امامِ حسین ؓکی شہادت

مفتی منیب الرحمن  ہفتہ 24 نومبر 2012
اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ خالق کے نام پر اور اس کی ذات کے لیے فنا ہی میں ’’بقائے دوام‘‘ ہے.  فوٹو: رائٹرز

اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ خالق کے نام پر اور اس کی ذات کے لیے فنا ہی میں ’’بقائے دوام‘‘ ہے. فوٹو: رائٹرز

دس محرم الحرام 61ہجری کو میدانِ کربلا میں تاریخ اسلام کا انتہائی اندوہ ناک اور دلوں کو ہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا۔

یزیدی افواج نے نواسۂ رسول، لختِ جگرِ فاطمہ وعلی حضرت امام حسینؓ، ان کی اولاد، اقربا اور اعوان وانصار کو انتہائی مظلومیت کے عالم میں شہید کردیا۔ کوفے کی مساجد سے نماز جمعہ کے لیے ’’اشہد ان محمد الرسول اﷲ‘‘ کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اور کربلا میں رسول ؐ کے محبوب نواسے کی گردن پر خنجر چلایا جارہا تھا۔ یہ وہی حسین ہیں جن کے لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا:’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘ یعنی حسین میرے جگر کا ٹکڑا ہیں، میرے نسب کے امین ہیں اور میری برکات اور کمالات کا ظہور انہی کے ذریعے ہوگا۔

ان کی والدہ کے لیے نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:’’فاطمہ ؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں، میرے وجود کا حصہ ہیں، جو انھیں ناراض کرے گا، وہ مجھے ناراض کرے گا۔‘‘ حضورؐ نے حسنین کریمین کے مبارک نام خود رکھے، انھیں اپنے لعاب دہن کی گھٹی دی، ان کے بدن کے بوسے لیے، گود میں بٹھا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، کندھوں پر بٹھا کر سیر کرایا کرتے تھے۔

نبوت و رسالت کے بعد اسلام میں تقرب ِبارگاہ الٰہی کے جو اعلیٰ مقامات ہیں، ان میں ایک نمایاں مقام، مقامِ شہادت ہے۔ جو خوش نصیب اس مقام پر فائز ہوجائے، اسے شہید کہتے ہیں۔ اس منصب کو مزید عزت بخشنے کے لیے حضور ؐ نے اس کی تمنا فرمائی۔

آپؐ نے فرمایا:’’میری آرزو ہے کہ میں اﷲ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر شہید کیا جاؤں۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
قرآن مجید میں اس منصب کے لیے ’’قُتل فی سبیل اﷲ‘‘ (یعنی:’’اﷲ کی راہ میں قتل کیاجانا‘‘) کے کلمات ارشاد ہوئے ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انھیں مُردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمھیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘ بقرہ: 154)
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کیے گئے، انھیں مُردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں (اور) انھیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘ (آل عمران:170)

اب یہاں بہ ظاہر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص راہ خدا میں قتل کردیا گیا، ہمارے طبّی معیار اور مشاہدے کے مطابق طبعی طور پر وہ وفات پاگیا۔ تو قرآن یہ بات کیوں کہتا ہے کہ وہ زندہ ہے، اسے مُردہ مت سمجھو۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حیات وموت کا ایک معیارِ حسّی وطبعی ہے، اس اعتبار سے تو بلاشبہہ شہید مر چکا ہے، اسے مردوں کی طرح دفن کر دیا جاتا ہے، اس کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، اس کا ترکہ، اس کے ورثاء میں تقسیم ہوجاتا ہے، اس کی بیوہ عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن حیات وموت کا ایک فلسفہ وتصور یہ ہے کہ مقصد تخلیق اور مقصد حیات کو پالینے کا نام زندگی ہے، خواہ طبعی طور پر مرچکا ہو، اور مقصد حیات کو فراموش کر دینے کا نام موت ہے، خواہ طبعی طور پر زندہ ہی کیوں نہ ہو۔

اب رہا یہ سوال کہ مقصد تخلیق وحیات کیا ہے؟
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پید ا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات:56)

مفسرین نے فرمایا کہ یہاں عبادت سے مراد معرفت باری تعالیٰ ہے، کیوں کہ جب ذات باری تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل ہوگی تو اس امر کا یقین ہوگا کہ خالق ومخلوق اور عبد اور معبود کا باہمی تعلق کیا ہے۔ اس کی رضا کے حصول کا راستہ کون سا ہے۔ مقام عبدیت یہ ہے کہ اﷲ کی دی ہوئی ہر نعمت حتیٰ کہ عزیز ترین نعمت ’’جان‘‘ کو اس کی راہ میں قربان کردیا جائے۔ اور جو خوش نصیب اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ’’نعمتِ حیات‘‘ کو اس کی راہ میں قربان کردے تو اسے ’’بقائے دوام‘‘ اور ’’حیات ابدی‘‘ کی نعمت مل جاتی ہے۔

گویا زندگی کبھی تحفظ وبقائے حیات کا نام ہے اور کبھی ’’جان عزیز‘‘ کو جاں آفریں (خالق) کی راہ میں قربان کردینے کا نام ہے، بلکہ ’’معراجِ حیات‘‘ یہی ہے۔

اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ خالق کے نام پر اور اس کی ذات کے لیے فنا ہی میں ’’بقائے دوام‘‘ ہے، اور فطرت کا عام قانون یہی ہے کہ ہر ادنیٰ چیز اپنے سے اعلیٰ چیز میں فنا ہوکر ہی بقا پاتی ہے، یعنی کسی اعلیٰ مرتبے اور منصب کو پانے کے لیے اپنی ہستی اور ’’انا‘‘ کو قربان کرنا پڑتا ہے، کسی بھی درخت کا تخم یا بیج جب اپنے وجود کو فنا کرتا ہے تو پھر وہ پودے کی شکل اختیار کرتا ہے، پروان چڑھتا ہے، برگ و بار لاتا ہے اور گل وگل زار بنتا ہے۔ نباتات، حیوانات کی غذا بن کر ان میں فنا ہوتے ہیں، حیوانات، انسان کی غذا بن کر اس کا جزو بدن بنتے ہیں۔ ساری کائنات انسان کے لیے تابع اور مسخر کردی گئی ہے تو لازم ہے کہ انسان جو افضل المخلوقات ہے، اگر بقائے دوام چاہتا ہے تو اپنی ذات کو اعلیٰ ترین ہستی، ذاتِ باری تعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے ’’حیات ابدی‘‘ کی منزل سے ہم کنار ہوجائے۔

لفظ شہید ’’شہادت‘‘ سے بنا ہے اور ’’شہادت‘‘ کے معنیٰ ہیں:’’گواہی‘‘ اور ’’کسی مقام پر حاضر و موجود ہونا‘‘ شہید کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا ظاہری حال اس کے مقبول بارگاہ ہونے پر گواہ ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اس کی شہادت کے وقت اعزاز و اکرام کے طور پر فرشتے اس کی روح کے استقبال کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:’’بلاشبہہ جن لوگوں نے کہا، ہمارا رب اﷲ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں (اور بشارت دیتے ہیں) کہ تمھیں نہ تو کسی (آنے والے خطرے) کا خوف ہونا چاہیے اور نہ ہی (کسی گذشتہ بات کا) رنج وملال، اور اس جنت کی خوش خبری سنو، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘ (حٰم السجدہ:23)

شہید کو شہید اس لیے بھی کہتے ہیں کہ دنیا سے وفات پاتے ہی اس کی روح جنت میں حاضر و موجود ہوجاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ابتلا وآزمائش کی کئی صورتیں ہیں: کبھی انسان پر دشمن کا خوف مسلط کردیا جاتا ہے، کبھی فاقہ وافلاس میں مبتلا کردیا جاتا ہے، کبھی مال سے محروم کردیا جاتا ہے اور کبھی اسے ثمرات دنیا سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ ثمرات (پھل) سے مراد اولاد کی قربانی بھی ہے۔ اور کبھی انسان کو اپنی سب سے عزیز ترین متاع یعنی جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ غرض جس کا امتحان جتنا سخت ہوگا، اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کا مرتبہ بھی اتنا ہی بلند ہوگا۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور ہم ضرور تمھیں آزمائیں گے (کبھی) خوف اور (کبھی) بھوک اور (کبھی) جان ومال اور ثمرات (دنیاوی نعمتوں اور اولاد) کی کمی کے ذریعے۔ اور (ایسے حالات میں) صبر کرنے والوں کو (جنت کی) بشارت دے دیجیے۔‘‘ (بقرہ:155)

اگر کسی کے لیے ابتلا وآزمائش اور امتحان کے یہ سارے مراحل اور مصائب جمع کردیے جائیں تو وہ کمال ایمان اور کمال شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور وہ اﷲ اور اس کے رسول مکر م ﷺ کا محبوب ہوتا ہے۔
معرکہ ٔ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے لیے قربانی کی یہ تمام صورتیں یک جا کردی گئی تھیں۔ دشمن کا خوف، وطن سے دوری، وسائلِ حیات کا فقدان، احباب، اقرباء، اولاد حتیٰ کہ بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی قربانی، خواتین کے مصائب وآلام اور پھر عالم مظلومیت میں جان کی قربانی، ایسی بے مثال اور لازوال قربانی کی نظیر تاریخ اسلام، بلکہ تاریخ انسانیت میں بہت کم ملتی ہے۔

امام حسین نے یہ قربانی طلب اقتدار اور حصول ِ منصب کے لیے نہیں دی، بلکہ دین حق کی سربلندی اور اسلامی اقدار کے احیاء اور ظلم وتعدی کو مٹانے کے لیے دی تھی۔

حدیث پاک میں آیا ہے کہ رسول کریم ؐ سے دریافت کیا گیا:’’اے اﷲ کے رسول ؐ، ایک شخص (اپنی ذاتی، گروہی، قبائلی یا قومی) حمیت وعصبیت کے لیے لڑتا ہے، ایک شخص صرف اس لیے لڑتا ہے کہ دنیا میں اس کی شجاعت کے چرچے ہوں، ان میں سے اﷲ کی راہ (اور رضا) میں کون ہے؟‘‘

نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا:’’وہ، جو صرف اس لیے لڑتا ہے کہ اﷲ کا دین سربلند ہو۔‘‘

ایسے مجاہد کا اﷲ کی بارگاہ میں اتنا بلند مقام ہے کہ قرآن مجید کی سوویں سورت ’’العٰدیات‘‘ کی ابتدائی آیات میں اﷲ تعالیٰ، مجاہدین کے ہانپتے ہوئے گھوڑوں، ان کے قدموں کی رگڑ سے نکلنے والی چنگاریوں، ان کے علی الصبح حملہ کرنے کی ادا، ان کے قدموں سے اڑنے والی گرد اور ان کے دشمن کی صفوں میں گھس جانے کی قسم فرماتا ہے۔ اندازہ لگائیے! نگاہِ الو ہیت جل وعلا میں جس مجاہد کے گھوڑے کی ادائیں اس قدر دل کش و دل ربا ہوں، خود اس مجاہد کی کیا شان ہوگی؟ یہ تو عام مجاہد کا مقام ہے، سید الانبیاء ﷺ کے محبوب نواسے کی مظلوم شہادت کا کیا درجہ ہوگا؟

یہی وجہ ہے کہ اگر چہ دنیاوی معیار اور مشاہدے کے مطابق اس وقت یزید فاتح بن گیا تھا اور حضرت امام حسین شہید ہوگئے تھے، وقتی طور پر یزید کی سلطنت وحکومت قائم رہی تھی، لیکن آج کرۂ ارض پر ایک صاحب ایمان فرد بھی ایسا نہیں ملے گا جو اپنے آپ کو فخر سے ’’یزیدی‘‘ کہے، جب کہ اپنے آپ کو حسینی، بلکہ امام حسین کے قدموں کی خاک سمجھنے اور کہلانے والے کروڑوں ملیں گے۔

البتہ یہ بھی ایک افسوس ناک اور تلخ حقیقت ہے کہ آج بلاشبہہ امام حسینؓ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے تو لاتعداد ہیں، لیکن کردار حسین کا مظہر کوئی نہیں۔ امام حسین سے عقیدت ومحبت کا دعویٰ ہر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرتا ہے، حسین سے محبت کے نعرے بھی ہر چار سو سنائی دیتے ہیں، لیکن حسینیت کی اعلیٰ اقدار کا حامل کوئی نہیں۔ ہر دور کے یزید وقت اور یزیدی اقدار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔