ہمارے رہنما قدرت کا تحفہ

عثمان جامعی  جمعـء 5 اگست 2016
ہمارے حکمراں اپنی گزرگاہ کو عوام کے لیے صرف اِس لیے بند کردیتے ییں کہ کہیں عام لوگوں کی جراثیم بھری سانسیں انہیں چھو نہ لیں، اور وہ بیماری کی وجہ سے عوام کی خدمت سے محروم نہ ہوجائیں۔ فوٹو: فائل

ہمارے حکمراں اپنی گزرگاہ کو عوام کے لیے صرف اِس لیے بند کردیتے ییں کہ کہیں عام لوگوں کی جراثیم بھری سانسیں انہیں چھو نہ لیں، اور وہ بیماری کی وجہ سے عوام کی خدمت سے محروم نہ ہوجائیں۔ فوٹو: فائل

گئے دنوں کی بات ہے پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہوا کرتا تھا۔ اس دور میں اور بھی بہت کچھ ہوا کرتا تھا، جیسے مشرقی پاکستان۔ لیکن اب یہ خطہ پاکستان کے جغرافیے سے باہر ہے اس لیے ہمارے موضوع سے بھی باہر ہے۔ تو بات ہورہی تھی کراچی کی۔ کراچی کو قائداعظم نے اس نئی مملکت کا دارالحکومت بنایا تھا، واضح رہے کہ یہ وہی قائداعظم ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا تھا، حالاںکہ وہ مکمل طور پر ایک سویلین تھے، پھر بھی ناجانے کیسے انہوں یہ بنالیا، اس پر بھی تحقیق ہونی چاہیے۔ بہرحال، جب قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان معروف تاریخی حقائق المعرف بہ ”اپنوں کی غداری، غیروں کی مکاری، دشمن کی عیاری، اور اس سب کے نتیجے میں ہمارے دفاع کی لاچاری“ کے باعث الگ ہوکر بنگلادیش بنا، اس سے بہت پہلے دارالحکومت کراچی سے پرواز کرکے پوٹھوہار کے پہاڑوں پر جابسا تھا۔ انتقال دارالحکومت کے لیے بیان کی گئی سرکاری وجوہات میں سے ایک اہم وجہ کراچی کا خراب موسم بتائی گئی تھی۔ ظاہر ہے خراب موسم کی وجہ سے حکمرانوں کا پیٹ خراب ہوجاتا تو وہ کھاتے کیسے؟ ویسے بھی حکمرانوں اور رہنماوں کا کام ”عوام پر“ رہنا ہے ”عوام میں“ رہنا ہرگز نہیں۔ سو اہل اقتدار کے لیے بہت بلندی پر شہر بسادیا گیا۔ بہت اچھا کیا۔ اس طرح حکمراں عوام سمیت تمام مہلک اور موذی بیماریوں سے محفوظ ہوگئے۔

جس طرح ہمارا ملک قدرت کی عطا ہے، اور اِسی نسبت سے اسے پیار سے مملکت خداداد کہا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے حکمراں اور رہنما بھی قدرت کا تحفہ ہیں، جنہیں بچا بچا کر اور سنبھال سنبھال کر رکھنا چاہیے۔ یوں سمجھیں کہ جس طرح ہمارے وطن کی زمین نے پیڑ پودوں، فصلوں، تیل، گیس اور معدنیات کی نعمتیں اگلی ہیں، اسی طرح ہمارے وطن کے اوپر پھیلے آسمان نے ان حکمرانوں اور رہنماوں کو خاص ہمارے لیے نازل کیا ہے۔ لیکن ہم ناخواندہ اور نیم خواندہ عوام کو اتنی سمجھ کہاں کہ قدرت کی اس دین کی قدر کریں، لہٰذا ان خودآشنا خواتین وحضرات کو اپنی قدر کی ذمے داری خود نبھانی پڑتی ہے اور خود کو عوام کے لیے عوام سے بچائے رکھنا پڑتا ہے۔ دراصل یہ لوگ ہمارے مسیحا ہی نہیں خودکار دوائیں بھی ہیں، جنھیں پتا ہے کہ مریض کے حلق میں کس وقت کتنے قطرے انڈیلنا ہیں، سو یہ عوام کو بچہ سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں اور رہنماوں کا طریق خدمت خالصتاً پرانے دور کی محبت پر مبنی ہے، جب محبوب کا چہرہ چاند میں دیکھ کر گزارہ کرلیا جاتا تھا، یہ مان کر آنکھیں سینک لی جاتی تھیں کہ کھڑکی کھلی ہے تو اس پر لہراتی شے پردہ یا محبوب کی والدہ کا دوپٹا نہیں بلکہ محبوب کی زلفیں ہی ہیں۔ اس دور میں اگر معشوق کہیں نظر آجائے تو اسے دیکھنے سے بھی اجتناب کیا جاتا تھا۔ اسی چلن پر گامزن ہمارے اہل سیاست کا فلسفہ ہے کہ پاس جانا نہیں بس دور سے دیکھا کرنا۔ چناںچہ وہ عوام سے دور برطانیہ، دبئی، امریکا اور کینیڈا میں رہ کر ہم پاکستانیوں کی خدمت اور ہماری دیکھ بھال کرتے ہیں۔

جب کراچی سے دارالحکومت منتقل کیا گیا تو اس وقت تک سائنس اور سیاست دانوں نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی، بعد میں انکشاف ہوا کہ کراچی ہی نہیں پورے ملک کا موسم ہی اس آسمانی مخلوق کے لیے ناموزوں ہیں۔ اب یہاں رہ کر بیماری جھیلنے اور عوام کو اپنی خدمات سے محروم کردینے سے بہتر ہے کہ کسی دور دیس کے اچھے موسم میں رہ کر دور سے پاکستانیوں کے مسائل حل کیے جائیں۔

یہ لوگ اپنے ملک میں ہوتے بھی ہیں تو عوام سے دور رہ کر اپنی وسیع وعریض رہائش گاہوں میں بیٹھے دن رات عوام کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں۔ کبھی اپنے وسیع وعریض لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے عوام کے لیے آہیں بھرتے ہیں تو کبھی اپنے کمروں میں بیٹھے بیٹھے عوام کے خیال میں گم ہوجاتے ہیں، یہ ان کا عشق اور ”عمل“ ہی ہے جس نے عوام کو مونث کر ڈالا، ورنہ یہ لفظ مذکر ہے۔

یہ درجنوں گاڑیوں کے لاو لشکر کے ساتھ جب سڑکوں پر سے لگ بھگ اُڑتے ہوئے گزرتے ہیں تو ان کی گزرگاہ کو عوام کے لیے بند کردیا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ کہیں عام لوگوں کی جراثیم بھری سانسیں انہیں چھو نہ لیں، اگر ایسا ہوا تو یہ بیمار ہوجائیں گے اور عوام کی خدمت نہیں کرپائیں گے۔ ان بے چاروں کی اس مجبوری پر خواہ مخواہ تنقید کی جاتی ہے۔ ہم جیسے کچھ ہی دانشمند ان کی یہ مجبوری سمجھتے ہیں، جسے دیکھتے ہوئے ہمیں ایک اشتہار کا جملہ یاد آجاتا ہے مچھر آپ سے دور رہنے پر مجبور اور ان مجبوری پر ہماری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

اچھے ماں باپ اپنی اولاد کو رزق حال ہی کھلانا چاہتے ہیں۔ ہمارے حکمراں اور رہنما بھی خود کو عوام کا ماں باپ ہی سمجھتے ہیں اور پورے خلوص کے ساتھ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد رزق حلال پر پلے، حرام کا ایک لقمہ بھی اس کے منہ میں نہ جائے، یہی وجہ ہے کہ یہ جتنا ممکن ہو ٹیکس دینے سے گریز کرتے ہیں اور اپنی کمائی سوئٹزرلینڈ اور پانامہ میں ٹھکانے لگا کر عوام کو اس سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے، یہ جانتے ہیں کہ اگر ہمارا سرمایہ پاکستان کے بینکوں میں جمع ہوگیا تو بینکوں میں عوام کی جمع پونجی رکھنے کے لیے جگہ ہی نہیں بچے گی، اس لیے کشٹ اٹھا کر دور دیسوں میں جاتے اور اپنا مال وہاں جمع کر آتے ہیں۔

یہی معاملہ علاج کا ہے۔ عوام کے لیے خلوص اور محبت سے حلق تک بھرے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے پاکستان کے کسی اسپتال کا ایک بیڈ بھی گھرے یا کسی ڈاکٹر کا ایک لمحہ بھی ان پر صرف ہو، لہٰذا چھینک بھی آتی ہے تو ان کی سواری بیرون ملک پرواز کرجاتی ہے۔

اپنے عوام کے ایسے سچے عاشق سیاستداں کس قوم کو میسر ہیں، یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔ مگر ہم اس نعمت کی ذرا قدر نہیں کرتے، اور انہیں عوام سے دور رہنے کے طعنے دیتے رہتے ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے، کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں، رہنماوں اور سیاست دانوں سے دست بستہ عرض کریں گے کہ جس زمین کی آب و ہوا آپ کو راس نہیں وہاں آپ کا ایک پل رہنا بھی ٹھیک نہیں، مل جل کے آئین میں ترمیم کیجیے، وفاقی دارالحکومت اور سارے صوبائی صدر مقام لندن، دبئی اور نیویارک منتقل کردیجیے اور آپ سب وہاں مستقل بس جائیے، ٹیلی فون اور واٹس اپ کے ذریعے حکمرانی چلائیے، رہنمائی کیجیے، بھاشن دیجیے یقین مانیے اس طرح آپ کی سیاست اور حکمرانی کا ذرا سا بھی نقصان نہیں ہوگا۔

حکمرانوں کے حوالے سے بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔