ضمنی الیکشن کے نتائج آئندہ انتخابات پر اثر انداز ہوں گے؟

خالد قیوم  منگل 11 دسمبر 2012
ضمنی الیکشن کے نتائج کے مطابق ن لیگ چھا گئی ہے اور عام خیال یہ ہے کہ ن لیگ نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ فوٹو: فائل

ضمنی الیکشن کے نتائج کے مطابق ن لیگ چھا گئی ہے اور عام خیال یہ ہے کہ ن لیگ نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں سیاسی سرگرمیاںبڑھ رہی ہیںاور اس کے ساتھ ساتھ افواہوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

ماضی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ان سے پہلے انتخابات نہ ہونے کی ایسی افواہیں ہمیشہ زوروں پر رہیں تاہم آخر کار الیکشن ہوگئے۔ اب بھی اگر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تحت نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کے معاملے کو طول نہ دیا گیا تو پھر انتخابات کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔ وسطی پنجاب میں دوہری شہریت سے خالی ہونے والی آٹھ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہو اہے۔کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ ضمنی الیکشن بھی نہیں ہوں گے کیونکہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کررہی ہیں اور عام انتخابات بہت نزدیک ہیں، اس کے باوجود ضمنی الیکشن ہوگئے۔

اس ضمنی الیکشن کے نتائج کے مطابق ن لیگ چھا گئی ہے اور عام خیال یہ ہے کہ ن لیگ نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ان نتائج کی بنیاد پر مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے آئندہ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت کا دعویٰ کیا ہے ۔ اگر بیک گراؤنڈ دیکھا جائے تو جن نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں، 2008ء میں ان پرتقریباً ن لیگ ہی کامیاب ہوئی تھی اس طرح ن لیگ نے اپنی نشستیں واپس لی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ضمنی الیکشن اگلے عام انتخابات کے نتائج طے کرسکتے ہیں؟ اور ان کے عام انتخابات پر کیا اثرات ہوں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن کے نتائج کو مقاصد کے حصول کیلئے سیاسی رنگ تو دیا جاسکتا ہے لیکن یہ آئندہ انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔

الیکشن جیتنے اور ہارنے والی ساری سیاسی جماعتیں حکومت میں شامل ہیں اور سیاسی جماعتوں نے سرکاری وسائل سے انتخابی مہم بھی چلائی ، صوبائی حکومت ضمنی الیکشن میں کچھ زیادہ اثرانداز ہوئی۔ ضلعی انتظامیہ ، تھانیدار، تحصیلدار ، پٹواری اوردوسرے سرکاری ملازمین بھی پس منظر میں انتخابی مہم چلارہے تھے۔ یہ فائدہ آئندہ الیکشن میں حاصل نہیں ہوگا۔ الیکشن پولنگ کی حد تک ٹھیک تھا مگر سٹیج کے پیچھے بھر پور سرکاری مداخلت تھی ۔ مسلم لیگ(ن) نارووال میں مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر طاہر علی جاوید کی خالی نشست ہار گئی اور اور ان کے امیدوار ڈاکٹر نعمت علی تیسرے نمبر پر آئے۔

اس طرح لوگوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو پسند نہیں کیا ۔ 2002ء کے الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کے پاس لاہور میں 14نشستیں تھیں مگر سارے ضمنی الیکشن ق لیگ جیت گئی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن )کی لیڈر شپ نے الزام لگایا کہ ق لیگ کی صوبائی حکومت ضمنی الیکشن پر اثر انداز ہوئی ہے اور دھاندلی سے ضمنی الیکشن جیتے گئے ہیں، اگلے عام انتخابات میں (ن) لیگ ہی جیتے گی ۔ 2008ء کے الیکشن میں ن لیگ کی یہ دلیل درست ثابت ہوئی۔ شاید یہ مشکل ہے کہ کسی بھی ضمنی الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر عام انتخابات پر تجزیہ کیا جائے البتہ ان انتخابات نے پیپلزپارٹی کی تنظیمی خرابیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات راجہ عامر خان سیالکوٹ شہر کے حلقہ پی پی 122سے ضمنی الیکشن لڑرہے تھے۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی اور صوبائی تنظیم کا کوئی عہدیدار ان کے الیکشن میںنہیں گیا اور کسی پارٹی لیڈر نے انہیں فون تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ راجہ عامرخان نے سرکاری مداخلت کے خلاف دوپہر کو ہی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا اس کے باجود وہ بھی پانچ ہزار ووٹ لے گئے جبکہ مسلم لیگ(ن) کے جیتنے والے امیدوار نے فری ہینڈ کے باوجود 27 ہزار ووٹ حاصل کئے ۔ اگر پیپلزپارٹی اپنے امیدوار کے ساتھ تعاون کرتی تو وہ اچھا مقابلہ کر سکتے تھے۔

دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کے اہم رہنماء خواجہ محمد آصف مسلسل الیکشن میں موجود رہے۔ حمزہ شہباز نے ضمنی الیکشن میں اپنے امیدواروں کیلئے جلسے کئے اور سرکاری سطح پر مداخلت کی شکایات بھی آئیں۔ نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی نے بھی مسلم لیگ(ق) کے امیدواروں سے بھرپور رابطہ رکھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلزپارٹی آئندہ بھی اسی طرح الیکشن لڑے گی۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار خود ہی اپنے حلقہ کے ذمہ دار ہوں گے یا پارٹی تنظیم بھی کچھ ہاتھ بٹائے گی۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو چاہئے کہ وہ شمالی پنجاب پر توجہ دیں اور دیکھیں کہ شمالی پنجاب کے معاملات کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف زرداری باربار کہہ چکے ہیں کہ وہ پنجاب میں آئندہ الیکشن جیتنا چاہتے ہیں اور اپنا وزیراعلیٰ بھی لانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف شمالی پنجاب ، میاں منظور احمد وٹو سنٹرل پنجاب اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ساؤتھ پنجاب میں محنت کریں گے تو نتائج کچھ بہتر آئیں گے ورنہ صدر زرداری کا پنجاب میں حکومت بنانے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ اب الیکشن کمیشن کو آزاد خود مختار کہا جاتا ہے لیکن پنجاب کے کئی حلقوں میں کھلم کھلا اسلحہ کی نمائش ہوئی ، ہوائی فائرنگ بھی ہوئی لیکن تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

سیالکوٹ شہر میں پولیس اور سرکاری مشینری کے استعمال کے علاوہ صوبائی الیکشن کمیشن پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے سنگین الزامات لگائے اور پولنگ کا بائیکاٹ بھی کیا، لیکن اس بارے میں تاحال الیکشن کمیشن نے کوئی ایکشن نہیں لیا جو آزاد الیکشن کمیشن کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔ الیکشن کمیشن کو ضابط اخلاق کی خلاف ورزی کا سخت نوٹس لینا چاہیے اور آئندہ عام انتخابات آزادانہ ماحول میں منصفانہ بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔