جان ہسٹن

عارف عزیز  اتوار 9 اکتوبر 2016
ہالی وڈ کے باکمال ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر کی کہانی۔ فوٹو: فائل

ہالی وڈ کے باکمال ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر کی کہانی۔ فوٹو: فائل

مئے نوشی، رقص و سرور کی محفلیں اور جوئے کا شوق ایسا تھا کہ جان ہسٹن کی اکثر شامیں شور شرابا اور ہلڑ بازی کرتے گزر جاتیں۔ وہ اور اُس کے دوست نصف شب اپنے گھر کی راہ لیتے۔ آنکھ کُھلتی تو اگلے دن کا سورج ڈوبنے کو ہوتا، جان ہسٹن ایک مرتبہ پھر گھر سے نکلنے کی تیاری شروع کردیتا۔ یہ اس نوجوان کی زندگی کا ایک رُخ ہے۔

دوسری طرف یہی جان ہسٹن گُھڑ سواری کا ماہر، باکسنگ کا کھلاڑی اور فائن آرٹ کا شوقین تھا۔ فنون لطیفہ میں دل چسپی پیدا ہوئی تو انگریزی اور فرانسیسی ادب پڑھا۔ مطالعے نے فکر کو پختگی اور خیال کو وسعت دی۔ بعد میں مختلف موضوعات پر قلم بھی اٹھایا۔

فیچر رائٹنگ اور کہانیاں لکھنے سے ابتدا کی اور پھر اس کا نام منفرد اور باکمال فلم ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ہالی وڈ میں گونجنے لگا۔ ابتدائی برسوں میں جان ہسٹن کو آوارہ، عیاش اور لالچی تک کہا گیا، لیکن پھر فلم نگری کو اُس کے کمال کا اعتراف کرنا پڑا۔ فلمی دنیا میں 46 برس کے طویل سفر میں متعدد اعزازات اپنے نام کیے، اور خوب شہرت حاصل کی۔

جان ہسٹن کی زندگی کے ابتدائی برسوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ والدین کے مابین علیحدگی کا فیصلہ چھے برس کی عمر میں اُن کے بورڈنگ ہاؤس میں داخلے کا سبب بنا۔ انہی دنوں دل اور گردے کی مختلف طبی پیچیدگیوں اور امراض کا سامنا کیا۔ جان ہسٹن موسمی تعطیلات کے چند روز اپنی ماں کے ساتھ گزارتے۔ پھر والد کے گھر چلے جاتے۔ واپسی پر ماں کا پیار بھرا لمس اور باپ کا شفقت بھرا انداز یاد آتا، تب بورڈنگ ہاؤس میں شب و روز کا کھردرا پن مزید بڑھ جاتا۔ یہاں داخلے کا فارم بھرا گیا تو والد، والٹر تھامس ہسٹن نے اپنے بیٹے کا مکمل نام جان مارسیلیس ہسٹن درج کیا۔

پیدائش کا خانہ بتاتا تھا کہ جان ہسٹن نے 5 اگست 1906 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ماں کا نام Rhea Gore ہے اور جان ہسٹن اس جوڑے کی اکلوتی اولاد ہے۔ والٹر ہسٹن کا تعلق کینیڈا سے ہے، جو ہجرت کے بعد امریکی ریاست میسوری میں سکونت پزیر ہیں اور اسٹیج اداکار ہیں۔ والدہ امریکی شہریت رکھتی ہیں اور اسپورٹس رپورٹر ہیں۔

والٹر ہسٹن نے انجینئرنگ کی تعلیم تو مکمل کی تھی، مگر اس میدان میں ملازمت اختیار کرنے سے قبل ان کا روزگار ’’ناٹک‘‘ سے جُڑا ہوا تھا۔ بعد میں انہوں نے سول انجینئر کی حیثیت سے ملازمت کی، لیکن دوبارہ اداکاری کی طرف آگئے، Broadway theatre سے ناتا جوڑا تو تھیٹر پر پرفارم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ہالی وڈ کے بہترین اداکار اور گلوکار کے طور پر پہچان بنی۔

جان ہسٹن کی والدہ بھی اسپورٹس سے متعلق مختلف جرائد میں اپنی تحاریر کی وجہ سے پہچانی جاتی تھیں۔ یوں دیکھا جائے تو فنونِ لطیفہ اور کھیلوں کا شوق جان ہسٹن کو وراثت میں ملا تھا۔ تعطیلات میں والدین کے پاس آتے تو اُن کی پیشہ ورانہ زندگی سے بھی قریب ہوجاتے۔ اِن کے ساتھ اسٹیج شوز اور کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کرتے۔ امراض نے گھیرا تو طویل علاج تجویز کیا گیا۔ اس غرض سے والدہ بورڈنگ سے نکال کر اپنے گھر لے آئیں۔

اُن دنوں میکسیکو، ایریزونا، لاس اینجلس، کیلیفورنیا، نیویارک، میسوری اور دیگر شہروں میں بغرضِ علاج قیام کا موقع ملا۔ لاس اینجلس میں جان ہسٹن ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور یہیں فلمیں دیکھنے کا چسکا پڑا۔ چارلی چپلن کے مداح بنے۔ اگلا پڑاؤ نیویارک تھا اور یہاں والد کی وجہ سے اسٹیج پر چھوٹے موٹے کردار نبھانے کا موقع ملا۔ یہی وہ وقت تھا جب اُن کے دل میں فلم میکنگ اور اداکاری کے رموز سیکھنے کی امنگ بیدار ہوئی۔

وہ کہتے ہیں، ’’اس عرصے میں جو کچھ دیکھا اور سیکھا، وہ پروفیشنل لائف میں میرے کام آیا اور کام یابی کا سبب بنا۔‘‘ دوسری طرف باکسنگ کے شوق نے باقاعدہ کھلاڑی بنا دیا تھا۔ اسکول سے فارغ ہوئے تو رِنگ میں اترے اور کام یابیاں بھی سمیٹیں۔ کیلیفورنیا میں جان ہسٹن کا نام لائٹ ویٹ باکسرز کی رینکنگ میں شامل تھا۔ ایک مقابلے میں حریف نے ناک توڑی تو کھیل کا یہ میدان ہی چھوڑ دیا۔ فائن آرٹ میں دل چسپی لی تو تجریدی کام کیا۔ پیرس میں کچھ عرصہ گزارا اور وہاں پورٹریٹ آرٹسٹ کے طور پر مشہور ہوئے۔ ہالی وڈ کے لیے ہدایت کاری ہی نہیں اداکاری بھی کی۔

ابتدائی حالات، مشاغل اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی کے تذکرے کے بعد اب جان ہسٹن کی مہارت کے شعبے یعنی فلم ڈائریکشن کی طرف چلتے ہیں۔ اِس سفر کی روداد کی ابتدا ’’آسکر ایوارڈ‘‘ سے کرتے ہیں۔ جان ہسٹن نے دو مرتبہ آسکر اپنے نام کیا۔ پندرہ مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زدگ ہوئے۔

ہسٹن کے تحریر کردہ اسکرین پلیز اور ان کی ڈائریکشن میں بننے والی متعدد فلمیں آج ’’کلاسک‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ فلم ڈائریکشن کے میدان میں انہوں نے پورٹریٹ آرٹ کے فن سے بھی استفادہ کیا جس کی بدولت ہم عصروں میں منفرد اور ممتاز ہوئے۔ ہالی وڈ میں ان کی آمد اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی تھی۔ بعد میں ’’وارنرز‘‘ کے بینر تلے فلم ڈائریکشن شروع کی۔

ماں باپ کی وجہ سے کھیل کے میدان اور تھیٹر کے اسٹیج تک رسائی دیگر شائقین کی نسبت آسان تھی۔ جان ہسٹن نے میدان میں جیت کا جنون اور اسٹیج پر تماشا بہت قریب سے دیکھا۔ بعد میں اِن سرگرمیوں کا حصّہ بھی بنے۔ کھیل اور پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کے مشاہدات اور تجربات نے ذہن میں تخیل اور اختراع کو پنپنے کا موقع دیا۔ ہمّت کی اور قلم تھام کر شارٹ اسٹوری لکھ ڈالی اور یہ آغاز اسکرپٹ رائٹنگ تک لے گیا۔

Frankie and Johnny کے عنوان سے اپنے پہلے اسٹیج پلے کا معقول معاوضہ ملا تو سوچا کہ اِسی کو ذریعۂ معاش بنایا جائے۔ اُن دنوں جان ہسٹن کا مستقر میکسیکو تھا۔ دوسری دو شارٹ اسٹوریز Fool اور Figures of Fighting Men تھیں جس کا ایک امریکی میگزین نے معقول معاوضہ دیا۔ یہ 1929 کی بات ہے۔ اس کے بعد جان ہسٹن فیچر رائٹر کے طور پر سامنے آئے اور دی نیویارک ٹائمز کے صفحات پر جگہ پائی۔

1931میں یہ سوچ کر لاس اینجلس لوٹے کہ فلم کے لیے لکھیں گے۔ یہاں اسکرپٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے ’’گولڈ وائن‘‘ سے جُڑے، لیکن چھے ماہ تک کوئی مسودہ ان کی میز تک نہیں پہنچا تو یونیورسل اسٹوڈیو کا رُخ کرلیا، جس سے ان کے والد بھی منسلک تھے۔ پچیس سالہ جان ہسٹن نے یہاں ہالی وڈ کی متعدد فلموں کے مکالمے لکھے۔ اسی ادارے میں فلم ڈائریکٹر ولیم وائلر نے اُن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور جان ہسٹن فلم میکنگ، پروڈکشن کے تمام مراحل سے واقف ہوئے۔

ابتدائی دنوں میں ہالی وڈ میں اُنہیں عیاش، آوارہ اور لالچی بھی کہا گیا۔ بقول ہسٹن، ’’وہ مصیبت کے دن تھے، قدم قدم پر حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔‘‘ انہی دنوں وہ ایک گہرے صدمے سے بھی دوچار ہوئے۔ اُن کی کار کی ٹکر سے ایک راہ گیر عورت کی موت واقع ہو گئی تھی۔ مقدمہ چلا تو جان ہسٹن بے قصور قرار پائے، مگر ذہن اور دل پر بوجھ تھا۔ سو، پانچ برس تک خود لندن اور پیرس میں محدود رکھا۔ اِسی عرصے میں شادی کی اور دوبارہ ہالی وڈ کا رُخ کیا۔

یہ 1937 کی بات ہے۔ انہوں نے وارنر بردارز اسٹوڈیو میں اپنے لیے اسکرپٹ رائٹنگ کا شعبہ چُنا اور چار برس تک اس میدان میں کام کیا۔ جان ہسٹن نے اپنے اسکرپٹس سے ہالی وڈ میں شناخت بنا لی تھی۔Dr. Ehrlich’s Magic Bullet  اور Sergeant York جیسی فلموں نے انہیں آسکر کی دوڑ میں شامل ہونے کا موقع دیا۔ اب جان ہسٹن نے فلم ڈائریکشن کی طرف قدم بڑھایا۔

سراغ رسانی اور سنسنی خیز واقعات پر مبنی ناول The Maltese Falcon وارنرز کی دو فلمیں ناکام رہی تھیں۔ جان ہسٹن نے اصرار تھا کہ وہ پہلی ڈائریکشن اِسی ناول کے لیے دیں گے۔ کوئی اُن سے متفق نہ تھا، مگر اجازت مل گئی۔ فلم سنیما کی زینت بنی تو سبھی حیران رہ گئے۔ فلم بینوں کے ساتھ ناقدین نے بھی اِسے خوب سراہا۔

یہ 1941 کی بات ہے، یہ فلم اُسی تیکنیک کا نتیجہ تھی، جس نے جان ہسٹن کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ دوسری طرف فلم اپنے ناول سے قریب تھی۔ مکالموں میں غیرضروری تبدیلی یا کمی بیشی نہیں کی گئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ شائقین نے اسے پسند کیا اور ناقدین جان ہسٹن سے متأثر نظر آئے۔

امریکا کے مشہور ڈائریکٹر اور فلم نگار جارج اسٹیونز کے مطابق جان ہسٹن کے ہم عصر ڈائریکٹرز فلم بنانے کے بعد کاٹ چھانٹ میں خاصا وقت صرف کرتے، اس کے باوجود خامیاں رہ جاتیں۔ اس کے برعکس جان ہسٹن اپنے اسکرپٹ پر محنت کے ساتھ عکس بندی میں خاص مہارت کا مظاہرہ کرتے اور وہ تیکنیک انہیں کام یابی سے قریب کردیتی۔

دراصل، جان ہسٹن جس اسکرپٹ کی ڈائریکشن دینا چاہتے، اُسے دورانِ سفر یا شوٹ پر ساتھ رکھتے، وقت ملتا تو ہر سین پر نظر ڈالتے ہوئے اُس کا خاکہ بنا کر صفحے سے نتھی کردیتے۔ خاکے میں سین کی ڈیمانڈ کے مطابق تمام کردار اور پس منظر کے علاوہ دوسری باریکیوں جیسے روشنی یا سائے کی بھی وضاحت کردیتے۔ اِسی خاکے پر کیمرے کی پوزیشن، لائٹس اور کلوز اپ وغیرہ سے متعلق اگر کوئی بات ذہن میں ہوتی تو وہ بھی لکھ دیتے۔ بعد میں اِسی کے مطابق سین عکس بند کیا جاتا اور اُسی وقت ضروری کاٹ چھانٹ کے ساتھ بہت کم وقت میں سین فائنل کرلیا جاتا۔

یہ تیکنیک فلم کی ایڈیٹنگ کے جھنجھٹ اور کوفت سے بچانے کے ساتھ بجٹ کے حوالے سے کفایتی ثابت ہوئی۔ بقول ہسٹن، ’’ایسا بہت کم ہوا کہ پروڈکشن کے بعد فلم کے کسی سین میں تبدیلی یا کاٹ چھانٹ کی ہو، عرصے تک میں اپنے فلم ایڈیٹرز سے نہیں ملا تھا، اُن کا نام تک مجھے نہیں معلوم تھا۔‘‘

اُس دور کے معروف اداکار کہتے ہیں کہ اکثر ڈائریکٹرز پر خود واضح نہیں ہوتا تھا کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں، اور شوٹ میں خاصا وقت لگ جاتا، پھر ایڈیٹنگ کے دوران بھی کئی خامیاں سامنے آتیں اور اس میں بھی کافی وقت ضایع ہوتا۔ جان ہسٹن کی بابت ہالی وڈ میں مشہور تھا کہ وہ کیمرے کی آنکھ کو ’’اسنائپر‘‘ کی طرح استعمال کرتے تھے، جب کہ اکثر ہدایت کار اِسے ’’مشین گن‘‘ سمجھتے تھے۔ اِسی انفرادیت کی بنا پر جان ہسٹن کو فلمی صنعت میں روایت شکن اور نڈر ڈائریکٹر کہا گیا۔

مہم جوئی، جنگ و جدل، طویل سفر سے جڑے سنسنی خیز واقعات کی عکاسی جان ہسٹن کو محبوب رہی۔ ان کی زیادہ تر فلمیں مشہور ناولز سے ماخوذ ہیں۔ 1941 میں پہلی ڈائریکشن  Dashiell Hammett کے ناول سے ماخوذ فلم The Maltese Falcon کے لیے دی۔ فلم ایک جاسوس، اس کے ساتھیوں اور نایاب مجسمے کے حصول کی خاطر بھاگ دوڑ کرنے والے کرداروں سے متعلق ہے۔

کہانی کا آغاز ایک خوب صورت عورت سے جاسوس کی ملاقات پر ہوتا ہے۔ وہ عورت اپنی گُم شدہ بہن کو تلاش کرنے کا کیس اس کے سپرد کرتی ہے، اور پھر سنسنی خیز واقعات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ فلم تین آسکرز کے لیے نام زد ہوئی۔ 1948 کی فلم The Treasure of the Sierra Madre دراصل B. Traven کے ناول سے ماخوذ تھی۔ یہ بڑے پردے پر سجی تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ فلم اپنے اسکرپٹ اور ڈائریکشن میں کمال ثابت ہوئی۔

دولت کا لالچ اور اس کے لیے مہم جوئی پر مبنی اس کہانی کے کردار ہر قسم کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ یہ ہالی وڈ کی اُن ابتدائی فلموں میں سے ایک ہے، جن کی شوٹنگ امریکا سے باہر بھی کی گئی۔ ہیوسٹن بہترین ڈائریکٹر اور رائٹر کا آسکر لے اُڑے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فلم میں ہیوسٹن کے والد بھی معاون اداکار کے طور پر شامل تھے اور وہ بھی آسکر کے حق دار ٹھہرے۔

1950  میں فلم بینوں نے The Asphalt Jungle دیکھی، جو  W. R. Burnettکے ناول سے متأثر ہوکر بنائی گئی تھی۔ یہ مووی چار آسکرز کے لیے نام زد ہوئی اور اِسی فلم سے مختصر مگر اہم کردار نبھانے والی مارلن منرو کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔ یہ فلم اور اس میں انجیلا کا کردار نبھانے والی مارلن منرو ناقدین کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہی۔  1951میں  Stephen Crane کے ناول The Red Badge of Courage پر اور اسی برس C. S. Forester کے مشہور ناول The African Queen سے ماخوذ فلمیں بڑے پردے پر سجیں۔

اول الذکر کا موضوع، جنگ اور سپاہیوں پر اس کے اثرات تھا۔مؤخر الذکر فلم گھنے جنگلوں اور دریاؤں میں مہم جوئی اور رومانس کا قصّہ تھی۔ اس نے ایک آسکر اپنے نام کیا۔ بعد کے برسوں میں بھی متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 1994 میں امریکا کی نیشنل فلم رجسٹری نے تاریخی، ثقافتی اور جذبات کی بہترین عکاس قرار دے کر فلم کو کانگریس لائبریری میں محفوظ کرلیا۔

جان ہسٹن نے 1956 میں  Herman Melvilleکی عظیم سمندری داستان موبی ڈک کو فلم بینوں کے سامنے پیش کیا۔ اس فلم نے زبردست بزنس کیا اور مداحوں کی ستائش کے ساتھ ناقدین کی توجہ حاصل کی۔ 1975 میں Joseph Rudyard Kipling کے ناول The Man Who Would Be King پر فلم ڈائریکٹ کی۔ اس میں معروف انڈین اداکار سعید جعفری نے Billy Fish کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ برٹش انڈیا کے دو سپاہیوں کے ایڈونچر کی داستان تھی۔ آسکر کے لیے اس فلم کو چار نام زدگیاں دی گئیں۔

1961 جان ہسٹن کی ڈائریکٹڈ فلم The Misfits پردۂ سیمیں تک پہنچی۔ یہ ایک خوب صورت نوجوان لڑکی کی کہانی تھی، جس کی اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد تین اجنبی مردوں سے دوستی ہو جاتی ہے۔ وہ اس فلم کی بنیاد پر گولڈن گلوب ایوارڈ لے اڑی، جب کہ جان ہسٹن بیسٹ ڈائریکٹر قرار پائے۔

ہسٹن سے اُن کی ڈائریکشن تیکنیک کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا،’’میں سمجھتا ہوں کہ کیمرا ایک آنکھ ہے، جس سے آپ دیکھ رہے ہیں، اِسی کے ساتھ آپ کا ذہن بھی متحرک ہے، کیمرے کی آنکھ، اپنے شعور اور احساس پر مکمل گرفت آپ سے کوئی کمال کروا سکتی ہے، ہم کیمرے کی مدد سے جو کچھ دیکھتے ہیں، اس کا ذہن اور نفسیات پر گہرا اثر پڑتا ہے، اس پر توجہ دی جائے تو منفرد کام سامنے آسکتا ہے۔

1987 میں فیچر فلمThe Dead  بڑے پردے پر سجی۔ یہ جان ہسٹن کی ڈائریکٹڈ آخری فلم تھی اور ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی۔ اُن کی بیٹی  Anjelica Hustonنے بھی اس فلم میں کردار ادا کیا تھا۔ ناقدین کی ستائش کے ساتھ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھی فلم سے دو نام زدگیاں کی گئیں۔ ہالی وڈ میں اپنے کیریئر کے اختتام کی طرف بڑھتے جان ہسٹن نے متعدد فلمز میں مختصر دورانیے کے کردار نبھائے۔

57سالہ جان ہسٹن نے فلم  The Cardinalمیں کردار نبھایا تو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے، مگر خود کو اس میدان میں سنجیدہ نہیں پایا۔ انہوں نے پانچ شادیاں کیں، جن میں سے چار ناکام ثابت ہوئیں۔ جان ہسٹن کی بیٹی Anjelica Huston اور بیٹا Antony Huston  بھی اداکاری کے علاوہ ہالی وڈ کے مختلف شعبوں میں پہچان رکھتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے عارضے نے جان ہسٹن کی زندگی تکلیف دہ بنا دی تھی اور ان کی زندگی کے آخری چند برس وہیل چیئر پر ایک آکسیجن ٹینک کے ساتھ گزرے۔ 28 اگست 1987 کو جان ہسٹن کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔