وہ دوسروں کو مکمل کرتی ہے مگرخود۔۔۔۔

زاہد نثار  اتوار 5 جون 2016
جسمانی معذوری کو ہراکر ماہر بیوٹیشن بننے والی حمیرا مشتاق ۔  فوٹو : فائل

جسمانی معذوری کو ہراکر ماہر بیوٹیشن بننے والی حمیرا مشتاق ۔ فوٹو : فائل

پاکستانی معاشرے میں خواتین کا سماجی و صنعتی ترقی میں نمایاں کردار ہے۔ 52 فی صد آبادی کی نمائندگی کرنے والی خواتین کو اپنی سماجی حیثیت و مرتبہ کے مطابق نمائندگی نہ ملنا سماجی رویوں میں تضاد کی علامت ہے۔ بدقسمتی سے خواتین سے جُڑے روایتی مسائل صدیوں کے سفر کے بعد بھی جوں کے توں ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو بے شمار تہذیبی روایتوں کا امین ہے، جس کی اپنی اختیار کردہ اقدار بھی خواتین کے احترام، اسی معاشرے میں خواتین کا بہ لحاظ آبادی قابل رحم حالات میں زندگی گزارنا عجیب تر ہے۔ کھیتوں میں کپاس چنتی، چاول بوتی، گھاس کاٹتی، گندم اور دیگر فصلوں سمیت گھر بار اور کنبہ سنبھالتی خواتین مردوں سے کسی طرح بھی کم نہیں۔

پاکستان میں خواتین کی تعلیم وتربیت ہمیشہ سے کٹھن مرحلہ رہی ہے اور یہ برصغیر کا خاصہ بھی ہے، جو وراثتی طور پر پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ وڈیرا شاہی، سرداری، نوابی اور حاکمانہ سوچ کو قدامت، روایت اور اب شدت پسندی کے عنصر نے مزید کٹھن بنادیا ہے۔ یہ غالب عنصر بچیوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں غالب رہا ہے۔ لیکن نسبتاً کم رفتار ہی سے سہی ترقی پذیر سوچ نے خواتین بھی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے اور آج پاکستانی خواتین جہاز اُڑانے سے لے کر فیشن کو نئے طور اور رنگ ڈھنگ دینے تک اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا بھر میں منوا رہی ہیں۔ یوں پاکستان کا نام پاکستانی مردوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی خواتین کی بے پناہ محبت و لگن اور اپنے مشن سے حقیقی وابستگی کی بدولت اقوام عالم میں پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔

خواتین کے مسائل اپنی جگہ مگر خواتین کی ہمت و بلند حوصلگی اور ناموافق حالات کے باجود خود کو منوانا ایک قابل تحسین عمل ہے اور یہی دراصل پاکستانی عورت کی اصل طاقت ہے۔ سماج میں عورت کے حقیقی مقام کی نشان دہی اور اس کی تکریم کے بارے میں اسلام نے صدیوں قبل واضح راہ متعین کردی تھی اور اس کی تکریم کو سماج پر اخلاقی طور پر نافذالعمل کرکے دکھا بھی دیا تھا، جو کہ درحقیقت مذہب کی بنیادی روح ہے اور جس کی روشن مثالیں اسلامی معاشرے میں موجود ہیں۔

تعلیم صحت اور رفاہ عامہ کے دیگر معاملات زندگی کے بارے میں حکومتوں کے متذبذب اور کم ترجیحی توجہ والے منصوبوں نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں ودیگر ترقی یافتہ ممالک کی خواتین کے مقابلے میں اس طرح سامنے نہیں آسکیں۔ لیکن پاکستانی عورت باوجود ان مسائل اور غیرہموار معاشرتی سوچ کے عائلی وسماجی نظام کو جوڑنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور خود کو معاشرے میں مرد کے شانہ بشانہ اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع بھی حاصل کیا ہے۔ ان پیچیدہ سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ اگر کسی قسم کی معذوری بھی شامل ہوجائے تو زندگی کتنی کٹھن اور ناہموار ہوجاتی ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

مرد کے ساتھ جُڑی معذوری اس کے مردانہ وجود کی وجہ سے کم قابل ترس گنی جاتی ہے لیکن اگر کوئی خاتون معذور ہو تو اس کے سماجی ومعاشی مسائل نیز مستقبل تک ایک گمبھیر صورت حال کو جنم دیتے ہیں اور مستقل کی توقعات ختم ہونے کے قریب پہنچ کر مستقبل ہی کو خطرے سے دو چار کردیتی ہیں۔ یہ مسائل نامساعد حالات کی وجہ سے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، جن میں نفسیاتی مسائل سرفہرست ہیں۔

جسمانی معذوری ہمارے معاشرے میں ہم دردی اور برابری کی حیثیت کی بجائے ترس کھانے سے شروع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بھکاری ترس کی دولت لوٹنے کے لیے معذوری کا سہارا لیتے دکھائی دیں گے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایسی باہمت اور بلندحوصلہ خواتین بھی پاکستانی معاشرے کا سنگھار ہیں، جنہوں نے جسمانی معذوری پر ذہنی صحت مندی کو ترجیح دے کر اپنے لیے معاشرے میں ممتاز مقام حاصل کیا ہے اور جسمانی معذوری کے باوجود اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں جت گئیں۔

ایسی ہی ایک بلند حوصلہ اور روشن خیالات کی مالک خاتون حمیرا مشتاق ہیں جو کہ بہاولپور کے مضافاتی علاقے چک نمبر 67/DBمیں محمد مشتاق آرائیں کے ہاں جولائی 1989ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کی جسمانی طور پر پیدائشی معذوری ان کے والدین کے لیے کڑا امتحان تھی۔ ان کے ہاتھوں اور پیروں کی نشوونما نہیں ہوسکی، جس کی وجہ سے ان کے ایک ہاتھ کا پنجہ اور کہنی ہے، جب کہ دوسرا ہاتھ میں صرف انگوٹھا اور ایک چھوٹی سی انگلی ہے۔ ان کے دونوں پیر بھی نشوونما نہ ہونے کی وجہ سے بہت چھوٹے رہ گئے ہیں۔

حمیرا مشتاق نے ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں سے حاصل کی اور میڑک بہاولپور سے کیا، جب کہ بہاولپور ہی سے انٹر اور بعد ازاں علامہ اقبال یونیورسٹی سے بی ایڈ 2010ء جب کہ اسپیشل ایجوکیشن میں 2012ء میں ماسٹر ز کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ایم اے عربی میں شہادت العالمیہ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 18سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد چھے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے حالات ابتر ہوگئے۔ بھائیوں اور بہنوں کی شادیوں اور ان کی علیحدگی سے زندگی کٹھن ہوگئی اور پروفیسر یا لیکچرار بننے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔ زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی شعبہ اپنانا ضروری تھا۔ ایک مقامی اسکول نے چندہ ماہ قلیل تن خواہ پر ان کو بہ طور ٹیچر رکھا مگر پھر ان کی معذوری کو بہانہ بنا کر معذرت کرلی۔ ان کا دل بجھ سا گیا، مگر وہ مایوس نہیں ہوئیں اور انہوں نے معاش کے لیے جدوجہد تیز کردی۔

ایک ہم درد اور خدمت انسانی کے جذبے سے سرشار خاتون آپی فخر النساء نے حمیرا کی خداداد صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں بیوٹیشن بننے کا مشورہ دیا اور بعدازاں اس کو بیوٹیشن کا کورس کروا کر اپنے ساتھ بطور بیوٹیشن منسلک بھی کرلیا۔

حمیرا اپنے پروفیشن میں جدت کی خواہش لیے نت نئی تجاویز پیش اور ان پر عمل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مینجمنٹ کی خداداد صلاحیت کی بدولت ہر دل عزیز ہیں اور بطور بیوٹیشن ہی تعلیم کو آگے منتقل کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں ۔

حمیرا مشتاق کے مطابق پیدائشی معذوری کی وجہ سے انہیں بچپن ہی سے لاتعداد مسائل کا سامنا رہا ہے۔ والدہ نے ان کی تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی، اس کے علاوہ اسکول اور کالج میں ان کی اچھی کارکردگی کے باعث حمیرا کے بہن بھائی ان سے حسد کرنے لگے۔ ابھی انہوں نے اپنی عملی زندگی کی شروعات کی ہی تھی کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔

حمیرا مشاق نے خود پر اپنی والدہ کے بھرپور اعتماد سے حوصلہ پا کر سلائی کا کام سیکھ لیا اور اب وہ سوائے روٹی پکانے کے تقریباً ہر کام کرلیتی ہیں۔ فخرالنساء فخری آپا کو حمیرا اپنی دوسری ماں کا درجہ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی شفیق اور مہربان خاتون ہیں، جنہوں نے ان کی والدہ کی طرح ان کو اپنے ساتھ وابستہ کیا ہوا ہے۔ حمیرا کہتی ہیں کہ ان پر ترس کھانے والے لوگ ان کو پسند نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ ان کے ہاتھ اور پاؤں دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور بعدازاں ان کا رویہ عجیب ہوتا ہے۔ ان کی نظر میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے افراد درحقیقت انسانی سوچ کے مالک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اخلاقی معذوری ہی سب سے بڑی معذوری ہے، جس کے سامنے جسمانی معذوری کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

حمیرا مشتاق برائیڈل میک اپ کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ حکومت بیوٹیشن انسٹی ٹیوٹس کو باقاعدہ تعلیم کا درجہ دے اورVTI (ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ) میں ان کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع دے تو وہ اپنی ظاہری معذوری کے باوجود خواتین خصوصاً معذور افراد کو ہنر کی دولت سے مالا مال کر کے معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بناسکتی ہیں۔

فیشن اور جدت کے نئے طورطریقوں سے آگاہ حمیرا مشتاق بوتیک اور اس سے جُڑی کاروباری سوچ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا لباس کا انتخاب رنگوں کا امتزاج اور نفیس سلائی ان کی سلیقہ مندی کا واضح ثبوت ہیں۔ وہ فیشن انڈسٹری کی باریکیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں اور خام مال سے پروڈکشن تک کے تمام شعبہ جات سے بخوبی آگاہ بھی ہیں۔

حمیرا مشتاق جسمانی معذور کا شکار افراد اورخواتین کے لیے محنت اور خوداعتمادی کی ایک روشن مثال ہیں۔ ان کی زندگی اور جدوجہد ثابت کرتی ہے کہ اگر ہمت ہو تو کوئی کمی، معذوری اور حالات راستے کی دیوار نہیں بن سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔