- عجیب و غریب ڈیزائن کی حامل گاڑیاں
- سرجری سے انکاری معمر افراد کیلئے انتباہ
- صوتی آلودگی اور پرندوں پر پڑنے والے اس کے سنگین اثرات
- جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے انتظامیہ انہیں اجازت دے، فضل الرحمان
- بھارتی وزیر خارجہ امیت شاہ ہیلی کاپٹر حادثے میں بال بال بچ گئے
- مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود بائیس فیصد کی سطح پر برقرار
- خیبر پختون خوا میں بارشوں سے تین روز کے دوران 10 افراد جاں بحق
- انوکھا انداز؛ نیوزی لینڈ ٹی-20 ٹیم کا اعلان 2 بچوں نے کیا
- علی رضا عابدی کے قتل میں ملوث چار مجرموں کو عمر قید کا حکم
- تحریک انصاف کے بیک ڈور کسی سے مذاکرات نہیں ہورہے، بیرسٹر گوہر
- سکھوں کے حقوق اور آزادی کیلیے آواز بلند کرتے رہیں گے؛ کینیڈین وزیراعظم
- پنجاب سے گزشتہ سال ڈھائی ہزار بچے اغوا، 891 جنسی زیادتی کا نشانہ بنے
- اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم پاکستانی نژاد وزیراعظم نے استعفی دیدیا
- عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں معمولی کمی
- ہم پاکستان کو سرمایہ کاری اور تجارت کے حوالے سے ترجیح دے رہے ہیں، سعودی وزیر تجارت
- لاپتا افراد کے اہل خانہ کے دکھ کا کسی کو احساس ہی نہیں، سندھ ہائیکورٹ
- کے الیکٹرک نے بجلی کے نرخ میں 19 روپے فی یونٹ اضافے کی درخواست دیدی
- بشام میں چینی انجینئرز بس حملے میں ملوث ٹی ٹی پی کے 4 دہشتگرد گرفتار
- غزہ صورت حال؛ امریکی وزیر خارجہ اہم دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے
- چیئرمین سنی اتحاد کونسل کا پی ٹی آئی کو اسمبلیوں سے استعفے کا مشورہ
اب کیا رمضان کے مہینے میں بھی نہیں کمائیں؟؟؟
سوچا رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوگیا ہے تو اشیائے ضرورت کی چند چیزیں خرید ہی لوں۔ دکاندار سے تھوڑی بہت دعا سلام تھی اور موصوف کچھ کچھ ہم سے واقف تھے یا پھر ہمارے واقفِ حال تھے یہ تو رب ہی بہتر جانتا ہے۔ خیر ازلی مسکراہٹ سے استقبال ہوا ہمارا کہ بکرا معاف کیجئے گا گاہک آگیا۔ چمڑے کی زبان ہے پھسل جاتی ہے۔
دکاندار کے سامنے وہی چیزیں دوہرائیں جو درکار تھیں، اور جن کی دستیابی کا خیال رمضان جیسے با برکت مہینے میں بے پناہ رش کے باوجود بھی آیا تھا۔ دکاندار نے سکون سے تمام فہرست سنی اور اختتامِ فہرست پر استہزائیہ انداز میں مسکرا دیا۔ حیران ہوا کہ کہیں میرے چہرے پر کوئی جگت تو تحریر نہیں یا میری بغل میں کہیں ٹیڈی نے سر نکال لیا ہے جو موصوف مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں۔ دائیں بائیں دیکھنے پر بھی جب ایسا کچھ نظر نہ آیا تو سوالیہ نشان بن کر بازو سینے پر باندھ کر کھڑا ہوگیا کہ نجانے اب کون سا جن نکلتا ہے جو ہنسی کا موجب بنا ہے۔ لیکن جن نکلنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
سرکار یہ چیزیں ابھی آپ کو نہیں ملیں گیں، مارکیٹ میں آج کل ان کی کافی قلت ہے۔ (یہ فقرے اُس نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ببانگ دہل کہے)۔ دراصل سیزن شروع ہوگیا ہے ناں اس لئے یہ تمام چیزیں گوداموں میں اسٹور ہوگئی ہیں۔ (یہ الفاظ مجھے ایک غلیظ انداز سے آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائیں گئیں جس پر میں تلملا بھی نہ سکا کیوں کہ اُس سے اُدھار جو لیتا تھا)۔ سوہنٹریو! مجھے آپ کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ابھی تو عید الفطر کا کم ازکم ایک ماہ تک نشان نہیں، اور شادی بیاہ کا سیزن بھی اختتام تک پہنچ چکا ہے، پھر کوئی اقلیتی تہوار بھی قریب قریب نہیں ہے۔ پھر کاہے کا سیزن اور کاہے کا منافع؟
بھولے بادشاہو! رمضان کا سیزن شروع ہوگیا ہے ناں! اُس نے ایک تمسخرانہ انداز سے میری کم علمی کا ماتم کرتے ہوئے قہقہہ لگایا تو میں بے بسی اور بے چارگی سے کلس کر رہ گیا اور منمناتی ہوئی آواز میں استفسار کیا کہ محترم شاید آپ غلط بول گئے ہیں۔ عید کی جگہ رمضان کہہ دیا۔ جب وہ اپنی بات پر قائم رہا تو پوچھا کہ بھائی صاحب رمضان تو ایثار کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں تو غرباء، اقربا، یتامیٰ، مساکین، کی مدد کا کہا گیا ہے نہ کہ منافع خوری کا تو وہ کھسیانی ہنسی سے بس اتنا کہہ سکا، صاحب جی! جاؤ اگلی دکان پر، سال میں ایک ہی مہینہ تو سیزن کا ہوتا ہے اور آپ کہتے ہیں اس میں بھی منافع نہ کمائیں۔
رمضان کا چاند تو آج نظر آیا ہے، مگر ہم نے #مہنگائی کا چاند ایک ہفتہ پہلے سے ہی چڑھا دیا تها- خیر #رمضان مبارک #پاکستان.
— Mian Zeshan Arif (@Miangee_596) June 6, 2016
ایک لمحہ صرف غور کیجئے کہ جس مہینے میں آسمان سے رحمتیں برس رہی ہوں، ہم اُس مہینے کی ساعتوں کو جب ناجائز منافع خوری اور کمائی کا سیزن بنانے کے چکر میں صرف کر رہے ہوں گے تو کیسے رحمت ہمارے بگڑے معاملات سنوارے گی؟ جب شیطان کے قید ہونے کے باوجود ہم شیطانی افعال سے جان چھڑانے کے بجائے چند ٹکوں کی خاطر اپنی دنیا و عاقبت دونوں تباہ کرتے رہیں گے تو پھر کیسے یہ تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ رمضان کی عبادات ہماری اصلاح کر پائیں گی؟
جس مہینے میں عبادات کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے ہم اُس با برکت مہینے میں بھی اپنے دامن میں جب خار سمیٹ رہے ہیں تو پھر رحمت کی توقع کس منہ سے؟ اللہ نے تو ہمیں موقع دیا ہے لیکن جب ہم خود ہی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اُلٹا اپنا دامن تار تار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں تو خدا کی رحمت کیسے ہم تک آئے گی؟
ان لمحوں میں جب ہم مضبوط قدموں سے دھرتی پر چلتے ہوئے بخشش کو ٹھکرا رہے ہیں تو بخشش اُن لمحوں میں کیسے ہم پر سایہ کرے گی جب ہمارے قدموں میں کھڑے رہنے کی طاقت نہیں رہے گی؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، سوچئے! اگر سوچنے کی طاقت ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔