نیاسوٹ پہن کر جانا ہے

انیس منصوری  بدھ 3 اگست 2016
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

لگتا ہے تازہ محبتوں کا نشہ ان کے جسم وجاں میں ہے، مگرمجھے ان کے جسم خاک میں لتھڑے ہوئے اورخون میں نہلائے ہوئے لگتے ہیں۔ یہ پھر امید کی بانسری بجا کر ہمیں بتا رہے ہیں کہ اب کی بار کلنٹن خاندان کی عورت آ گئی تو ہمارے سارے عذاب ختم ہو جائیں گے۔ اس بار ہمیں کچھ لوگ یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ  اس بار امریکا کا الیکشن سب پر بھاری ہے۔

ایک نئی تاریخ رقم ہونے والی ہے، ایک عورت امریکا کی صدر بننے والی ہے، دنیا تبدیل ہو جائے گی۔ بھائی! میںاپنے ملک میں خاتون وزیراعظم دیکھ چکا ہوں، میرے لیے اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے، لیکن یاد نہیں یہ ہی لوگ تھے جو ہاتھوں میں چراغ لے کر نکلے تھے اور کہتے تھے کہ اوباما ایک سیاہ فام ہے۔ دیکھنا، تم سب دیکھنا، دنیا بدلنے والی ہے۔ عراق کی جنگ ختم ہو جائے گی، افغانستان میں امن ہو جائے گا۔ اس کے نام کے ساتھ ایک مسلمان کا لفظ لگا ہوا ہے۔ تم سب دیکھ لینا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں امن ہو جائے گا۔ دنیا میں ہر جگہ امن کی بانسری بجنے لگے گی۔ ابھی تو اُس نے کرسی سنبھالی ہی تھی اور اُسے امن کا سرٹیفکیٹ دے دیا گیا تھا، تو کیا ہوا امن بحال ہو گیا۔ سب اچھا ہو گیا، دوسروں کے کاندھوں پر اپنا بوجھ لاد کر کبھی  امن نہیں ہوا۔ یہ اُس وقت ہوا جب ہم نے اپنے بوجھ پرخود ضرب عضب لگائی۔

یہ پھر اپنے پیروں کو باندھ کر معجزوں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایک عورت اگر امریکا میں آئے گی، تو اپنے دوستوں کا بھی خیال رکھے گی۔ عورت کے مزاج میں سب کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور وہ اپنے قریبی دوست کو تو کبھی نہیں بھولے گی۔ جس نے ان کے لیے پہلے فساد اپنے گلے میں لیا اور بعد میں اُسے اکیلا چھوڑ دیا ۔ پھر ضرورت پڑی تو ساتھ لیا اور اب پھر کام نکل گیا تو چھوڑ کرچلے گئے۔ یہ عورت ہے، یہ ایسا نہیں کرے گی۔ جان ایف کینیڈی امریکا کے صدر تھے، یہاں ہر ایک کینیڈی کو شروع میں رشک سے دیکھتا تھا۔ واہ! واہ! کیا آدمی ہے، ہمیں چاند پر پہنچا د ے گا۔ ہمیں چاند پر اُس نے پہنچایا تو نہیں لیکن ہمارے یہاں چاند پر جانے کا سارا سامان لے کرآ گیا۔

یہاں امریکی فوجی اڈوں کی بنیادیں ڈل گئیں۔ تھوڑے دنوں میں یہ گلیمرس اور دلکش آدمی ہمیں برا لگنے لگ گیا۔ اب میں کہوں گا تو شاید آپ کو اچھا نہیں لگے لیکن ایوب خان کی کتاب میں پڑھ لیجیے گا اور پھر ایک واقعے کے بعد ہماری امیدیں اور بڑھ گئیں اور پھر انھوں نے خوشیوں کے ڈھول بجائے کہ اب ’’بی جانسن‘‘ کے بعد تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ہم نے سب سنبھال لیا ہے اور آج تک رو رہے ہیں کہ 65 کی جنگ میں ہم نے کیوں اُس کی بات مان لی۔ وہ لوگ تو نہیں بدلے۔ لیکن ہم نے اُن سے امید کے بندھن نہیں چھوڑے۔ انھیں اُس وقت کینیڈی کا گلیمر جمہوریت کی نشانی اور چاند پر قدم رکھنا اپنی تکمیل لگ رہی تھی اور اس تماشے کے بعد جب ہماری آنکھ کھلی تو سامنے ان کا اڈا تھا۔ اب میں اُن کے تماشے میں کیوں حصہ بنوں۔ ان کے یہاں گلیمرکا بادشاہ آیا، سیاہ فام آئے یا خاتون آئے۔ ہمارے لیے تو خنجرکی ایک ہی نوک ہوتی ہے۔ آخر اتنی بھی سمجھ بوجھ میرے باغباں میں نہیں ہے، ہمیں کیوں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔

مسند کے اتنے پاس نہیں جانا چاہیے کہ پھر بے تعلقی ظاہر ہو جائے۔ ہاں جی میں مان لیتا ہوں کہ ٹرمپ بہت برا آدمی ہے۔ اُسے کسی کا احساس نہیں ہے۔ اُس کی اتنی بڑی جماعت پوری کی پوری پاگل ہو چکی ہے جو ٹرمپ کو میدان میں لے رہی ہے۔ کیا  جسے ہم سب  سپر پاورکہتے  ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔ جس کے ویزے سے لے کر ائیر پورٹ تک اپنی تذلیل کو فخر سمجھتے ہیں۔ اُس جگہ کی ایسی جماعت جو کہ اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ جہاں ایک ٹرمپ کو جواب دینے کے لیے پوری ڈیموکریٹک پارٹی لگی ہو۔ کیا اُن کی جماعت کو نہیں معلوم کہ وہ کیاکر رہے ہیں؟ ہم تو مودی پر بھی ایسے ہی باتیں کر رہے تھے  اور پھرکیا ہوا؟ وہ ہمارے گھر میں آیا، شادی میں شرکت کی اور چلا گیا۔ ہم سب منہ دیکھتے رہ گئے۔

اب ٹرمپ آ گیا توکیا ہم امریکا سے سارے تعلقات ختم کر لیں گے؟ اور مجھے یہ بتائیں کہ اُس کے آنے سے کیا بدلے گا۔ ایوب خان کے جاتے جاتے نکسن آ چکا تھا۔ مان لیجیے ہمارا احسان کے ہم نے چین سے ہاتھ ملاوانے کی کوشش کی لیکن کیا ہوا؟ وہ ہی نکسن پاکستان کے دولخت ہونے پر تماشائی بنا رہا۔ ایک جگہ وہ ہمارے ساتھ تھا تو دوسری جگہ وہ ہمارے مخالف تھا  اور پھر کیا اُسی بھٹو دور میں جب نکسن گیا اور صدر فورڈ بنا تو پاکستان کے نامزد وزیر اعظم کو دی گئی دھمکی میں کوئی تبدیلی ہوئی۔ ایک سے دوسرا بدل گیا لیکن جو دھمکی نکسن دور میں دی گئی تھی اُس کی تکمیل فورڈ کے دور میں نہیں ہوئی۔ تو مجھے بتاؤ کہ میں کیسے مان لوںکہ امریکا کی صدر ایک عورت آتی ہے یا پھر کوئی ٹرمپ جیسا منہ پھٹ کیا، میرے ہاتھوں کی لکیر میں یہ مزید بگاڑ پیدا نہیں کریںگے  اور میں خود کو بدلنے کی بجائے ان کے ہاتھوں کو چومتا ہی رہوں گا۔

یہ اپنے ہاتھوں سے چراغوں میں روشنی کرنے کی بجائے اندھیرے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمیں خود کو کیسے مضبوط کرنا ہے یا پھر ہمیں  وہ ہی دہرانا ہے جو ہم اس سے پہلے کرتے ہوئے آئے ہیں۔ جو بھی چڑھتا ہوا سورج ہو اُس کے ساتھ اپنے دن اور رات کے اوقات طے کر لیے جائیں، لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہمارے لیے شاید ان کے رویے ایسے ہی رہے ہیں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کلنٹن آئے یا پھر ٹرمپ۔ مجھے یہ سوچنا اور سمجھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ میں مان لیتا ہوں کہ  بھٹو دور حکومت میں نکسن اور فورڈ، دونوں کا تعلق ایک ہی جماعت سے تھا، مگر یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں کہ ایک ہی جماعت کے دور میں اچھے اور برے تعلقات کی انتہا دیکھی۔ آج بھی جیالے یہ کہتے ہیں کہ کینسجر کی دھمکی نے ہی آمریت کو ویلکم کیا تھا، لیکن بھٹوکا دور ختم ہوتے ہی امریکا میں ری پبلکن  کی جگہ ڈیموکریٹ آ گئے۔

کیا فرق پڑا جمی کارٹر کے آنے سے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہیلری سے فرق پڑے گا، سب ویسا ہی رہا۔جو فورڈ چھوڑ گئے تھے اُسے آگے بڑھاتے ہوئے  ہمارے لیے خون کا راگ کارٹر نے ہی چھیڑا تھا۔ ایک نے جمہوریت کو الوداع کرایا تو دوسرے نے ہمیں کئی دہائیوں کا خون دیا۔ ہمارے تو سارے خواب ہر بار نئے رومال میں لپیٹ کر ہمیں دے دیے گئے۔ ہم ہر نئے آنے والے کو پہلے کاندھوں پر بٹھاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں یہ ہمارا مسیحا ہو گا۔ جمی کارٹر کے دور میں ہمارے یہاں آمریت کی جڑیں مضبوط تھیں اور وہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر اس خطے میں خونی سرد جنگ کھیل رہے تھے اور ہم خوش خوش امریکا بہادرکے نعرے لگا رہے تھے اور جب یہاں ریفرنڈم چل رہا تھا۔ جس پر جالبؔ  اندھیرے کو ضیاء لکھ رہے تھے۔ تو امریکا میں ڈیموکریٹ کے کارٹر ہٹ کر پھر ریپبلک کے ریگن آ گئے توکیا بدل گیا؟ کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی؟ ہمارے یہاں خوشحالی کے چراغ جل گئے؟ ہمارے یہاں کا بچہ بچہ تعلیم سے مالامال ہو گیا۔ ہمارے یہاں کوئی بھی دوا کے لیے نہیں ترستا؟ مجھے بتائیں ایک ہی شخص  کے دور میں اس ملک نے امریکا میں دونوں جماعتوں کے گدھے اور ہاتھی کو دیکھ لیا۔

یہ ایک سیاسی نعرہ دیتے ہیں، کوئی ہمیں اچھا لگتا ہے اور کچھ نعرے ہمیں انتہائی برا  لگتے ہیں۔ نعروں کے پیچھے چہرے لگائے جاتے ہیں کبھی ہمیں کوئی سیاہ فام کے نام پر دیا جاتا ہے اور کبھی عورت کے نام پر۔ تو کیا اُس کی کامیابی کے بعد ہمارے نخرے بڑھ جاتے ہیں یا پھر ہم اُس سے قطع تعلق کر کے بھاگ جاتے ہیں۔

شادی برطانیہ کے شہزادے کی ہوتی ہے اور تیار ہونے ہم بیوٹی پارلر میں چلے جاتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ امریکا ایک طاقت ہے۔ اُس کے یہاں کا الیکشن یقینا بہت بڑا ہو گا۔ اب میں اُن کے گُن گانے لگوں یا یہ سوچوں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میرے گھر میں کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے اور ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ امریکا میں کلنٹن کی تقریب میں پاکستان کو چھوڑ کر امریکا کو گھر بنانے والوں نے کیا کیا۔

اپنے آنگن میں سایہ آتا ہو یا نہیں لیکن پانچ ہزار کلومیٹر دور سورج کے ڈھلنے کا انتظارہو گا۔ پہلے دن سے لے کر آج تک ان کی سوچ اور طریقے میں کوئی بھی فرق نہیں آیا ہے۔ وہاں کوئی بھی کامیاب ہو ان کی اپنی پالیسی ہے۔ ہمیں خود کو خارجہ اور داخلہ پر مضبوط کرنا ہے یا پھر بس ٹی وی پرکلنٹن کی واہ واہ اور ٹرمپ کو جا جا کہہ کر دل بہلا لینا ہے اور پھر جوجیت کر آئے اُس کی تقریب میں نیا سوٹ پہن کر چلاجانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔