ملا رہا ہے کوئی زہر

نعیم شاہ  بدھ 20 اپريل 2016
naeemshah802@gmail.com

[email protected]

میں جب بھی اسے دیکھتا، وہ پاکستان مخالف، منفی، سنسنی خیز خبریں نشر کرنے والا کوئی ٹی وی چینل لگا کر بیٹھا ہوتا۔ سب برا ہے کا بھرپور پرچار کرتی خبروں کے مزے لے رہا ہوتا۔ ریموٹ میرے ہاتھ لگنے پر میں پاکستان میں ہونے والی تعمیروترقی، جدید ٹرانسپورٹ کی فراہمی، کم ہوتی لوڈشیڈنگ، پٹرول کی قیمتیں، دہشت گردی، ملک کے حالات میں ہوتی بہتری، لاہور اور راولپنڈی کے بعد ملتان اور کراچی میں تعمیر ہوتیں میٹروبسیں، اورنج لائن جیسی حوصلہ افزاء خبریں نشر کرنے والا کوئی نیوز چینل تلاش کرنے لگتا، مگر اسے ان تعمیری خبروں میں کوئی خاص دلچسپی نہ ہوتی، اس کا انتخاب کوئی منفی، سنسنی پھیلانے والا چینل ہی ہوتا۔

یہی حال میرے دوستوں کا بھی تھا، میں جب کبھی ان کے ساتھ بیٹھا ہوتا، وہاں بھی موضوع گفتگو پاکستان مخالف، مایوسی پھیلانے والی منفی گفتگو ہی ہوتی، جن سے سوائے مایوسی اور وقت کے ضیاع کے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ میں ان موقعوں پر جب ان کی توجہ ملک میں ہوتے کچھ تاریخی مثبت اقدامات اور پیشرفت پر مبذول کرانے کی کوشش کرتا تو وہ اس میں انٹرسٹڈ نہ ہوتے، وہ ان حوصلہ افزاء خبروں میں سے بھی کوئی منفی پہلو نکال کر اس پر طنز کرتے ہوئے فوراً ہی دوبارہ ملک کی تباہی و بربادی پر ماتم کرنے والے موضوع کی طرف لوٹ جاتے، ان کا انتخاب بھی ہمیشہ اس طرح کے موضوعات ہوتے۔

میں سوچنے لگتا کہ انھیں آخر اپنے ملک میں ہونے والی ترقی سے زیادہ اس کی تباہی میں دلچسپی کیوں ہے۔ وہ اپنے ملک یا کسی ہم وطن کے کارنامے کو تسلیم کرنے، سراہنے کے بجائے فوراً اس کے مقابلے میں کسی دوسرے ملک چاہے وہ بھارت اور بنگلہ دیش ہی کیوں نہ ہو کی تعریف کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر اپنے ہموطنوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کی زبانوں پر تالے پڑ جاتے۔ ان کی باتیں سن کر مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ پاکستان کے نہیں، ان ممالک کے شہری ہوں۔ اس مخصوص بیماری کی جتنی شدت میں نے پاکستانیوں میں محسوس کی کسی دوسری قوم میں نہ کی۔ باریکی سے غور کرنے پر مجھے سمجھ آیا کہ ہمارے اس رویے کی ایک وجہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی ہے۔

انسان جب بیمار ہو تو لذیز ترین غذا بھی بد ذائقہ محسوس ہوتی ہے۔ بیماری کے اس عالم میں اگر اس کے سامنے من و سلویٰ بھی رکھ دیا جائے تو وہ ایک نوالہ لیتے ہی منہ بسورتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم لوگوں میں بھی یہ بیماری کافی حد تک سرائیت کر چکی ہے، مگر ایک منٹ … یہ بیماری اپنے آپ نہیں، ہمیں اس مرض میں باقاعدہ ایک حکمت ِ عملی کے تحت مبتلا کیا گیا ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں کئی دہائیوں سے بڑی مستعدی سے ہم ہی میں موجود اپنے آلہ کاروں کی مدد سے ہمیں اس مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں۔ ہم مسلمانوں کی یہ بڑی بد نصیبی رہی ہے کہ اسلام جیسا عظیم دین اور ضابطہ حیات ہونے کے باوجود ہر دور میں ہمارے اندر میرجعفر پیدا ہوتے رہے ہیں جنھوں نے اپنی لالچ و دنیاوی ہوس کی خاطر امت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کبھی ہچکچاہٹ و عار محسوس نہیں کی۔

آج بھی ہمارے ٹی وی، اخبار، سیاست، کھیل ہر ادارے میں موجود ایسے کردار بڑی جانفشانی سے شب و روز اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ کبھی کسی صورت پاکستانی قوم کو مایوسی اور احساسِ کمتری سے نکلنے نہ دیا جائے۔ خواہ ان کے ہاں کتنا ہی کچھ اچھا کیوں نہ ہو رہا ہو، انھیں یہی بتایا اور احساس دلایا جائے کہ سب برا ہو رہا ہے۔ ان کا کوئی لیڈر کتنے ہی بحرانوں، اندھیروں سے ملک کو نکال کر ترقی اور روشنیوں کی طرف لے جائے، مگر عوام میں اپنے فن و لفاظی سے اس کے کردار کو مشکوک بنایا جائے، یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان کا کبھی کوئی لیڈر مخلص ہو ہی نہیں سکتا، ان سے ان کی امید چھین لی جائے، انھیں برین واش کر دیا جائے کہ اس ملک کا کبھی کچھ نہیں ہو سکتا۔ تیزی سے مختصر وقفوں میں ان کی حکومتیں بدلی جائیں، خصوصاً کسی بہتر لیڈر کو زیادہ دیر تک کام کرنے کا موقع ہرگز نہ دیا جائے، کیونکہ یہی کسی قوم کو مٹانے کا بہترین طریقہ ہوتا ہے۔

ہم میں موجود ایسی بیمار روحوں والے چند کردار، دانشوروں کا لبادہ اوڑھے اپنے قلم و زبان کو ملک و قوم کی ترقی کے خلاف بڑی کم ظرفی و خودغرضی سے صرف اپنی عیاشیاں اور سیر و سیاحت کے خرچے پورے کرنے کی خاطر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ لوگ خنزیر کو ہرن اور شیر کو گیدڑ ثابت کرنے کے لیے اپنی الہامی تحریروں اور ٹاک شوز میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ روحانی و اخلاقی Cancer میں مبتلا ان کرداروں کو اپنے ملک اور لوگوں میں کچھ اچھا دکھائی نہیں دیتا، کوئی بھی مخلص نظر نہیں آتا، سب فرعون، چین کی بانسری بجانے والے بے حس بادشاہ، عوام کے لیے کچھ نہ کرنے والے مجرم دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں اگر فرشتے نظر آتے ہیں تو صرف غیر مسلموں اور مغربی ممالک میں۔ اپنے وطن میں انھیں یہ سب دکھائی دے بھی نہیں سکتا کیونکہ اس صورت میں ان کا شاہانہ لائف اسٹائل، ہر دسویں دن گوروں کے کسی شہر کی سیر کا مہنگا شوق، جو کروڑ پتی بزنس مین بھی افورڈ نہیں کر پاتے، پورا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

یہی وجہ ہے کہ انھیں ملک میں لوڈشیڈنگ پیدا کرنے والے اور ختم کرنے والوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، ملک میں دہشت گردی کی کھلی چھٹی دینے اور اسے ختم کرنے والوں میں، پاکستان کو دنیا کا تیسرا کرپٹ ترین ملک بنانے اور اب کرپشن کو تیزی سے ختم کرنے (جس کا اعتراف آج عالمی ادارے کر رہے ہیں) والوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ انھیں کراچی میں بسیں جلانے اور میٹرو بس بنانے والوں میں، ریلوے کو تباہ کرنے اور منافع بخش ادارہ بنانے اور اورنج لائن ٹرین تعمیر کرنے والوں میں بھی کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔

کاش یہ لوگ ایک دفعہ دل پر ہاتھ کر سے خود سے سوال کریں کہ پاکستان کا ایک عام شہری جو ان کی طرح ہر مہینے یورپ و امریکا کا ٹور نہیں کر سکتا، وہاں موجود میٹرو بسوں اور ٹرینوں میں سفر نہیں کر سکتا، ان کے لیے پاکستان میں مہیا کی جانے والی یہ جدید سفری سہولیات، موٹرویز کیا معنی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ انصاف سے بتائیں کیا پاکستان کے پسے ہوئے، غریب عوام نے کبھی یہ تصور بھی کیا تھا کہ کوئی حکومت ایک دن ان کے لیے عالمی معیار کی ایسی جدید سہولیات فراہم کرے گی؟ کیا بیرون ممالک میٹرو ٹرینوں میں سفر کرنا صرف ان ہی کا حق ہے، ایک سفید پوش پاکستانی کا نہیں جس کے لیے بنائی جانے والی اورنج لائن ٹرین کی یہ مخالفت کر تے ہیں؟

دوسروں کو سادہ زندگی بسر کرنے کا مشورہ دینے والے کاش ایک بار پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لیتے۔ کاش یہ خود بھی اپنی صلاحیتوں کو روزانہ اٹھارہ گھنٹوں کو فقط اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے کا م کر کے ضایع کرنے کے بجائے خلق ِ خدا کی بہتری کے لیے استعمال کرتے تو لوگ انھیں برے القاب سے نوازنے کے بجائے سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ یقین کیجیے، جہاں ہمارے یہاں اب بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں وہاں آج بہت کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے جو اس پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مگر بیماری کے سبب کچھ لوگوں کو وہ سب اچھا نظر نہیں آتا، انھیں اگر دلچسپی ہے تو صرف مایوسی پھیلانے، ترقی کے پہیے کو روکنے اور موجودہ حکومت کے قابلِ قدر اقدامات کو بھی مشکوک بنا کر عوام کو ان سے اور ان کو عوام سے دلبرداشتہ کرنے میں۔ بظاہر مسیحا نظر آنے والے ہی درحقیقت ہمارے قاتل ہیں۔ بقول شاعر۔

علاج قوم کا جاری ہے اک زمانے سے
ملا رہا ہے کوئی زہر بھی دواؤں میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔