یہ آپ کا لکھا ہوا نہیں ہے

انیس منصوری  ہفتہ 30 جولائی 2016
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

دیوانوں کی طرح، اپنے ہاتھوں میں پتھر لے کر، آپ کی گلی کو تلاش کرتا، اگر مجھے تھوڑا سا بھی یہ گمان ہوتا کہ آپ کا گھر شیشہ کا ہے  لیکن لوہے سے بنے قلعے تک میری فریاد نہیں جا سکے گی۔  میں آپ کو اُن گلیوں تک لے جانا چاہتا ہوں جہاں کی مٹی آپ کے قدموں کو چومنا چاہتی ہے۔ میں اُن فضاؤں کا ذکر چھیڑنا چاہتا ہوں جن میں آپ کے ساتھ کروڑوں لوگوں کی سانس گھٹتی جا رہی ہے۔

یہ مٹی اور یہ ہوا، آپ کے فیصلوں کی منتظر ہے، مگر میں آپ کے ساتھ اُس سفر پر جانا چاہتا ہوں۔ جسے آپ نے پہلے کسی اور کی آنکھ سے دیکھا ہو گا۔ میں اُس منزل پرآپ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں جس کے لیے پہلے آپ کسی اور کے قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے اور اب آپ کے قدم سے لوگ قدم ملائیں گے۔

اب آپ کے پاس سندھ کا سب سے بڑا منصب ہے۔ آپ کو  وہ مقام مل چکا ہے، جس کے خواب آپ کے ساتھ چلنے والے دیکھتے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ آج کی تاریخ اور 16 اکتوبر 1993ء میں کیا فرق ہے۔ یہ وہ تاریخ تھی جب کئی لوگوں کے نام فہرست میں موجود تھے۔

یہ ہنگاموں کا دور نہیں، یہ 90ء کی سیاست نہیں، یہ اشتعال کا وقت نہیں، مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سینیٹ کے الیکشن ہو رہے تھے اورMQM  کے کچھ اراکین اسمبلی آپ کی جماعت میں شامل ہو چکے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ انھیں پارٹی بدلنے میں آپ کا یا آپ کے خاندان کا کوئی حصہ نہیں تھا، لیکن سینیٹ کے الیکشن کی تاریخ 2 مارچ 1994ء تھی۔ اُس دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک انتہائی شرمناک واقعہ پیش آیا تھا۔ MQM اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے ایک دوسرے پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ وہ صاحب آج بھی اسمبلی میں موجود ہیں جو اُس دن اپنے سیکیورٹی گارڈز کو اسلحے سمیت اسمبلی میں لائے تھے۔

گزشتہ آٹھ سال میں قائم علی شاہ بس ایک چہرہ بن کر رہے۔ یہاں کا بچہ بچہ جانتا  ہے کہ اُن کے پاس اختیارات کس حد تک تھے یا دیے گئے۔ انھوں نے بڑے بڑے معاملات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر جذبات پر قابو رکھا۔ انھیں کئی بار اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے وقت کے گزر جانے پر یقین رکھا۔ مجھے یاد ہے وہ رات کہ جو آپ کے خاندان پر بہت بھاری تھی۔ آپ کبھی بھی 23 نومبر  1995ء کو نہیں بھول سکتے ہیں۔

مجھے یاد نہیں ہے کہ اُس وقت آپ امریکا میں تھے یا کسی سرکاری محکمے میں تھے، لیکن وہ دن پاکستان پر بہت بھاری تھا۔ ہاں لیکن مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ جب آصف علی زرداری  اپنی حکومت قائم کر رہے تھے تو انھوں نے سب کو دوست بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور جب وہ MQM کے پاس گئے تو خاص طور پر آپ کو ساتھ لے کر گئے، تا کہ پرانے سارے شکوے ختم ہو سکیں۔ تو کیا سارے شکوے ختم ہو چکے ہیں؟

اگر میں کہیں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلایے گا، لیکن جہاں تک میری یاداشت کہتی ہے کہ جب آپ کے والد عبداللہ شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ تھے تو یہاں کے اکثر فیصلے اسلام آباد سے ہوتے تھے۔ جس پر کئی بار شکوہ بھی کیا گیا۔ اُس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان تھا۔ جو آج بھی بہت سارے لوگوں کی نظر میں ہے۔ اُس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت وفاق میں تھی۔ بہت ساری ڈیل اور بہت سی چالوں سے وہ بے خبر ہوتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے کبھی اس کا ذکرآپ سے کیا یا نہیں لیکن وہ اپنے دوستوں سے اس کا ذکرضرورکیا کرتے تھے۔

جو سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ تھا اُس میں وہ اکثر خود کو دور محسوس کرتے تھے۔ یہ ہی معاملہ کافی حد تک قائم علی شاہ کے ساتھ رہا، لیکن اب معاملہ کچھ اور ہے۔ امن و امان کے لیے یہاں کے اکثر فیصلے نہ تو سندھ حکومت کرتی ہے، نہ ہی پیپلزپارٹی کی قیادت اور نہ ہی وفاقی وزیرداخلہ۔ معاملہ فہمی کے ذریعے آپ کے والد اور پھر قائم علی شاہ نے صورتحال کو سنبھال کر رکھا۔ کیا آپ اختیارات کے لیے اپنے بازووں پر زور دیں گے یا پھرآپ کی سمجھ میں وہ فارمولا آ چکا ہے کہ کیسے کام کو بس چلاتے رہنا ہے۔

آج سے تین سال پہلے پیپلزپارٹی کی قیادت آپ کے لیے فیصلہ کر چکی تھی اور بہت حد تک ’چمچے‘ آپ کے گرد جال بنانے کی کوشش کر بھی چکے تھے۔ حساب کتاب اور اعداد سے کھیلنا اچھی بات ہے، لیکن سیاست کے اپنے اصول ہوتے ہیں  یا ہرچیزکی ایک قیمت ہوتی ہے۔ یہاں ہرمقام کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ یہاں گھڑی دیکھ کرآفس کھولنے کی بجائے موڈ دیکھ کر حکم جاری کرنے کا رواج ہے۔ یہاں ہر بڑے پتھر کے نیچے آہیں اور سسکیاں ہیں۔ کئی ’’جیالے‘‘ ان کو ہٹانے کی بجائے خود ایک بڑا پتھر بن کر بیٹھ گئے۔

یہاں سیاسی مصلحت کے نام پرکئی جگہ آنکھیں بندکر لی جاتی ہیں۔ کروڑ کروڑ کی کرپشن کو ایک ’’ہاں‘‘کے بدلے کرنے دیا جاتا ہے۔ آس پاس موجود سب لوگ کسی نا کسی کے چہیتے ہیں۔ اُن چہیتوں کے سینے پر بڑے بڑے سفینوں کو ڈوبو دینے کے اعزازات ہیں۔ کسی کو صاحب کے گھوڑے پالنے کا اعزاز حاصل ہے تو کسی کی شہرت ہی بستہ پکڑنے کی ہے۔ کوئی صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھول کر معتبر بنا بیٹھا ہے۔ تو کسی کو پلیٹ میں کھانا نکال کر دینے پر فخر ہے۔ میں جامشورو کے راستوں کو جانتا ہوں۔

یہاں کی مٹی بارشوں میں بہت سونی سونی خوشبو دیتی ہے۔ یہاں سے آپ دوبارجیت کر آئے اور یہیں سے آپ کے والد جیت کر وزیراعلی بنے تھے۔ یہاں اب تک لوگوں کو صاف پینے کا پانی نہیں ملتا۔ آپ کی آواز ہم سب نے سُنی تھی جب آپ ’’بڑے بھائی‘‘ سے پانی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ سائیں کے ساتھ آپ کئی میٹنگز میں ساتھ ساتھ تھے جب سارے صوبے کے وزراء اعلی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کو یاد ہے کہ جب آپ تین لوگ ہوتے تھے۔ آپ اعداد و  شمار اور قانون سے صوبے کا مقدمہ لڑتے تھے۔ آپ کے ساتھ گئے ہوئے ایک صاحب کا کام یہ تھا کہ زور زور سے بولنا ہے اور پھر سائیں قائم علی شاہ معاملہ فہمی کا مظاہر ہ کرتے تھے۔

کتنا اسکرپٹ پر چل کر یہ سارا کام ہوتا تھا، جیسے ابھی ہوا ہے۔ اس کھیل کا اسکرپٹ بڑی ہی مہارت سے لکھا گیا ہے۔ مجھے آپ کو یہ بتانے کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ اسکرپٹ آپ کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ پہلے کی طرح آپ کو اس میں اپنا کردارادا کرنا ہے، اُن میٹنگز میں تین لوگ ہوتے تھے۔ یہاں بھی تین ہیں۔ ایک اپنے اختیارات کو آنیوالی نسل کو منتقل کر رہا ہے۔ دوسرا اب خود کو بااختیار سمجھنے لگا ہے اور تیسرا اپنی جگہ کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ قائم علی شاہ سے کوئی اختلا ف نہیں تھا، مگر فیصلہ وقت پرکرنا تھا۔

میڈیا نے لاکھ شورکیا لیکن کھیل کے اسکرپٹ میں وقت آنے پر تبدیلی کرنی تھی، اب بڑے بڑے فیصلے ہونیوالے ہیں۔ اس کھیل میں ایک وفادار ساتھی کی ضرورت تھی۔ کئی سالوں کی  آزمائش کے بعد وہ مل چکا ہے۔ اس لیے اُسی منصب پر صرف نام بدلا گیا ہے۔ اب اقتدار اور اختیار کا اصل گیم شروع ہونے والا ہے۔ پارٹی کے تین ستونوں کے درمیان۔ پارٹی کے ستونوں اور وزیراعلیٰ کے درمیان اور سب سے بڑھ کر ستونوں اور مقتدرہ اداروں کے درمیان۔ اس دوطرفہ کھیل میں دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کا اسکرپٹ ہِٹ ہوتا ہے یا اُن کا جو، اقتدار سے زیادہ اختیارات پر یقین ر کھنے لگے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔