اک دیا۔۔۔اپنے حصے کی سب روشنی بانٹ کربُجھ گیا

اقبال خورشید / ا ۔ خ / عبد الطیف ابو شامل  ہفتہ 23 جولائی 2016
وہ ہماری سیاسی تاریخ میں جرأت، اصول پسندی اور حق گوئی کے استعارے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے  ۔  فوٹو : فائل

وہ ہماری سیاسی تاریخ میں جرأت، اصول پسندی اور حق گوئی کے استعارے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ فوٹو : فائل

ہم بھی عجیب لوگ ہیں!
گھنے پیڑ کو تب یاد کرتے ہیں، جب وہ گر چکا ہو، اور دھوپ سروں پر کھنچ آئے۔ وقت کی اہمیت تب آشکار ہوتی ہے، جب وہ بیت چکا ہو، اور پچھتانا نصیب بن جائے۔ موقع کی قدر کا تب اندازہ ہوتا ہے، جب وہ ہاتھ سے پھسل چکا ہو۔ اور ہتھیلیوں پر فقط ملال کی سیاہی رہ جائے۔

چلن بن گیا ہے کہ جو گزر گیا، اُسے یاد کیا جائے، تو بھاری بھرکم الفاظ کی جگالی ہو۔ فصاحت و بلاغت کے نام پر مصنوعی جملے لکھے جائیں: جانے والے کا خلا کبھی پر نہیں ہوگا۔۔۔ ایک عہد تمام ہوا۔۔۔ روشنی بجھ گئی وغیرہ وغیرہ، یا پھر جلدی میں کوئی بے تکا جملہ ہی ٹکا دیا جائے، جیسے: جاتے جاتے وہ سب کو رُلا گئے۔ جب ایدھی جیسے کسی انسان کا انتقال ہوتا ہے، اور پیڑوں پر اداسی چھا جاتی ہے، تب ورق کے روبرو ہم پر یہ کرب ناک انکشاف اترتا ہے کہ بیش قیمت الفاظ کو بے دریغ برت کر ہم نے انھیں بے وقعت کر دیا ہے، اب ایدھی پر لکھیں ، تو کیا لکھیں۔

کسے خبر تھی کہ عبدالستار ایدھی کی رخصتی کا زخم ابھی بھرا نہ ہوگا کہ ایک گھاؤ اور لگ جائے گا، ایک اور ستھرا نکھرا انسان ہم سے جدا ہوجائے گا۔ ایک درخت گر جائے گا، چھاؤں ہمارے سروں سے چھن جائے گی، اور ہم سورج کی تپش میں خود کو بھٹکتا پائیں گے، اور ریت سر پر ڈالیں گے، اور گریہ کریں گے کہ ہائے، ہم نے کیوں اس شجر کی قدر نہ کی، جس کی چھاؤں ہمارے جی کو بھلی لگتی تھی۔

صاحب، سیاست میں اچھے لوگوں کا کال، مخلص لوگ چراغ لے کر ڈھونڈو، تب بھی نہیں ملتے۔ نظریہ تو کب کا اقتدار کے ایوانوں سے باہر دھکیلا جاچکا ، عوام کی خدمت کو سیاست دانوں نے اپنے منشور سے نکال دیا، مقصد اب طاقت اور دولت کے گرد گھومتا ہے۔۔۔اور ان ناگفتہ بہ حالات میں معراج محمد خاں بھی رخصت ہوئے۔

ان کی رخصتی کے بعد سمجھ لیجیے، پاکستانی سیاست میں سچائی، خلوص اور جدوجہد کی جو آخری علامت تھی، وہ بھی مٹ گئی، جو سمندر کنارے پر بنا لائٹ ہاؤس تھا، وہ گر گیا۔۔۔
کون تھے معراج محمد خاں؟

اگر نئی نسل یہ سوال کرے، تو حیرت کیسی۔ اجمل سراج کا شعر ہے:

سن یہ رونا نہیں گرانی کا
یہ تو بے قیمتی کا رونا ہے

جناب، ان کے بنا نہ تو پاکستان میں طلبا سیاست کا تذکرہ مکمل، نہ ہی ترقی پسند سیاست کا تذکرہ ممکن، صعوبتیں سہیں، تشدد برداشت کیا، یہاں تک کہ روایتی سیاست کے برتن کو بھی انھوں نے اپنی فکر سے مانجھے کی اپنی کوشش کی، مگر یہاں نگینوں کی قدر کسے۔ کبھی بھٹو صاحب نے انھیں اپنا جانشین قرار دیا تھا، مگر پھر وہ شعلہ بیان قائد موقع پرستوں میں گھر گیا، اس نظریے سے پیچھے ہٹ گیا، جو اسے اقتدار میں لایا تھا۔ بات بھٹو دور میں معراج محمد خاں کی گرفتاری تک پہنچ گئی۔ اس شخص کی گرفتاری تک، جس نے بھٹو کی حمایت میں ملک بھر کے طلبا کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔۔۔ ان فیصلوں کے نتائج آج تاریخ کا حصہ ہیں۔

کچھ عشروں بعد تازہ تازہ سیاست میں آنے والے عمران خان کو معراج محمد خاں کا ساتھ میسر آیا، تو کچھ امید بندھی کہ تحریک انصاف کی جدوجہد پاکستانی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگی، تحریک انصاف تو ایوانوں میں پہنچی، مگر جو راہ اختیار کی، معراج صاحب کو اس پر چلنا گوارا نہیں تھا۔ جو جماعت ان کے ویژن سے استفادہ کرسکتی تھی، آج اُسے دوسرے درجے کے راہ نماؤں پر اکتفا کرنا پڑتا رہا ہے۔ نتیجہ پھر سامنے ہے۔

راست گوئی ، احتجاج کی خو، سچائی کے لیے ڈٹ جانا، یہ بیش قیمت خوبیاں اپنے بزرگوں سے انھوں نے پائیں۔ ان کے بڑے بھائی، جناب منہاج برنا میں یہ دلیرانہ صلاحیتیں یوں ابھر کر آئیں کہ وہ پاکستانی صحافت میں ایک انسان سے اوپر اٹھ کر ایک داستان، ایک اساطیر بن گئے۔ 77-78 کی یادگار صحافتی تحریک کے وہ سرخیل۔ یہی مزاج معراج صاحب نے پایا تھا۔ ساری زندگی جدوجہد کی۔ آخری زمانے میں بھی ایک جنگ لڑنے کے خواہش مند تھے، مگر صحت نے ساتھ نہیں دیا۔ اور ایک معنوں میں اچھا ہی ہوا۔ معاشرہ ہمارا جمود پرست۔ تاریکی کا خوگر۔ معراج محمد خاں کے خواب سرخ سویرے سے سجے۔ نتیجہ چنداں مختلف نہیں ہوتا۔

صاحب، یہ مت کہیے کہ ان کا خلا کبھی پر نہیں ہوگا۔ یہ سوچیے کہ ان کے جانے سے خلا کیوں پیدا ہوا؟

یہ مت کہیے کہ ہمیں انھیں کبھی نہیں بھولیں گے، یہ سوچیے، ہم نے انھیں یاد کیوں نہیں رکھا؟

ان دو سوالوں کا جواب اس نقصان کی شدت عیاں کر دے گا، جو ان کے انتقال سے پاکستان کو ہوا۔

ہمارے ہاں انسانوں کی قدر نہیں کی جاتی
خواہش ہے، نئی نسل کے لیے پھر ایک لڑائی لڑوں!
مایہ ناز ترقی پسند سیاست داں کا ایک انٹرویو

(سینیر اور معتبر سیاست داں معراج محمد خان کا یہ انٹرویو ایکسپریس کی 24 نومبر 2010 کی اشاعت کا حصہ بنا تھا۔ یہ مکالمہ ان کی زندگی، شخصیت اور نظریات کا احاطہ کرتا ہے)

اگر وہ رو برو ہوں، تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ورق بہ ورق مطالعے کا نادر موقع ہاتھ آجاتا ہے!!

بد ترین گھٹن میں، قیدوبند کی صعوبتیں اور بدترین تشدد سہنے والے اس الجھے انسان نے آمریت کے خلاف روشن خیال طلبا کو منظم کیا اور ملک گیر سطح پر تاریخی اہمیت کی حامل ایک ایسی تحریک چلائی جس کے کردار آج افسانوی معلوم ہوتے ہیں۔ مؤثر تبدیلی کی خواہش میں سیاست میں قدم رکھا اور پیپلزپارٹی کو منظم کرنے کے لیے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر کلیدی کردار ادا کیا۔ حق گوئی و بے باکی کا یہ عالم تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں، جب ان کے عروج کا سورج نصف النہار پر تھا کہ جانشین مقرر کیا جاچکا تھا، نہ صرف وزارت سے استعفیٰ دے دیا بل کہ جیل جانا بھی قبول کیا۔ اصول پسندی کا تو ذکر ہی کیا جب ضیا الحق نے بھٹو کے خلاف کام کرنے کی پیش کش کی، تو کہہ دیا ’’جناب! میں کرائے پر کام نہیں کرتا‘‘ یہ معراج محمد خان کا ذکر خیر ہے۔

19 اکتوبر 1938 کو ناگ پور، ہندوستان میں آنکھ کھولی، والد تاج محمد خان طبیب تھے۔ پانچ بہنوں، چار بھائیوں میں چھوٹے، خاصے شرمیلے تھے۔ لوگوں سے گھلنے ملنے میں وقت لگتا۔ یوں تو ہاکی اور تیراکی کا بھی تجربہ کیا لیکن فٹ بال زیادہ پسند آیا کہ اس کھیل میں عملی زندگی کے کئی پہلو نظر آتے تھے۔ بچپن آبائی گاؤں قائم گنج، ضلع فرخ آباد میں گزرا۔ پڑھائی سے زیادہ سیر و تفریح کے شوقین معراج محمد خان نے میونسپلٹی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اب جامعہ ملیہ دہلی میں قدم رکھا۔ تقسیم ہند کے وقت والد کوئٹہ میں تھے، باقی خاندان قائم گنج میں تھا۔ 49 میں حکومت نے ان کی زمین اور مکان ضبط کرلیا تو رخت سفر باندھا، لاہور پہنچے، وہاں سے بہ ذریعہ ٹرین کوئٹہ چلے گئے۔

ہجرت کے تجربے سے گزرنے والے کم سن معراج محمد خان نے سینڈیمن اسکول، کوئٹہ میں تعلیم حاصل کی، 56ء میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کیا اور کراچی آگئے۔ ایس ایم آرٹس کالج میں داخلہ لیا۔ بتاتے ہیں ’’گو کہ ہم بھائی بہن قدامت پسند گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن سب بہت لبرل تھے۔ ہماری بہنیں خواتین کی آزادی کی بھرپور حمایتی تھیں۔ بڑی بہن اصغری خانم اردو میں ملکہ رکھتی تھیں اور بمبئی سے ’’تنویر‘‘ نامی ایک اخبار نکالتی تھیں۔ میرے بڑے بھائی، دکھی پریم نگری، سبھاش چندر بوس کی پارٹی میں تھے۔ الغرض گھر میں ’’پروگریسوینس‘‘ تھی۔ کالج میں بہ طور مقرر شناخت حاصل کرنے والے نوجوان معراج کو سوشلسٹ لڑکے گھیرے رہتے، جن میں جوہر حسین، آغا جعفر اور واحد بشیر نمایاں تھے۔

57ء کے اواخر میں این ایس ایف کے رکن بنے۔ 58ء میں امریکی صدر، آئزن ہاور کی پاکستان آمد کے موقع پر طالب علموں نے ایئرپورٹ پر احتجاج کا پروگرام ترتیب دیا یہ اطلاع کسی ذریعے سے اعلیٰ حکام کو مل گئی۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد گرفتار ہوئے وہ بھی ’’شرپسندوں‘‘ میں شامل تھے، تین ماہ جیل میں گزرے۔ مارشل لا لگنے کے بعد سیاسی جماعتوں کے ساتھ این ایس ایف پر بھی پابندی عاید کردی گئی تھی، سو طلبا راہ نماؤں کی جانب سے ’’انٹر کالجیٹ باڈی‘‘ کو متحرک و منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ان کے پینل نے انتخابات میں کام یابی حاصل کی۔ فتح یاب علی خان صدر اور معراج محمد خان نائب صدر چنے گئے۔ معراج محمد خان راہِ زیست کا تعین کرچکے تھے۔ ان کے بہ قول این ایس ایف کی ’’کال‘‘ پر کانگو کے صدر، پیٹرس لوممبا کے قتل کو جواز بناتے ہوئے ایوب خان کے خلاف ہزاروں طلبا سڑکوں پر نکل آئے۔ جن کا ٹکراؤ براہ راست حکومت سے تھا۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے باہر انھیں مخالف طلبا گروہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایس ایم آرٹس کالج میں ہونے والے جلسے میں، لاٹھی چارج کے بعد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ مارشل لا کورٹ نے انھیں ایک سال کی سزا سنائی تھی۔ لیکن احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر چھے ماہ بعد رہا کر دیا۔

62ء میں ان سمیت سات طلبا کو ملک دشمنی کے الزامات کے تحت شہر بدر کردیا گیا۔ ایک برس کوئٹہ میں خاموشی سے گزرا۔ واپسی کے بعد تین سالہ ڈگری، تین سالہ لا کورس اور یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ’’ہماری جدوجہد اور تحریک کا اصل مقصد ایوب حکومت کا خاتمہ تھا۔ ہم جانتے تھے کہ تحریک کا چرچا اسی وقت ہوگا جب ہم کوئی بڑا واقعہ کریں گے!‘‘ اور یہ بڑا واقعہ پولو گراؤنڈ کراچی میں پیش آیا جہاں کنونشن مسلم لیگ کا پہلا جلسہ منعقد ہوا۔ چوہدری خلیق الزماں صدارت کررہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو سیکریٹری جنرل تھے۔ سیکیوریٹی سخت تھی، تاہم کسی نہ کسی طرح طلبا مسلم لیگ کے بیج لگا کر اندر داخل ہوگئے اور منصوبے کے مطابق اسٹیج پر چڑھ گئے۔

خوب ہنگامہ ہوا۔ باقی لوگ تو بھاگ گئے، لیکن بھٹو صاحب نے اسٹیج سے ہٹنے سے انکار کردیا کہا میں تم سے لڑوں گا۔ آؤ مجھ سے لڑو، ہم گتھم گتھا ہوگئے۔ خیر، پولوگراؤنڈ کے واقعے کے بعد ان کا پیغام ملک کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ ایک بار پھر معراج صاحب سمیت بارہ طلبا کو شہر بدری کی سزا سنائی گئی۔ کہتے ہیں۔ ’’ہر جگہ ہمارا شان دار استقبال ہوتا۔ حیدر آباد پہنچے تو سندھ یونیورسٹی بند ہوگئی، پنجاب پہنچے، پنجاب یونیورسٹی بند، پشاور یونیورسٹی بند! ملک میں ہنگامہ شروع ہوگیا‘‘ اس زمانے میں ان کے والد شدید بیمار تھے، معراج محمد خان کوئٹہ جانے کے خواہش مند تھے، لیکن کوئٹہ جانے کی اجازت کو معافی مانگنے سے مشروط کردیا گیا جو انھیں منظور نہیں تھا۔ شدید احتجاج نے حکومت کو مجبور کردیا۔ طلبا کے وفد اور نواب آف کالا باغ کے درمیان مذاکرات ہوئے اور ان کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے۔

64 ء میں صدارتی انتخابات ہوئے، انھوں نے ایوب خان کے خلاف ازسرنو تحریک شروع کی۔ اسی دوران معراج محمد خان کو گرفتار کرلیا گیا وہ جیل سے ووٹ ڈالنے آئے اور فاطمہ جناح کو ووٹ دیا۔ ایک گروہ نے یہ الزام عاید کردیا کہ انھوں نے چین نواز ہونے کی وجہ سے ایوب خان کو ووٹ دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد این ایس ایف دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس بابت کہتے ہیں ’’این ایس ایف میں چین نواز اور روس نواز تقسیم کے واضح اثرات تھے لیکن میں اس جھگڑے میں نہیں جاتا تھا۔ دراصل این ایس ایف کو ’’رن‘‘ کرنے والی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔

اس لیے یہاں بھی تقسیم عمل میں آئی اس واقعے کو تو جواز بنایاگیا، یہ فقط الزام تھا۔ حالانکہ میری گرفتاری سے قبل ایوب خان کے وزیر خزانہ کی جانب سے این ایس ایف کو یہ پیش کش کی گئی تھی کہ اگر ہم انتخابات میں غیرجانب دار رہیں تو ہمارے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں گے۔ لیکن میں نے صاف انکار کردیا۔ میرا بیان اخبارات میں بھی شایع ہوا۔ 66ء میں انھوں نے بھٹو صاحب کو این ایس ایف کے کنونشن میں مدعو کیا جس میں انھوں نے این ایس ایف کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور رشید حسن خان کو نیا صدر منتخب کیا گیا۔

کچھ عرصے خاموشی رہی پھر بھٹو صاحب ان کے گھر آئے، مشترکہ اور موثر جدوجہد کے لیے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نومبر 67ء میں وہ باقاعدہ پیپلزپارٹی کا حصہ بن گئے۔ معراج محمد خان کی جامع و مربوط پالیسیوں، ترقی پسند طلبا کے جذبے اور بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت کے طفیل پیپلزپارٹی منظم و مضبوط ہوتی گئی، انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ اس موقع پر معراج صاحب نے جاگیرداروں کو پیپلزپارٹی کا ٹکٹ دینے پر شدید احتجاج کیا، نتائج کے حوالے سے اندازے لگائے جارہے تھے۔ ان کے بہ قول ’’بھٹو صاحب کہتے تھے کہ ہمیں 37 سیٹیں ملیں گی، جب کہ میرا خیال تھا کہ پارٹی 60 سے زاید نشستیں حاصل کرے گی‘‘ ان کا تجزیہ درست ثابت ہوا۔ وہ ان کی زیست کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔

جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا معراج محمد خان نے اس کے خلاف اسٹینڈ لیا۔ اسی زمانے میں بھٹو صاحب نے معراج محمد خان کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ 71ء کے سانحے نے معراج صاحب کو سوگوار کردیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، پہلے مشیر مقرر ہوئے اور پھر وزیر برائے پبلک افیئرز بنائے گئے، نیپ کی حکومت کے خاتمے اور بلوچستان میں آپریشن کے بعد ان کے اور بھٹو صاحب کے اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ بالآخر اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے والے اس مجاہد نے72ء میں استعفیٰ دے دیا۔ وہ پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دینے والے پہلے رکن تھے جس پر بھٹو صاحب خاصے ناراض ہوئے۔ 73ء میں پیپلزپارٹی سے بھی الگ ہوگئے۔ کہتے ہیں ’’بھٹو صاحب بہت باصلاحیت آدمی تھے۔ انھوں نے کئی اصلاحات کیں، اسی وجہ سے مخالف قوتیں ان کے خلاف سرگرم ہوگئی تھیں۔ ہم ان سے کہا کرتے تھے آپ اپنے قریبی ساتھیوں سے کیوں لڑ رہے ہیں؟ اپنی اے ٹیم کو کیوں رد کررہے ہیں؟ بھٹو صاحب بڑے لیڈر تھے اور بڑے لیڈر کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔‘‘

74ء میں قومی محاذ آزادی کی بنیاد رکھی گئی۔ معراج صاحب اس کے صدر منتخب ہوئے، ایک ماہ بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ کہتے ہیں،’’بھٹو صاحب سب کے سامنے کہتے تھے اگر معراج مجھ سے الگ ہوگا تو میں اسے جیل میں رکھوںگا، آزاد نہیں چھوڑوںگا۔‘‘ انھیں ’’سندھ ٹریبونل‘‘ کی جانب سے چار سال کی سزا سنائی گئی۔ ان کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی قوتوں سے دوری کی وجہ سے 77ء کے انتخابات میں جمہوری سوچ رکھنے والی پارٹیوں کو مجبوراً ’’پاکستانی قومی محاذ‘‘ میں مذہبی جماعتوں کے ساتھ الحاق کرنا پڑا۔ ’’انھوں نے خود کو تنہا کرلیا تھا اور رائٹ ونگ گروپ میں پھنس گئے۔‘‘

مارشل لا نافذ کرنے کے بعد ضیا الحق نے انھیں جیل سے بلوایا۔ ’’جنرل ضیا نے مجھ سے کہا معراج محمد خان اب حساب چکادو! تم عوام میں جاؤ اور بھٹو کے خلاف بات کرو۔ میں نے جواب دیا جناب میں کرائے پر کام نہیں کرتا! بھٹو سے اختلاف ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں ملوںگا۔‘‘ ان کے مطابق ضیا الحق نے انھیں کراچی میں مہاجروں کی ایک جماعت قائم کرنے کے لیے کہا اور اس ضمن میں بھرپور سپورٹ کی یقین دہانی کروائی لیکن انھوں نے یہ پیش کش بھی رد کردی۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف برسر پیکار معراج محمد خان نے ’’ایم آر ڈی‘‘ کے پلیٹ فارم سے بحالی جمہوریت کے لیے آواز اٹھائی، میاں محمود علی قصوری کے گھر ہونے والی میٹنگ کے فوراً بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ ضیا دور میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کا ایم آر ڈی نے بائیکاٹ کیا۔ ان دنوں وہ نظر بند تھے اور نظریاتی بنیادوں پر اس بائیکاٹ کو درست خیال کرتے ہیں۔

88ء کے انتخابات میں وہ لانڈھی کی نشست سے لڑے۔ ’’مخالفین کہتے تھے یہ انقلابی ہیں، انتخابی نہیں! سو میں نے کہاکہ انتخابات میں حصہ لینا چاہیے، اس زمانے میں ایم کیو ایم ابھر کر سامنے آرہی تھی، میری جیت کا امکان نہیں تھا، فقط اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے میں نے حصہ لیا، لیکن الیکشن سے ایک روز قبل ریٹائر منٹ کا اعلان کردیا۔‘‘ بعد کے زمانے میں معراج صاحب کی جماعت کا ’’لیفٹ‘‘ کی دیگر سیاسی جماعتوں سے الحاق ہوا لیکن معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ بائیں بازو کی جماعتوں کے الحاق میں حائل رکاوٹوں کی بابت ان کا کہنا ہے، ’’یہ لینن اور ماؤ والا لیفٹ نہیں ہے۔ لیفٹ کی پارٹیوں کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ سال میں ایک کنونشن منعقد کیا جاتا ہے۔ کاسترو اور شاویز کے گن گائے جاتے ہیں خود کچھ نہیں کیا جاتا ایسے اتحاد کا کیا فائدہ جو کچھ نہ کرنے کے لیے تشکیل دیا جائے؟ حالات انقلاب کے لیے سازگار ہیں۔ تاہم مجھے مستقبل میں لیفٹ کی جماعتوں کے الحاق کا امکان نظر نہیں آتا۔‘‘

98ء میں ان کی جماعت کا عمران خان کی پارٹی ’’تحریک انصاف‘‘ سے الحاق ہوا۔ معراج صاحب سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تاہم 2003 میں تحریک انصاف سے الگ ہو
گئے۔ ’’ہماری سوچ میں بہت فرق ہے۔ ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم سے غلطی ہوگئی ہے، لہٰذا الگ ہوگئے، میں عمران کی ترقی کے لیے دعا گو ہوں۔ لیکن اگر ایک شخص اپنی ذات میں گم ہوجائے اور کائنات میں، عوام میں گم نہ ہو تو بات نہیں بنتی‘‘ جاگیردارانہ نظام کو ملک کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ اس کی موجودگی میں جمہوریت کبھی پھل پھول نہیں سکتی۔ مسائل تو بہت ہیں لیکن جاگیردارانہ نظام کے خاتمے سے کئی راہیں نکل آئیں گی۔ وہ ملک میں پائی جانے والی بے حسی پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ شکایت ہے کہ ہمارے ہاں انسانوں کی قدر نہیں کی جاتی۔ ’’خواہش ہے کہ نئی نسل اور اس ملک کے لیے پھر ایک لڑائی لڑوں!‘‘

وہ شہر سیاست کا اک شخص انوکھا سا

جابروں، قاہروں، ظالموں کے سامنے مجبوروں، مقہوروں، مظلوموں کی ترجمانی ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہے، یہ آوازۂ حق ان کا نصیبا ٹھہرتا ہے جو سر بلند رکھنا جانتے اور اس سر بلندی کی قیمت بھی دینا جانتے ہوں۔ وہ جری جو انسانیت کے دشمنوں اور غاصبوں کے سامنے انسانوں کے حقوق کی جنگ لڑنا جانتے ہوں۔ وہ جو در بہ در خاک بہ سر انسانوں کے پشتی بان بن کر میدان کارزار میں سرخ رو رہنا جانتے ہوں، وہ جو اپنی صلاحیتیں بس انسان کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کے لیے صرف کردیں، وہ جو میدان عمل میں رہیں اور ہر پل ان کا وظیفۂ جاں بس انسان انسان رہے۔ وہ جو انسانوں پر مسلط انسانی خداؤں کے منکر ہوں اور ایسے منکر جنہیں جرم انسانیت میں کال کوٹھریوں میں بند کیا جاتا ہو، ہر قسم کی تعدیب دی جاتی ہو، ان پر زندگی دشوار بنا دی جاتی ہو اور وہ سب کچھ انسانیت کے وقار اور ان کے حقوق کی خاطر مسکراتے ہوئے، کسی صلے و ستائش سے بے نیاز بس جھیلتے چلے جائیں۔ ایسے نابغۂ روزگار روز روز پیدا نہیں ہوتے، ایسے لوگ ہی انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو کہہ سکتے ہیں

ہوں جب سے آدم خاکی کے حق میں نغمہ سرا
میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

ہاں ایسے ہی ہوتے ہیں جن کی آنکھیں اپنے نہیں انسانوں کے خواب بنتی ہیں۔ ایسے ہی ہوتے ہیں وہ عظیم لوگ جن کی آنکھوں کے گوشے انسانوں کے دکھوں پُرنم ہوں۔ ہاں ایسے ہی حساس ہوتے ہیں وہ

میں شب کے دریچے پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
فٹ پاتھ پہ سوئے ہوئے، کس ماں کے جنے ہیں

ایسے جری جو صرف سوچتے ہی نہیں ان مظلومین کے حقوق کے لیے ظالموں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، ہاں ایسے ہی ہوتے ہیں وہ۔

ایسے ہی تھے معراج محمد خان
ایسے لوگ کہاں مرتے ہیں، کبھی نہیں مرتے وہ تو امر ہوجاتے ہیں

معراج محمد خان بھی سدا امر رہیں گے اور اپنی جدوجہد اور افکار کی روشنی میں ان تمام مظلومین کو روشنی فراہم کرتے رہیں گے جو اپنے حقوق کی جنگ میں جابروں، قاہروں اور ظالموں کے سامنے انسانیت کا نغمہ بلند کرتے ہوئے برسر پیکار ہوں۔

جابروں، قاہروں، ظالموں کے سامنے مجبوروں، مقہوروں، مظلوموں کی ترجمانی ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہے، یہ آوازۂ حق ان کا نصیبا ٹھہرتا ہے جو سر بلند رکھنا جانتے اور اس سر بلندی کی قیمت بھی دینا جانتے ہوں۔

ایسے ہی تھے معراج محمد خان
جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔