بنت حوا بمقابلہ ابن آدم

ملیحہ خادم  ہفتہ 27 فروری 2016
یہ خدشہ اپنی جگہ درست ہے کہ ایسے قوانین کا بے جا استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ قانون واقعی اپنی اصل شکل میں نافذ ہوجائے تو کئی بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچ جائینگی۔ فوٹو: فائل

یہ خدشہ اپنی جگہ درست ہے کہ ایسے قوانین کا بے جا استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ قانون واقعی اپنی اصل شکل میں نافذ ہوجائے تو کئی بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچ جائینگی۔ فوٹو: فائل

پنجاب اسمبلی نے خواتین پر تشدد کے خلاف بل منظور کرکے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اس بل کے نتیجے میں بننے والے قانون کے تحت صنف نازک پر کسی بھی قسم کا تشدد کرنیوالے کو نہ صرف سزا بلکہ جرمانہ بھی بھگتنا پڑسکتا ہے نیز دو دن کیلئے گھر بدر بھی ہونا پڑسکتا ہے۔
لیکن اس بل کی منظوری کے فوری بعد اسکے مخالفین بھی میدان میں آگئے ہیں جو ایسے قوانین کو خاندانی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہوئے یہ نقطہ اٹھا رہے ہیں کہ اسطرح طلاق کی شرح بڑھ جائیگی جبکہ کچھ لوگوں کو اس کے خلاف شریعت ہونے کا بھی احتمال ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے شکوک و شبہات اٹھانے والوں میں عام لوگوں کو چھوڑ کر مرد اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ کئی عالم دین بھی شامل ہیں جو انتہائی حیران کن ہے، کیونکہ معاشرے اور مذہب میں مرد اور عورت کے کردار کو ایسے لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں جو صحیح دینی تعلیم رکھتےہوں یا ایوانوں میں بیٹھ کر ہم سب کیلئے قانون سازی کرتے ہوں۔
لیکن اس معاملے میں انکی عقل ودانش عجیب نہج پر پہنچ گئی۔ کسی کو ’زن مریدی‘ کا طعنہ یاد آیا تو کوئی مردوں کے حقوق پر بول پڑا جسکی وجہ سے تاثر یہ بن گیا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حقوق کی بات کرنا عبث ہے حالانکہ ہم سب کو تو ہمیشہ یہ کہہ کر عورت کی عزت کرنا اور اس پر ہاتھ اٹھانے سے گریز کرنا سکھایا جاتا ہے کہ مہذب اور خاندانی لوگوں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔ جہاں تک شریعت کا سوال ہے تو وہاں بھی عورت کی عزت و تکریم کو بہت اہمیت حاصل ہے، ہمارے سامنے حضور اکرمﷺ کی مثال بھی تو ہے جو ازوج مطہرات کے ساتھ انتہائی مہربانی سے پیش آتے اور اپنی بیٹی سے محبت اور شفقت کا سلوک روا رکھتے اور دوسروں کو بھی اپنے گھر میں ایسا ہی طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ایسے مجسم رحمت کی امت ہوتے ہوئے بھی ہمارے یہاں بیوی، بہو، بیٹی کو مارا پیٹا جاتا ہے، سر کے بالوں سے لیکر پاؤں کے ناخن تک اس کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے اس کے ہاتھ پاؤں توڑ دیتے ہیں، ناک کان ہونٹ کاٹ دیتے ہیں، اور جب اِس پر بھی تسکین نہ ہو تو زندہ جلا دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔ پھر بھی ہمیں لگتا ہے کہ ہم اسلامی اقدار کی پاسداری کررہے ہیں اور عورت پر تشدد کے خلاف ہونے والی قانون سازی ہمیں مغرب زدہ سیکولر بنادیگی۔ یعنی چلتے پھرتے اس کو ایذا پہچانا، جو جسمانی طور پر مرد سے کمزور ہے، ہماری روایات اور مذہبیت کی دلیل ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ ایسے ذہنی اور جسمانی دباؤ کا شکار خواتین کس عذاب میں زندگی گزارتیں ہیں اورایسا کرنیوالا اسلامی تعلیمات سے کتنی روگردانی کررہا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں رہنے والی ہر عورت مظلوم ہے۔ جسطرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں بالکل اسی طرح نہ ہر مرد ظالم اورنہ ہر عورت مسکین ہے۔ لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستانی معاشرے میں کتنی ہی عورتوں کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ انھیں گھر کے علاوہ آفس، سڑکوں، شاپنگ پلازوں ہرجگہ ناروا سلوک کے ساتھ ساتھ گھٹیا جملہ بازی، غیر ضروری ایکسرے نما گھوریاں اور دھکم پیل جیسی مکروہ حرکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انکار اس سے بھی نہیں ہے کہ اکثر گھروں میں ہونیوالے تشدد میں عورت ہی عورت کےخلاف مرد کو اکساتی ہے۔ کبھی نند نے بھابھی کو اوقات یاد دلانی ہوتی ہے تو کبھی ساس نے بہو کو۔ کہیں بہو بوڑھی ساس کو اپنی حاکمیت باور کروارہی ہوتی ہے اور کہیں بھابھی نند سے حساب چکتا کرتی ہے۔ اسکے باوجود خواتین پر ہونیوالے جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا خاتمہ ازحد ضروری ہے کیونکہ عورت ہی آئندہ نسلوں کی تربیت کی امین کہلاتی ہے لیکن جو خود ہی نفسیاتی توڑ پھوڑ کا شکار ہو وہ کیا تربیت کریگی۔
نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی بہترین قوم دوں گا۔ اور ہم آج کے دور میں تعلیم تو دور، عورتوں کو فرسودہ روایات اور پنچایتی فیصلوں کی جہالت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ہماری منافقت کی حد دیکھیں کہ ہم شرمین عبید چنائے اور ملالہ یوسفزئی کی پذیرائی کرتے ہیں۔ مریم نواز شریف کی باتوں کی تائید کرتے ہیں، محترمہ بینظیر بھٹو کا نام ادب سے لیتے ہیں شاید صرف اسلئے کہ انکی سوچ اور کام پر گورے نے ’اپرووڈ‘ کا ٹھپہ لگادیا ہے، لیکن ایسا کوئی قانون جس سے جسمانی اور ذہنی کرب سہتی کسی عورت کی بہتری کا امکان ہے وہاں ہم مذہب اور اقدار کی بانسری بجانا شروع کردیتے ہیں۔ اسلئے کہ خواتین کو دبانے اور دھمکانے سے ہماری جھوٹی انا قائم رہتی ہے یا اسلئے کہ بچپن سے ہی اپنی طاقت اور مردانہ حاکمیت کا سبق کچھ یوں ازبر کروایا جاتا ہے کہ کبھی کبھی تعلیم اور شعور بھی اسکا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔
یہ خدشہ اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ایسے قوانین کا بے جا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ قانون واقعی اپنی اصل شکل میں نافذ ہوجائے تو کئی بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچ جائینگی ورنہ تو اخبارات اور نیوز چینلز کسی نہ کسی عورت پر ہونیوالے ظلم کی داستان بیان کرتے رہینگے اور آپ اور میں اسکو روٹین نیوز کی کیٹیگری میں ڈال کر اگلی خبر پر توجہ مرکوز کردینگے۔

پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ بل کو کیا آپ ٹھیک سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔