ انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔