بسوں کی چھتوں پر سفر

ساجد علی ساجد  منگل 20 نومبر 2012
ساجد علی ساجد

ساجد علی ساجد

معلوم ہوا ہے کہ حکومت بسوں، منی بسوں اور کوچز کی چھتوں کے سفر کو قانونی حیثیت دینے پر غور کر رہی ہے تا کہ چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور مسافروں کو بہتر طور پر تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

اگرچہ آج کل بھی ذرایع آمد و رفت کی چھتوں کا یہ استعمال آزادی سے بلا روک ٹوک ہو رہا ہے، جس طرح دریا کا پانی اپنا راستہ آپ بناتا ہے شہر کراچی میں بھی منی بسیں، کوچز، چنگ چی اور رکشا ٹرانسپورٹ مافیا کی مرضی اور کبھی مرضی کے خلاف Mass Transit کا فریضہ انجام دے رہی ہیں اور یہ کام بحسن و خوبی انجام دینے میں سب سے بڑا کردار بسوں، منی بسوں اور کوچز کی چھتوں کا ہے۔ آج کل ان ذرایع آمد و رفت کے ڈرائیور یہ کام چالان اور اضافی آمدنی کا خطرہ مول لے کر اپنے مسافروں کو چھتوں پر جگہ دیتے ہیں زیادہ سے زیادہ بعض سڑکوں پر ’’کھلے عام‘‘ سفر کرنیوالے افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے سر اور جسم نیچے کر لیں تا کہ ٹریفک کانسٹیبل کو نظر نہ آئیں۔ ہمارے ملک میں قدرتی طور پر خوش نصیبی کے معیار بھی بدل گئے ہیں لہٰذا بیشتر معصوم اور سادہ لوح مسافر اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ ان کو چھت پر سفر کرنے کی جگہ مل گئی ہے۔

اس طرح چھت پر سفر کرنے کے بہت سے فائدے بھی ہیں، چھت پر چڑھ کر مسافر سب سے پہلے تو گرمی اور حبس سے بچ جاتے ہیں، خوشگوار فضا اور ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیتے ہیں، اگر موسم بہتر ہو اور یار دوست ساتھ ہوں اور آپ کے پاس بسکٹ وغیرہ قسم کی چیزیں ہوں تو آپ اچھی خاصی گپ شپ کر سکتے ہیں اور سفر کو خوشگوار بنا سکتے ہیں، اس طرح بسوں، منی بسوں اور کوچز کی چھتیں کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ کی ٹیبل کا کام کر سکتی ہیں۔ حادثات کی صورت میں بھی چھتوں کے مسافر گاڑیوں کے اندر سفر کرنیوالوں کے مقابلے میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اس پر ڈیبیٹ ہو سکتی ہے تاہم اگر بلوائیوں کے ہاتھوں گاڑی جلائے جانے کی نوبت آ جائے تو عام طور پر چھت پر بیٹھنے والے کُود کر جان بچانے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اگرچہ لیڈیز کمپارٹمنٹ چھت پر بیٹھنے کی وجہ سے ان کی دسترس میں نہیں رہتا تاہم وہ آس پاس گزرنے والی گاڑیوں کا ایک وسیع تر نظارہ کر سکتے ہیں اسی لیے جب حکومت نے چھت کے سفر کو مبینہ طور پر Legalise کرنے کا جو فیصلہ کیا اس کا تقریباً تمام حلقوں کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔

اس پر سب سے زیادہ قدرتی طور پر بسوں اور منی بسوں کے مالکان خوش ہوں گے جن کو چالان اور جرمانے کے خوف سے نجات مل جائے گی۔ سفر کرنیوالے بھی اب زیادہ آزادی اور بے فکری سے چھت پر چڑھ سکیں گے اور اب چھت پر سفر کرتے ہوئے کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرینگے۔ حکومت کے اس فیصلے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ حکومت بسوں اور دیگر گاڑیوں کے مالکان سے چھت پر سفر کرنیوالوں کے لیے بہتر سہولتیں ڈیمانڈ کر سکے گی اور ان مالکان کو یہ سہولتیں بہر صورت فراہم کرنے کا پابند کر سکے گی۔ بسوں اور منی بسوں کے مالکان چھت پر سفر کرنیوالے مسافروں کو مندرجہ ذیل سہولتیں فراہم کرنے کے پابند ہونگے۔(1) سب سے پہلے تو مسافرں کے چھت پر چڑھنے کے لیے ترجیحاً ڈرائیور والی سائیڈ پر مناسب سی سیڑھی لگائی جائے گی جو ڈرائیوروں کو نظر آتی رہے گی۔

(2) چھت کے سائز کے اعتبار سے مسافروں کی تعداد متعین کی جائے گی اور بس، منی بس کا اسٹاف مقررہ تعداد سے زیادہ مسافر چھت پر نہیں بٹھائے گا۔ (3) چھت پر مسافروں کے بیٹھنے کے لیے آرام دہ کشن والی نشستیں فراہم کی جائیں گی جن پر وہ سکون سے بیٹھ سکیں۔ (4) بسوں اور منی بسوں کی چھتوں کو مسافروں کے وزن کے لحاظ سے مضبوط بنایا جائے گا۔ (5) کچھ سہولتیں موسم کے اعتبار سے فراہم کی جائیں گی، مثلاً سردی میں لحاف گدّے اور چادریں، جب کہ بارش کے سیزن میں ترپال کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ (6) حکومت کے طویل معیاد پروگرام میں مسافروں کو چھت کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے تربیت اور آگاہی دینے کا سلسلہ بھی شامل ہے۔ (7) بسوں اور منی بسوں کے مالکان چھت پر سفر کرنے والوں کو بہتر سہولتیں فراہم کر کے ان سے ٹکٹ کی زیادہ رقم بھی وصول کر سکتے ہیں اور اس کے لیے چھت کو ’’اپر کلاس‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ چھت پر سفر کو Legalise کرنا حکومت کے اس فلسفے سے ہم آہنگ ہے کہ اگر عوام کی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہ کیا جا سکے تو کم از کم جو زندگی وہ جی رہے ہیں اور جو اُن کا مقدر ہے اسی میں آسانیاں پیدا کر دی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔