بچوں کی کہانیاں

غلام محی الدین  پير 12 نومبر 2012
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

بچپن کا زمانہ ایک الگ اور انوکھی دنیا کی طرح ہوتا ہے۔

اس دور میں ایک تو وہ معاشرتی ماحول ہوتا ہے جو ہمارے اردگرد حقیقت میں موجود ہوتا ہے اور ایک وہ دنیا ہوتی ہے جو ہر بچے نے اپنے ذہن میں آباد کر رکھی ہوتی ہے۔ بچوں کی یہ دنیا ان کے مشاہدات‘ تجربات اور مختلف ذرایع سے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں وجود پذیر ہوتی ہے۔ کہانیاں اس خوابناک دنیا کی تخلیق میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کہانی کا وجود اتنا ہی قدیم ہے جتنا اس زمین پر انسان کی آمد کا واقعہ پرانا ہے۔ کہانی کا یہ سفر ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

کہانی سے ہماری شناسائی اسکول میں باقاعدہ تعلیم کے لیے بھیجے جانے سے بھی بہت پہلے ہو جاتی ہے، اس لیے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ تعلیم کے لیے بھی کہانی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ گھر کی بڑی بوڑھیوں سے کہانی سننے کی روایت ہر اس جگہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جہاں انسان بستے ہیں۔ یہ پوری انسانیت کی مشترک روایت ہے۔ کہانی کے اثرات کی کئی پرتیں اور دسیوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ یہ ہماری اخلاقی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے، اس کے ذریعے زندگی کی حقیقتوں کی معرفت حاصل ہوتی ہے، یہ ہمیں کچھ کر گزرنے پر آمادہ کر سکتی ہے اور کچھ کرنے سے باز رکھ سکتی ہے، یہ ہمیں سماجی رشتوں اور گھریلو زندگی کے تانے بانے کی نزاکتوں سے آگاہ کرتی ہے، یہ حکمت و دانائی کے چشمے کی طرح ہوتی ہے جس سے ہر نسل سیراب ہوتی رہتی ہے اور اس میں فکر ودانش کے نئے زاویے دریافت ہوتے رہتے ہیں۔

میرا اپنا بچپن کہانیوں کے سحر میں گزرا ہے۔ گلی میں ہمارے خاندان کے ساتھ ساتھ چار گھر تھے۔ میرے تایا کے گھر کی اوپری منزل کا ایک پرانی وضع کا کمرہ بچوں کے لیے مخصوص تھا۔ خاندان کے سب بچوں کا وہاں ٹھکانا تھا۔ یہ کمرہ رسالوں اور کتابوں سے بھرا رہتا تھا۔ گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ بس اسٹینڈ کے ساتھ بلدیہ کی پرانی عمارت ہوا کرتی تھی جس کے پہلو میں ایک تنگ گلی کے اندر ردی اخباروں‘ کتابوں رسالوں کے کاروبار سے منسلک چند دکانیں ہوا کرتی تھیں، یہاں ہمارا اکثر پھیرا رہتا تھا۔ بچپن سے ہی بچوں کے لیے پاکستان میں چھپنے والے رسالوں اور کتابوں کے معیار کو لے کر ہم شدید احساس کمتری کا شکار رہے اور یہ احساس کمتری ہمارے ساتھ پروان چڑھتا رہا۔ باہر کے ملکوں میں چھپنے والے بچوں کے لٹریچر سے شناسائی نے ہمارے اس احساس کو شدید تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ہمارے چچا اور سب سے بڑے کزن جب لاہور جاتے تو ہمارے لیے کہانیوں کی غیرملکی کتابیں لے آتے۔ ان میں روسی اور چینی لوک کہانیوں کے اردو تراجم ہوتے۔ ان دونوں ملکوں میں ایسے ادارے تھے جو وہاں کے اعلیٰ لٹریچر کو دنیا کی تمام اہم زبانوں میں چھاپ کر دنیا بھر میں بھیجا کرتے۔ اس طرح امریکا اور برطانیہ میں چھپی ہوئی انگریزی کتابیں بھی ہم تک پہنچتیں، جن کا ترجمہ ہم اپنے بڑوں سے سنا کرتے۔ ان کُتب کا ہمارے ہاں چھپنے والے رسالوں اور کتابوں سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ہم اکثر یہ سوچا کرتے کہ ان ملکوں میں بچوں کو کتنی غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے کہ وہاں کے چوٹی کے ادیب ان کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں اور مایہ ناز مصور انھیں تصاویر سے مزین کرتے ہیں۔

میں نے ایک طویل مدت تک سیکڑوں کتابوں اور رسالوں کا ذخیرہ محفوظ کیے رکھا لیکن لاہور شفٹ ہونے کے بعد وہ سب بارش کی نذر ہو گیا۔ ان کتابوں کی زندگی سے بھرپور مصوری آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے اور وہ کہانیاں آج بھی یوں حافظے میں تازہ ہیں جیسے آنکھوں دیکھا واقعہ ہو۔ امریکا سے چھپی ہوئی ایک کتاب جس کی جلد اور صفحات پر سب تصاویر پر گہرے سبز رنگ کا غلبہ تھا اور اس کی کہانی ایک بڑے امریکی کچھوے کے بارے میں تھی جو اپنے تالاب کے اونچے کنارے پر چڑھ کر بارش سے بنی کیچڑ میں پھسلا اور الٹ گیا۔ بات جنگل میں پھیلی تو کئی جانور مدد کو آئے۔ سب نے زور لگایا لیکن اسے سیدھا نہ کر پائے۔

آخر میں لومڑی نے آ کر یہ مسئلہ چند لمحوں میں حل کر دیا کہ، احمقو! اسے دھکیل کر تالاب میں گرا دو، پانی میں جا کر خود ہی سیدھا ہو جائے گا (امریکا میں دنیا کے سب سے بڑے کچھوے پائے جاتے ہیں) کس خوبصورتی سے بچوں کو تدبیر کے گر سکھائے جاتے ہیں۔ یا وہ روسی کہانی جس میں بچے اپنے دادا اور دادی کے پاس رہ رہے ہوتے ہیں تو ایک روز دادی ان کے لیے رس گُلے بنا کر رکھتی ہے۔ ہر بچے کے لیے ایک رس گلا ہوتا ہے لیکن ننھا میشا نظر بچا کر دو رس گلے کھا جاتا ہے۔ بچوں کے دادا سب کو بُلا کر پوچھتے ہیں تو سب خاموش رہتے ہیں۔ اس پر دادا کہتے ہیں کہ انھیں رس گُلے کھونے کی تو کوئی پروا نہیں وہ تو صرف اس بات پر فکرمند ہیں کہ کھانے والا کہیں ساتھ میں گُٹھلی بھی تو نہیں کھا گیا، کیونکہ رس گلے کی گٹھلی تو بہت خطرناک ہوتی ہے۔ یہ بات سن کر میشا کی آنکھوں میں آنسو گرنے لگتے ہیں اور وہ کہتا ہے‘ دادا جی، رس گلے میں تو کوئی گُٹھلی نہیں تھی۔

بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق یہ کہانیاں دانش‘ سبق اور لطف سے بھرپور ہوا کرتی تھیں۔ روس کی قدیم لوک کہانیوں میں بابا یاگا جادوگرنی کا کردار منفی ہونے کے باوجود خوفناک نہ تھا اور جنگل میں اس کا جو گھر تھا وہ مرغ کی ٹانگوں پر کھڑا تھا۔ یہ ایسی کتابیں تھیں کہ ہم ان کے اندر جا کر رہا کرتے تھے۔ جس کتاب میں رس گُلے والی کہانی تھی اسے پنسل ڈرائنگ سے سجایا گیا تھا۔ ہر تصویر اپنی جگہ ایک شاہکار تھی۔ بچوں کے چہروں کے تاثرات دادا اور دادی کے چہرے کی جھریاں‘ گھر کے پچھواڑے اُگے پیڑ پودے‘ چیڑ اور دیودار کے دیوہیکل درخت اور ان کے تنوں کے اردگرد اُگی کھمبیاں‘ سب کچھ اتنا اصل تھا کہ تخیل میں ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی تھی۔

ہم اس حسرت کے ساتھ بڑے ہوئے کہ اگر اسی معیار کی کتابوں کے ذریعے ہماری اپنی لوک کہانیوں کی عکاسی کی جائے تو کیسی ہو گی۔ ہمارے تخیل کے سب حوالے بدیسی کرداروں‘ پس منظر‘ لباس‘ خوراک اور ماحول سے متعلق ہوا کرتے تھے۔ اپنی کہانیوں کا تعارف صرف زبانی تھا جو کبھی کبھار سننے کا اتفاق ہوتا تھا۔

میں آج بھی اس اہتمام کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں جو ترقی یافتہ ملکوں میں بچوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ بچوں کی فلمیں‘ کارٹون‘ کامک اور کتابیں معیار میں کسی سے کمتر نہیں ہوتیں۔ ہمارے کریڈٹ پر آج تک کا سب سے کامیاب کام ’عینک والا جن‘ جیسا تھرڈ کلاس پروگرام ہے۔

آج کے کالم کے لیے ذہن میں کچھ اور تھا لیکن اخبار میں تبصرے کے لیے آنے والی کتابوں میں سے ایک کتاب کو دیکھنے کے بعد میں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ شاید کتابوں کے بارے میں‘ میں زیادہ باخبر نہیں ہوں، اس کے باوجود یہ کہوں گا کہ یہ کتاب بچوں کے لیے پاکستان کے اندر شایع ہونے والی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے اور یقینا بہترین کتابوں کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ اس کتاب کا نام Stories of the Prophets ہے اور اسے مقبول بکس، دی مال لاہور نے شایع کیا ہے۔ انبیاء کرامؑ کی کہانیوں پر مشتمل اس کتاب کے لیے عاصم مغیث نے مصوری کی ہے۔ تصاویر کے لیے رنگوں اور دیگر میٹریل کا انتخاب اس طرح کیا گیا ہے کہ نظر پڑتے ہی قدامت کا احساس ہوتا ہے اور انسان اس ماحول کو محسوس کرنے لگتا ہے جس کی کہانی بیان کی جا رہی ہے۔

انگریزی زبان میں لکھی گئی ان کہانیوں کی زبان اتنی آسان ہے کہ پڑھنے والے بچوں کو انگریزی زبان سیکھنے میں آسانی ہو گی۔ اس کتاب کے پس ورق پر اس سلسلے کی اور کتابوں کے نام بھی تحریر ہیں، لیکن کتاب کی قیمت کہیں نہیں لکھی‘ یقینا یہ ایک مہنگی کتاب ہو گی لیکن اتنا تو ہوا کہ یہ احساس پیدا ہو گیا کہ کتاب کا معیار کیسا ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو بھی ممکن بنانا ہو گا کہ بے وسیلہ بچوں تک بھی ہماری اپنی بنائی ایسی معیاری کتابیں پہنچیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔