بڑھتی ہوئی آلودگی

شاہین رحمن  جمعرات 17 مارچ 2016

آسمانوں کو چھونے والے کوہسار، ہری بھری وادیوں اور گھنے جنگلات، اس کرہ ارض کی خوبصورتی کا وسیلہ ہیں۔ تاہم بے شمار اقسام کے پھول و پودے، مچھلیاں، جانور اور چرند پرند نے بھی اس دنیا کے حسن کو چار چاند لگا رکھے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ دنیا رنگ برنگی، پھولوں، تتلیوں، پرندوں کی چہکار اور درندوں کی دھاڑ سے محروم ہو جائے تو کتنی سونی دنیا لگے گی۔ انسان اور جانوروں کا ساتھ دراصل آج کا نہیں صدیوں کا ہے۔

جب سے انسان نے اس کرہ ارض کو اپنا مسکن بنایا ہے۔ جانور اور پرندے بھی اس کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں۔ زمانہ قدیم میں انسان جانوروں کا شکار کر کے اپنی بھوک مٹایا کرتا تھا۔ آج انسان نے خوراک کے نت نئے ذرایع تلاش کر لیے ہیں۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بے شمار جانور اور پرندے آج بھی انسان کی اس ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، ایک طرف انسان جانوروں اور پرندوں کی لذیذ خوراک کے لیے جنگلوں میں ان کا شکار کھیلتا ہے تو دوسری طرف ان کی بیش قیمت کھالوں اور چمڑوں کے لیے بھی ان کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے حیاتی مسکن یعنی جنگلات اور سمندر کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔

اگرچہ آج کا انسان تجرباتی طور پر خلاؤں میں قدم رکھ چکا ہے، چاند کی سرزمین اس کے قدم چوم چکی ہے لیکن تاحال اس کے لیے بھی موزوں ترین اور محفوظ ترین پناہ کرہ ارض ہی ہے۔ یہ مختلف وسائل کا ایسا سرچشمہ ہے جو مدتوں سے اس کی تمام تر ضرورتیں پوری کر رہا ہے لیکن گزشتہ دو صدیوں کے دوران ہونے والی نام نہاد صنعتی اور معاشی ترقی نے اور خاص طور پر بیسویں صدی میں ایک اور دو کے تناسب سے بڑھتی ہوئی آبادی نے زمین کے ماحول کو شدید خطرات  سے دوچار کر دیا ہے۔

سڑکوں پر دوڑتی، شور مچاتی دھواں اڑاتی گاڑیاں، فصلوں کی حفاظت کے لیے حشرات کش ادویات کا بے جا اور بے محل استعمال ماحول کو آلودہ کر رہا ہے، درخت بے دریغ کاٹے جا رہے ہیں، انڈسٹری کے نام پر غیر معیاری اور اصولوں سے ہٹ کر کام کیے جا رہے ہیں، ان سے نکلنے والی گیس اور بیشتر مادے ہوا اور پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ اسی آلودگی کے باعث اوزون کی تہہ دن بہ دن پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ جب یہ ختم ہوجائے گی تو کیا ہوگا؟ یہ سوچ سوچ کر سب پریشان ہیں، لیکن اس کے باوجود آلودگی کے جن کو انسان خود شہ دے رہا ہے۔

ہماری موجودہ نسل اکثر اپنے بزرگوں کی زبانی ماضی کے حوالے سے اس خطے کے موسمی حالات کے بارے میں باتیں سن کر حیران ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے خطے میں سردیوں کا موسم بہت شدید ہوا کرتا تھا۔ موجودہ نسل سخت سردی کے قصوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، یہی سمجھا جاتا ہے کہ پرانے لوگ ماضی کے قصوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب رنگ برنگی تتلیاں اڑتی ہوئی اکثر گھروں میں لگے پودوں، کیاریوں میں لگے پھولوں پر آکر بیٹھ جایا کرتی تھیں، کوئل کی کوک کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی تھی، جب کہ صبح صبح کی میٹھی میٹھی نیند سے بیداری کا عمل بھی چڑیوں کی چہچہاہٹ سے ہوتا تھا، درختوں پر گلہریاں ادھر سے ادھر بھاگتی دوڑتی نظر آتی تھیں، جب کہ بلبل چہک چہک کر ماحول کو خوشگوار کردیتی تھی۔

رات کے وقت پارکوں اور باغات میں جگنو ضرور نظر آیا کرتے تھے اور برسات کے موقع پر بارش تھمتے ہی بیربہوٹی بچے پکڑ پکڑ کر جمع کیا کرتے تھے، لیکن اب قدرت کے یہ حسین مناظر اور نمونے نایاب ہوگئے ہیں۔ ان قدرتی ماحول کے خاتمے میں انسان خود پیش پیش ہے۔ انسان کے صنعتی گاڑیوں کے دھوئیں اور دیگر ذرایع کے بے دریغ استعمال سے ماحول میں پھیلنے والی زبردست آلودگی نے تمام مناظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور قدرتی حسن کے مناظر کو گہن لگا دیا ہے۔

یہ سب قدرتی شاہکار ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے ہیں ویسے قدرت کے شاہکار دیکھنے کے لیے سوات اور گلگت اور ہمارے ناردرن ایریا میں تو بے شمار حسین مناظر قدرتی خوبصورت مناظر کا منبع ہے۔

ہمارے پاس آج بھی سرسبز باغات ہیں لیکن ان میں چہچہاتے پرندے مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔

اب پرندے نہ ہونے سے گھروں میں لگی پھلواریاں سونی ہوگئی ہیں ان کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔

پرندے جس قدر حسین ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ نازک مزاج بھی ہوتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی اور موسموں کی سختی سے بچنے کے لیے انھیں اب کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات کسی بھی بڑے المیے سے کم نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جانور اور پرندے مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر مر رہے ہیں یا ایسے علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں جہاں سبزہ زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کی نئی نسل بے شمار پرندوں سے نا آشنا ہے۔ کیا ہماری آیندہ نسل چڑیوں، جگنوؤں، تتلیوں کو دیکھنے سے محروم ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔