’’پڑھا لکھا پاکستان‘‘

پروفیسر عرفان شاہ  پير 26 نومبر 2012
درس گاہوں کی بار بار بندش کی سزا والدین کو بھگتنا پڑتی ہے۔ فوٹو : فائل

درس گاہوں کی بار بار بندش کی سزا والدین کو بھگتنا پڑتی ہے۔ فوٹو : فائل

’’پڑھا لکھا پاکستان‘‘ ایک دل کش خواب ہے، لیکن اس کی تعبیر کوئی کہاں سے لائے۔

ملکی حالات اور بے اطمینانی کی کیفیت نے ہر ذی شعور کو ایک مسلسل کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کوئی مہینہ شاید ہی ایسا گزرتا ہو، جس میں تعلیمی ادارے بند نہ ہوتے ہوں۔ کبھی ہڑتال، سوگ، احتجاج، کبھی سی این جی کی بندش کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، اساتذہ، طلبہ خصوصاً طالبات اور ننھے منے معمارانِ وطن اسکول وین نہ آنے کے سبب چھٹی کرنے پر مجبور اور بے بس۔

تعلیمی سال کا دورانیہ مختصر تر ہوتا جارہا ہے اور اس میں تعلیمی نصاب کی تکمیل ممکن ہی نہیں، جب کہ بجلی کی فراہمی میں گھنٹوں تعطل نے امتحانات کی تیاری کو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنادیا ہے۔ درس گاہوں کی بار بار بندش پر سیاسی اور سماجی حلقوں کی خاموشی کی سزا والدین کو بھگتنا پڑتی ہے۔ وہ اسکول کی بھاری فیس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ کسی طرح درس گاہوں کی بندش سے تعلیم کا جو حرج ہو، اسے پورا کیا جاسکے۔ اس طرح وہ مالی بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔

تعلیم گھر، مدرسہ اور معاشرہ کی ایک مثلث ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک غیر فعال ہو اور اپنا کردار حقیقی معنوں میں ادا نہ کرے تو تعلیم بے ثمر ہو جاتی ہے۔ طلباء کی بڑھتی ہوئی غیر نصابی سرگرمیوں اور غیر علمی رحجانات پر تو سب انھیں آسانی کے ساتھ موردِ الزام ٹھہرا دیتے ہیں، لیکن اربابِ حلّ و عقد، سول سوسائٹی، ذرایع ابلاغ، اساتذہ اور والدین اپنا محاسبہ کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے، ان اسباب کو جاننے سمجھنے اور مسائل حل کرنے کے لیے اپنا وقت نہیں نکال پاتے، جن کی بناء پر درس گاہیں ’خرد دماغی‘ کاشت کر رہی ہیں۔ ہم بڑے شہروں کے چند تعلیمی اداروں کے نتائج، ماحول اور چند طلباء کی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر تعلیم کی مجموعی صورت حال کو قطعاً اطمینان بخش قرار نہیں دے سکتے۔ اعداد و شمار کے ہیر پھیر پر انہی کو اعتبار ہوگا، جن کا ضمیر ’نیرو کی بانسری‘ کا شیدائی ہوگا۔

علامہ اقبال نے ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ کی جس خواہش کو طلباء کا مقصد حیات قرار دیا تھا، کیا آج اس کی ارتعاش سماج میں ہے؟ جب ہم آپس میں ملتے ہوئے اجنبیت محسوس کرنے لگیں، زبان بات کرنے کو ترسنے لگے، فکر و خیال کا آزادانہ اظہار خوف جاں کے سبب ممکن نہ رہے، تو پھر ایسے پڑھے لکھے کو آپ کیا کہیں گے؟ پڑھا لکھا فرد تو شعورِ انسانیت کا نقیب ہوتا ہے، آدمیت کا احترام اس کے لہو میں گردش کرتا ہے، سارا ملک ’اپنا گھر‘ لگتا ہے، عصبیت، نفرت، انتقام، بے ادبی اور ذاتی مفاد جیسے الفاظ تو اس کی لغت میں ہوتے ہی نہیں۔

سول سوسائٹی، اساتذہ کرام اور ذرایع ابلاغ اکثر معاملات پر تو بہت منظم طریقے سے رائے عامہ ہم وار کرتے ہوئے اور سرگرم نظر آتے ہیں، یہ وہ معاملات ہوتے ہیں، جن کا تعلق محدود طبقے، مراعات یا عارضی مسائل سے ہوتا ہے، لیکن اس ’قومی جہاد‘ کے سلسلے میں ان کا کردار جس تسلسل کا متقاضی ہے، وہ عنقا ہے۔ جب تک ہر کام حکومت پر ڈال کر اپنے فرائض سے بری الذمہ ہونے کے رجحان کو نہیں بدلیں گے، اس وقت تعلیم کی کرشماتی طاقت ہمارے اندر انقلاب پیدا نہیں کرسکتی۔

کتاب دوست اصطلاح خوب صورت ہے، لیکن اس کی ترغیب تو سب سے پہلے والدین ہی اپنے عمل سے اپنے بچوں کو دے سکتے ہیں، جب گھر میں کتاب دوست ماحول نہ ہو، تو پھر امید بہار رکھنا، چہ معنی دارد! جب اسکول وڈیرے کی اوطاق، کالجز سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے طور پر استعمال ہوں، درس گاہوں میں قومی پرچم کے بجائے تنظیمی پرچم لہرائے جائیں اور دیواریں پُرفریب نعروں سے آراستہ ہونے لگیں، تو ’’پڑھا لکھا پاکستان‘‘ کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔