ھبل دوربین، ایک عظیم منصوبہ، جو اپنے آغازمیں ناسا کی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی بھی ثابت ہوا

ناصر ذوالفقار  اتوار 1 مئ 2016
یہ انسان کی کام یابی اور ناکامی کی ایک بہت بڑی مثال بھی بن چکی ہے اور بعض لوگوں کے لیے تو سب سے بڑی اچیومنٹ بھی ہے:فوٹو: فائل

یہ انسان کی کام یابی اور ناکامی کی ایک بہت بڑی مثال بھی بن چکی ہے اور بعض لوگوں کے لیے تو سب سے بڑی اچیومنٹ بھی ہے:فوٹو: فائل

27 جون 1990 کواس دیو قامت خلائی دوربین نے جس سے سائنس دانوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں، خلا میں پہنچتے ہی بڑی گڑ بڑ کا اشارہ دے دیا۔

اس کی زمین پربھیجی گئی پہلی ہی تصویر دھندلی تھی۔ گویا جیسے ہبل کو موتیا ہوچکا تھا۔ انسٹیٹوٹ فارایڈوانس اسٹڈی پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرفلکیات باسکل کے جیسے پاؤں سے زمین نکل گئی ہو۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 20 سال اس دوربین پر لگادیے تھے۔ ان کے لیے یہ بڑے صدمے سے کم نہ تھا۔ جب انہیں علم ہوا کہ ہبل دوربین اپنے مدار میں متوقع طریقے سے کام نہیں کرپارہی ہے۔ اس کا ایک آئینہ دوربین کو درست طور پر فوکس نہیں کر رہا تھا، جسے غلط طریقے سے نصب کردیا گیا تھا۔

امریکی ادارے ناسا کی خلائی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ناکامی تھی۔ 2.8 ملین ڈالر کی لاگت اور 10سال کی محنت بے سود ہوگئی۔ اس دوربین سے نہ صرف فلکیات بل کہ خلائی شٹل اور خلائی ایجنسی کا بھی مستقل وابستہ تھا۔ طویل تحقیقات کے نتیجے میں پتا چل گیا کہ ایک بولٹ غلط فٹ ہوگیا ہے جس کے باعث ہبل دوربین کے تحقیقاتی پروگرام کا بڑا حصّہ متاثر ہوچکا تھا۔ ناسا کے ہبل چیف پروجیکٹ ڈائریکٹر ایڈوئیلر اور ان کی ٹیم کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس خرابی پر قابو پانے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع ہوگئیں۔ ہبل کو درست کرنے کے لیے 46 آئیڈیے پیش کیے گئے اور آخرکار خرابی کو خلا میں ہی رفع کردیا گیا۔

ہبل ٹیلی اسکوپ اب تک کی سب سے منہگی خلائی دوربین ہے، جس پر کام 1980 میں شروع کیا گیا اور24 اپریل 1990 کو اسے خلائی شٹل ڈسکوری کے ذریعے خلا کے سپرد کیا گیا۔ اس کا کُل بجٹ سات بلین ڈالر تھا۔ اپنے کام کی شروعات ہی میں ہبل کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں خرابی پیدا ہوگئی تھی۔

دسمبر 1993 میں خلائی شٹل اینڈریو کے خلابازوں نے ایک مشکل اور تاریخی چیلینجنگ مشن میں اس خرابی کو درست کردیا اور ہبل میں نصب مرکزی آئینے میں ایک محدب عدسہ (لینز) لگادیا گیا، جس کی لمبائی 92” انچ ہے، جس سے ہبل کی کارکردگی کہیں بہتر ہوگئی اور یہ آلہ بالکل اپنے ڈیزائن کے تحت کام کرنے لگا۔ ہبل کے آئینے کی مرمت پر 70 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے ۔ ہبل سے 18 دسمبر 1993 کو پہلی واضع تصویر موصول ہوگئی۔ ’’اب ہبل پوری طرح سے ٹھیک ہے ! ‘‘ یہ پریس کی سب سے بڑی خبر تھی وہ ایک فینٹ اوبجکیٹ پکچر تھی جس نے کائنات کی ساخت کو یکسر بدل دیا۔

فروری 1997 میں جب ہبل ٹیلی اسکوپ کو مزید اب گریڈ کیا گیا تھا، اس وقت بھی وہ کسی زمین پر نصب دوربین سے زیادہ حساس اور دُوررس نتائج دے رہی تھی۔ اب اس کی صلاحیت میں ’’انفراریڈ‘‘ کا بھی اضافہ کردیا گیا، جس سے ہبل کی دیکھنے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ چکی ہے اور 1999 میں ہبل دوربین میں ایک جدید کیمرا بھی فٹ کردیا گیا اور ڈسکوری کے خلابازوں نے نیا سینٹرل کمپیوٹر انسٹال کردیا۔ 2009 میں خلائی شٹل اینڈویورکے مشن میں آخری بار ہبل کی مرمت کی گئی اور کیمرا تبدیل کیا گیا۔ 1990 میں اس کے قیام سے اب تک اس پر تین ملین ڈالرز خرچ ہوچکے ہیں۔ جب سے یہ دوربین اپنا کام تسلی بخش طریقے سے انجام دے رہی ہے۔ پچھلے سال مارچ (1990-2015) میں ہبل اپنے وجود کے 25 برس مکمل کرچکی ہے۔

٭ہبل اور ہمیسن کے کمال ’’بگ بینگ ثبوت ‘‘:

78سال پہلے فلکیاتی ماہرین جانتے تھے کہ ہمارے نظام شمسی میں بس دُودھیا کہکشاں (ملکی وے) واحد کہکشاں ہے اور اس کے علاوہ کسی کہکشاں کا وجود نہیں اور یہ خیال تھا کہ کائنات خالی ہے اور اس خالی جگہ میں ستارے جب ہماری کہکشاں سے منتقل ہوں گے تو کوئی دوسری کہکشاں بن سکے گی۔ 1920 کے عشرے میں ایک 33 سالہ امریکی نوجوان ماہرفلکیات اِیڈوِن ہبل نے اس نظریہ کو غلط ثابت کرکے دکھادیا اور یہ بتادیاکہ ہماری کہکشاں سے آگے کائنات خالی نہیں ہے، بل کہ دیگر متعدد کہکشائیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ 20 نومبر 1889 کو امریکی ریاست میسوری میں پیدا ہونے والے ایڈون ہبل ایک وکیل کے بیٹے تھے۔ انہوں نے شکاگو میں تعلیم مکمل کی جہاں وہ نصابی وغیرنصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے۔

شکاگو یونیورسٹی میں معروف ریاضی داں انھیں آر اے ملیکان اور معروف فلکیات داں جی ای ہالے کے زیرسایہ رہنے موقع ملا۔ پہلے وہ ریاضی داں بننا چاہتے تھے پھر 1912 میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔1917 میں ان کے مقالے ’’فوٹو گرافک انوسٹی گیشنزآف فینٹ نیوبلا‘‘ پر ہبل کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ پہلی جنگ عظیم میں وہ شامل رہے تھے۔ اس کے بعد ہبل نے فلکیات کے شعبے میں مہارت حاصل کرلی، جس سے انہیں لازوال شہرت ملی۔ وہ ایک ہیوی ویٹ باکسر بھی رہے۔ انہوں نے 64 سال عمر پائی اور28 ستمبر 1953 کو ان کا انتقال ہوا۔ چناںچہ ہبل دوربین کا نام ان کی عظیم دریافت کے صلے میں رکھا گیا ہے۔

نظریہ اضافیت میں چھپے ’’بگ بینگ‘‘ کے راز کو دریافت کرنے والے ایڈون ہبل کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ ملٹن ہمِیسن بھی ان کی دریافت میں برابر کے شریک تھے۔ وہ ایک بینکر کا نالائق بیٹا تھا، جو آٹھویں جماعت تک پڑھ سکا تھا۔ فوکر کا ایک ماہر جواری ہمیسن نہایت ذہین اور پُرتجسّس دماغ رکھتا تھا۔ وہ دنیا کی اس بڑی ٹیلی اسکو پ کی تنصیب کے موقع پر اپنے خچروں کے ساتھ کام پر مامور تھا، جو کہ ’’ماؤنٹ ولسن‘‘ پہاڑی پر لگائی جارہی تھی، جہاں صرف ان چوپایوں کی مدد ہی سے دوربین کا سامان اونچائی پر پہنچایا جاسکتا تھا۔

ہمیسن اس مشینی دوربین کے بارے میں بہت زیادہ پُرتجسّس تھے، لہٰذا انہوں نے کوشش کی کہ وہ یہاں فلکیاتی رصدگاہ میں خدمات انجام دے سکیں۔1917 میں دوربین مکمل ہوگئی تو وہ ایک چپڑاسی اور الیکٹریشن کے طور پر یہاں رہ گئے اور پھر وقت بھی آیا جب ایڈون ہبل جو کہ اس پروجیکٹ کی دیکھ بھال پر مامور تھے ان کے رات کے اسسٹنٹ کے بیمار پڑجانے کے سبب ہمیسن کو فلکیاتی دوربین کو آپریٹ کرنے کا موقع مل گیا اور 1920 کے آخر تک وہ خود آزادانہ دوربین کے مطالعے کے قابل ہوچکے تھے اور انہیں اپنا رات کا اسسٹنٹ بھی مل گیا۔

دنیا نے اِس جواری کی دوربینی صلاحیت اور فطری ذہانت کو مان لیا، جس نے اس دوربین کی عظیم تحقیقات ’’بگ بینگ‘‘ کے کمال کے ثبوت پانے میں ایڈون ہبل کے ساتھ نمایاں طور پر ان کی مدد کی تھی، جس کے نتائج حیران کن تھے کہ ’’کائنا ت بگ بینگ کے بعد سے پھیل رہی ہے اور پھیلتی ہی جارہی ہے۔‘‘

٭زمینی رصد گاہ کے برعکس خلائی دوربین کے فوائد:

کرۂ ارض کی اوپری مدار میں گردش پذیر دوربین کے ذریعے کائنات کو اس کے تمام حقیقی رنگوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کرۂ ہوائی (ارتھ ایٹموسفیئر) گیس کی ایک موٹی چادر کی مانند ہے جو مسلسل گردش میں ہے، اس کے باعث ستارے چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے دوربینوں میں نظر آنے والی شبیہ دھندلا جاتی ہیں۔ ہوا کے طوفانی سمندرسے اوپر واقع دوربین انتہائی صاف شفّاف تصویریں لیتی ہے اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاسکتی ہے۔

باسکل اور ان کے دوست لائمن  اسپنٹرز نے نصف صدی قبل خلائی دوربین کے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا۔ 82 سالہ اسپنٹرزکہتے ہیں کہ مجھے ذاتی طور پر اس کا یقین تھا کہ خلا میں دوربین ایک انتہائی اہم تحقیقی نوعیت کا آلہ ثابت ہوگی، اس کے باوجود ان کی رپورٹ کا مثبت اثر نہیں ہوا جب تک کہ روس نے 1957 میں دنیا کا پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں نہ پہنچادیا۔ اب خلا سے متعلق ہر شے اور ہر نظریہ تبدیل ہوگیا۔

1972 میں اسپنٹرز نے ایک چھوٹی دوربین کو خلا میں بجھوانے کے بارے میں منصوبہ بنایا تھا، لیکن درحقیقت وہ ایک بڑی خلائی دوربین کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ان کے اس خیال پر مبنی 1974کی درخواست کو مسترد کردیا گیا تھا، جسے ماہرین فلکیات کی جانب سے خطوط کی مہم چلانے کے بعد سرکاری منظوری ملی۔ 1983 میں دوربین کا نام ایڈون ہبل کے نام پر رکھ دیا گیا ۔1986میں چیلینچر خلائی شٹل کے الم ناک حادثے میں ساتوں خلابازوں کی ہلاکت ہوئی جس سے امریکا میں دو سال تک خلائی پروازیں بند رہیں۔ 1988 میں امریکا کی خلا میں واپسی ہوئی تو اس پروجیکٹ کو پھر سے آگے بڑھادیا گیا۔

٭ہبل دوربین کے کمالات اور نئی دریافتیں:

خلائی دوربین ہبل نے اپنی شروعات سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس نے ایڈون ہبل اور ملٹن ہمیسن کی تمام پیش گوئیوں اور کام کو سچ ثابت کردیا ہے۔ ایک سال کے اندر ہی ہبل نے حیرتوں کے پہاڑ کھڑے کردیے تھے۔ نیوبلا کی پہلی واضع ترین تصویر کو دنیا بھر کے پریس نے چھاپا اور کئی غیرمعمولی تصاویر ہمیں بھیجیں۔ ہبل نے پانچ ہزار کہکشاؤں والے علاقے کی تصاویر دکھاکر ماہرین فلکیات کو سکتے کی کیفیت میں مبتلا کردیا تھا، کہوں کہ جہاں یہ دریافت ہوئیں خیال تھا کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ سوچ کے زاویوں کو بڑھاوا دینے والی کہکشاؤں کی یہ تصاویر 13 ملین نوری سال کی دوری کی ہیں۔ اس کے لیے اسٹیفن ہاکنگ کو کہنا پڑ ا کہ ’’انسان کو احساس ہوجاتا ہے کہ وہ کتنا چھوٹا ہے!‘‘

اس سے ایسی کہکشاؤں کا مطالعہ کیا گیا ہے جن کی تمام تصاویر میں 50 لاکھ ستارے تھے جو کہ ہماری کہکشاں سے 63 ملین نوری سال کے فاصلے پر آباد ہیں۔ ہبل دوربین کے ذریعے ہمیں علم ہوسکا ہے کہکشائیں کس طرح وجود میں آتی ہیں۔ ہبل دوربین نے فلکیات دانوں کے لیے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے اس کی جدید تحقیقات نے خلا اور کائنات سے متعلق برسوں پرانے تصّورات کو بھی رَد کردیا ہے اور یہ خلا سے ناقابل یقین انکشافات بھیجنے میں مصروف عمل ہے۔ امریکی سائنس دانوں نے اس کی مدد سے مئی 1994 میں خلا میں موجود ایک بڑے بلیک ہول کا سراغ لگایا تھا۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ بلیک ہول پانچ کروڑ 20 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور سورج سے تین ارب گنا وزنی ہے ۔

اس عظیم دریافت سے 115 سالوں پہلے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کی تصدیق ہوئی۔ دسمبر 1995 میں محض دس دنوں کے اندر ہبل نے جس طرح کی عجیب و غریب معلومات کا تبادلہ کیا اس کے سراغ لگانے کا ماہرین سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ 1999 میں ہبل نے کائنات میں ایسا مادّہ دریافت کیا جو کہ ستاروں کی تشکیل کے بعد بچ رہتا ہے۔ اسے ’’پروپلائیڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہبل نے اب تک ایسے100 سے زاید کائناتی مادّوں کو پتا چلا لیا ہے جبکہ اصل اندازہ ہے کہ کائنات اسطرح کے بے شمار مادّوں سے پُر ہے۔ اسی سال ہبل نے ایک ہزار سے زاید اور انتہائی چمک دار ستاروں کے جھرمٹ کا انکشاف بھی کیا تھا۔

ہبل کی بھیجی ہوئی تصاویر سے سائنس کے اس نظریے کی بھی تصدیق ہوجاتی ہے کہ اگر ایک بیضوی کہکشاں کسی اور دوسری کہکشاں سے ٹکراتی ہے تو اس سے بے شمار نئے ستارے اور ان کے جھرمٹ (کلسٹرز) جنم لیتے ہیں، لیکن ٹکرانے والی دونوں کہکشاؤں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ہبل سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کہکشاؤں میں کالے سیاہ گڑھے ’’بلیک ہول‘‘ بھی ہوتے ہیں، جو کہکشاں میں موجود مختلف اقسام کی دھول اور گیس جذب کرلیتے ہیں۔ ایک بلیک ہول ہمارے نظام شمسی کے دس لاکھ سورجوں کے برابر گیس کھا جاتاہے۔

کہکشاؤں میں بڑے بلیک ہولوں کی تصدیق ہائیڈ فورڈ نے کی تھی جن کا تعلق بالٹی مور کی جان ہاپکنز یونیورسٹی سے ہے، ان کے مطابق انہوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ہبل دوربین کو استعمال کرتے ہوئے پانچ کروڑ نوری سال کی دوری پر واقع کہکشاں ایم 87 کے قلب میں گیس کی ایک ڈسک دریافت کی تھی، جوکہ 1.93 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے، جس کی معقول تشریح یہ بتاتی ہے کہ کہکشاں کے مرکز میں 20 لاکھ سورج کے برابر بلیک ہول سمایا ہوا ہے۔

ہبل نے پانچ کروڑ 60 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع کہکشاں ایم 100 کا صحیح حجم ناپا۔ ہبل نے کہکشاؤں سے متعلق مزید نہایت حیران کن انکشافات کیے ہیں اور جو معلومات ناسا نے اس کے ذریعے وصول کی ہیں وہ تمام کی تمام معلومات ماضی سے وابستہ ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ 10 یا 11 ارب سال قبل کی ہوجانے والی اطلاعات کی باقیات ہیں جو کہ روشنی کی صورت میں ہم تک پہنچی ہیں اور اس طرح جو کچھ آج وقوع پذیر ہورہا ہے اگلے آنے والے 10 یا 11 ارب سال بعد ہمیں اس کا علم ہوسکے گا۔ نیوجرسی کے ماہر فلکیات جان ہیکل نے اسی لیے ہبل دوربین کو ایک دوربین ہی نہیں بل کہ ٹائم مشین سے تشبیہ دی ہے، جس کے ذریعے ہم ماضی اور مستقبل میں جھانک سکتے ہیں۔

ہبل نے ہی تیز رفتار گھومنے والے اور بھاری مقدار میں تاب کاری خارج کرنے والے ’’کوہساروں کا بھی پتا لگالیا ہے اور ان کا معمّا حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہبل نے ایسے بادلوں کو دیکھا ہے جو کہ 9 ہزار میٹرز کی بلندی پر نہیں بل کہ 100 کھرب کلومیٹرز دور ہیں اور انکی روشنی عام روشنی کے بجائے جھلسادینے والی بالائے بنفشی شعاعوں کی مرہون منت ہے۔ یہ نئے تخلیق ہونے والے ستاروں کے مرکز میں دہکتی جوہری آگ کی تپش سے خارج ہورہی ہیں اور ان کا زمین سے فاصلہ 7 ہزار نوری سال بنتا ہے اور یہ سورج سے 40 کروڑگنا دُوری پر ہیں۔

ہبل نے ایسے کوہساروں کی تصاویر اتاری ہیں وہ اس قدر روشن ہیں کہ کائنات کے آدھے فاصلے پر بھی دکھائی دیتے ہیں، زیادہ تر نظریات پر کام کرنے والے ماہرین خیال کرتے ہیں کہ ان کوہساروں کا دیو قامت بلیک ہولوں سے کوئی تعلق بنتا ہے جن میں سے ایک فورڈ نے ڈھونڈ لیا تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر ایک کوہسار کے گرد ایک کہکشاں کو ہونا چاہیے، لیکن بہت سے معاملات میں اس کے واضح ثبوت ابھی نہیں مل سکے ہیں۔

ہبل نے جو فلکیات دانوں کو جو کائناتی نظارے کروائے ہیں۔ اس سے پہلے اس کا تصّور بھی محال تھا۔ اس ایک آلے نے کائنات کے اتنے وسیع علاقے (خلا) کو دکھایا ہے جوکہ کبھی پہلے دیکھا نہ جاسکا تھا۔ ہبل کی تازہ تصاویر سے اس کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے بارے میں تمام شکوک کا خاتمہ ہوگیا ہے جس کے بنا پر یہ دریافتیں ناممکن تھیں۔ اس دوربین نے ’’بگ بینگ‘‘ نظریہ کے زبردست حامی سائنس دانوں کو بھی جھنجھوڑا ڈالاہے۔ کائنات کی عمر اس دوربین کے مطابق 8 سے 12 ارب سال کے درمیان بنتی ہے۔

اس انکشاف سے کوسمولوجی کے ماہرین میں ہل چل مچ گئی، جوکہ بگ بینگ نظریے کو بچانے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کررہے ہیں۔ اس میں ایک ’’کائناتی مستقل‘‘ کا تصّور پھر سے بحال کیے جانا ہے جو کہ ایک مخالف ثقلی (تجازبی) قوت ہے۔ آئن اسٹائن کے اس خیال کو مسترد کیا جاچکا ہے۔ اس دوربین نے کہکشاں میں بلیک ہولوں کی دریافت کے علاوہ 1994 میں مشتری پر دُم ستارے شومیکر 9 کا تاریخی تصادم بھی ریکارڈ کیا اور دکھایا تھا۔ ہبل اب تک دنیا کی سب سے اچھی دوربین اور انسٹرومنٹ ثابت ہوئی ہے، جسے دیکھنے کے لیے آسٹروفزکس کا ماہر یا فلکیات داں ہونا ضروری نہیں۔

یہ انسان کی کام یابی اور ناکامی کی ایک بہت بڑی مثال بھی بن چکی ہے اور بعض لوگوں کے لیے تو سب سے بڑی اچیومنٹ بھی ہے اور ناسا کا اب تک کام یاب ترین پروجیکٹ ہے۔ غرض یہ کہ ہبل دوربین نے اپنی شان دار 25 سالہ خدمات کے عوض آج فلکیات پر ہونے والی ہر کانفرنس میں آدھے مقالے خلائی دوربین ہبل کے مشاہدات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہبل کے علاوہ ناسا کے پاس 36 سے زاید ایسی دوربینوں کو خلا میں بٹھانے کے منصوبے ہیں جن پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔