ہمیں روندنے، کچلنے والے غیر نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 30 اپريل 2016

جب انسانیت کو نظرانداز کردیا جاتا ہے توکرپشن، انتہاپسندی، دکھ، افلاس اور ظلم وجبر کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ یزد کہتا ہے آدم کے بیٹو! اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذلیل و خوار نہ کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے بھی اپنا گوشت خود نہیں چباتے ’’ فردوسی کا شاہ نامہ ‘‘ ایک عظیم ترین شاہکار ہے۔ یہ شاہکار آج بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے اہل فارس اپنی قوم کی تاریخ کے آئیڈیاز اخذ کرتے ہیں۔

فردوسی کا شاہ نامہ اہل فارس کے مسلمان بادشاہوں سے قبل چار سلطنتوں کو تسلیم کرتا ہے (۱) پشڈ اڈی (۲) کیانی (۳) اشکانی (۴) ساسانی ۔ ہوشنگ پشڈ اڈی کا پوتا تھا اور جمشید ہوشنگ کا بیٹا تھا، ہوشنگ نے اپنے بیٹے جمشید کو نصیحتیں کرتے ہوئے کہا تھا آغاز اور انجام خدا کے ہاتھ میں ہے اور تمام تر مدد منجانب اللہ ہے وہ تعریف کے لائق ہے وہ جو آغاز کو سمجھتا ہے وہ اس کی تعریف سرانجام دیتا ہے اور جو انجام سے باخبر ہوتا ہے وہ اس کا غلام بن جاتا ہے وہ جو یہ جانتا ہے کہ مدد محض اس کی جانب سے آتی ہے وہ عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے یا جو اس کی خیر خواہی اور فیاضی سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے اور غرور تکبر سے دستبردار ہوجاتا ہے۔

سب سے بہترین چیز جو انسان کو خدا کی جانب سے ملتی ہے وہ اس دنیا کا علم اور دوسری دنیا میں معافی ہے۔ خدا کے غلاموں کے کردار چار اصولوں پر بنیاد کرتے ہیں (۱)علم (۲) صبرو تحمل (۳) پاک دامنی اور پاکیزگی (۴) انصاف ، نیکی اور پارسائی کا علم حاصل کرنا چاہیے علم اور عمل روح اور جسم کے مانند ہے عمل کے بغیر علم قابل تعریف ہرگز نہیں ہے اور علم کے بغیر عمل کہیں نہیں لے جائے گا ۔

آزادی خواہشات سے نجات میں پنہاں ہے، سچائی ایمانداری میں پنہاں ہے خواہشات سے پاک ہونے میں طمانیت پنہاں ہے، خواہشات انسانی کو اپنے دل سے نکال دو تاکہ تمہارے قدم ڈگمگانہ جائیں اور تمہارے جسم پر سکون  رہے، ظالم اور بے رحم اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا ہے ، اگرچہ اس کی تعریف ہی کیوں نہ کی جائے اور مظلوم طمانیت سے دوچار ہوتا ہے، اگرچہ اس کی سر زنش اور ملامت کیوں نہ کی جائے موت تمہارے تعاقب میں ہے اور تمہارے کنٹرول میں نہیں ہے ہر وقت موت کے لیے تیار رہو اگر تم میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں تب تم دنیا میں کامیابی کو گلے لگا سکتے ہو۔(۱) خون پسینے سے کمائی ہوئی روٹی (۲) دوستی میں ثابت قدمی (۳) سچائی اور پارسائی۔ جب کہ عمرخیام کے فلسفہ زندگی کے مطابق ماضی اور مستقبل کوئی معنیٰ نہیں رکھتا انسان کو اپنے ماضی اور مستقبل کے لیے کچھ نہیں کرنا جو کچھ بھی موجود ہے وہ حال میں موجود ہے۔

خیام نے جوکچھ مشاہدہ سرانجام دیا تھا وہ یہ تھا کہ دنیا کے عظیم انسان دن رات سازشوں میں مصروف تھے اور اپنی غیر قانونی خواہشات کی تکمیل کی خاطر ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے تھے وہ چیزیں کس قدر ناپائیدار تھیں جن کو حاصل کرنے کی خاطر وہ اس قدر جدوجہد سرانجام دیتے تھے اور اس قدر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے انھیں حاصل کرتے تھے۔ ایک شخص آج وزیراعظم ہوسکتا ہے کل آپ اسے دربدر بھیک مانگتے ہوئے دیکھیں گے ایک شخص جو کل تک ایک سلطنت کا بادشاہ تھا آج وہ ایک بھکاری ہے جو مسجد کے دروازے پر کھڑا ہے۔

برمی سائیڈز واضح رہے کہ برمی سائیڈز ایران کی ایک عظیم شرفاء کی فیملی تھی اور 50 برس تک (752 تا 804) ان کو عباسی خاندان کے پہلے پانچ خلفاء کی حمایت حاصل رہی تھی۔ ہارون الرشید نے حسد کی بنا ء پر ان کا قتل عام کروا دیا تھا اس فیملی کی ایک وسیع ترآبادی پر حکومت تھی اور تھوڑی دیر بعد آپ تمام تر فیملی کو موت کے گھاٹ اترتا دیکھتے ہیں۔ ابوالفضل جوکل تک ایک چہیتا درباری تھا آج اس کا سر قلم کیا جا چکا ہے اور اس کا کٹا ہوا سر دربار میں پیش کیا گیا ہے۔

وہ کہتا ہے عزت ووقار اورعہدے بڑی حماقت ہیں اور زندگی بذات خود کچھ بھی نہیں۔ فریدون کی مٹی سے برتن بنائے جاتے ہیں اور جمشید کی لاش اینٹیں بنانے میں استعمال کی جاتی ہیں ۔ لہذا غم و فکر اور تفکرات اور انسانی جدوجہد دوڑ دھوپ فضول اور بے کار ہے۔ عہدوں اور خطابات کے حامل مشہور اور معروف انسانوں  کی زندگیاں بیماری سے دوچار ہیں، بے چینی اور غصے سے دوچار ہیں اور یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اگر کوئی انسان ان کی مانند جذبات کا غلام نہ ہو تب وہ اسے نیچے گرا دیتے ہیں اگر تم خدا کے بھیدوں کو جاننے کی خواہش رکھتے ہو تو دیکھو کہ کسی بھی مخلوق کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا یا مسترد نہیں کیا جاتا۔

شیخ سعدی کہتے ہیں جب اختیارات ایسے شخص کے ہاتھوں میں آتے ہیں جو درست راستے سے بھٹک چکا ہوتا ہے وہ اسے اعلیٰ عہدہ تصور کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک گڑھے میں گرچکا ہوتا ہے ۔ لوگوں کی رسوائی ان کے حکمرانوں کی بدعنوانی بنتی ہے سلطنت اور عہدے پر اعتبار نہ کرو کیونکہ وہ تم سے پہلے بھی موجود تھے اور تمہارے بعد بھی موجود رہیں گے۔

سکندر اعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے’’جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی اب اس کے لیے یہ ایک قبرکافی ہے ‘‘ سپریم کورٹ نے کہا ہے بے حسی کی انتہا ہوگئی ہے، غریب آدمی کو سستا آٹا نہیں دے سکتے توچوہے مار گولیاں دے دیں عوام کو اس طرح مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، جب کہ حکمرانوں کے کتے مربے کھا رہے ہیں۔

پاکستان کے 18 کروڑ عوام چند ہزار افراد کے ہاتھوں روندے اور کچلے جارہے ہیں ان کو روندنے اور کچلنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ ان کے ہی ہم وطن، ہم نسل اور ہم مذہب ہیں ان کی بھوک، ہوس، لالچ، خود غرضی، بے حسی کے ہاتھوں عوام ذلیل وخوار ہورہے ہیں یہ چند ہزار افراد دراصل ذہنی بیماری کا شکار ہیں ان چند ہزار افراد میں بعض سیاست دان، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار اور مذہبی رہنما شامل ہیں یہ چند ہزار افراد اپنی دانست میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے اور ان کی بد اعمالیوں اور بدعنوانیوں کا کہیں بھی کبھی بھی حساب نہیں لیا جائے گا وہ ہر قسم کے احتساب سے مبرا ہیں۔

خدا نے ان کو صرف اور صرف لوٹ مار، عیاشیوں اور دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، دوسری طرف سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ جو لٹ رہے ہیں برباد ہورہے ہیں جو ذلیل وخوار ہورہے ہیں جو تڑپ اور سسک رہے ہیں جو روز بے موت مر رہے ہیں جو سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں وہ خاموش ، بے حس بنے ہوئے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ کونسا اور برا وقت آئے گا جب یہ لوگ اپنے حق کے لیے اٹھیں گے اور ان غاصبوں، جابروں اور لٹیروں کو اجڑی ہوئی قبر کے علاوہ اورکہیں چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔