سمادھ مہاراجہ شیر سنگھ، پنجاب کی تاریخ کا گم گشتہ باب

مدثر بشیر  اتوار 23 اکتوبر 2016
اسّی کی دہائی سے قبل بارہ دری کے اردگرد کھیت کھلیان ہوا کرتے تھے۔ فوٹو: فائل

اسّی کی دہائی سے قبل بارہ دری کے اردگرد کھیت کھلیان ہوا کرتے تھے۔ فوٹو: فائل

مہاراجہ شیر سنگھ کا جنم 4 دسمبر 1807ء کو مہتاب کور کے گھر ہوا۔ رنجیت سنگھ کے آٹھ بیٹے تھے۔ جن میں سے اس کے حقیقی بیٹے کھڑک سنگھ اور دلیپ سنگھ تھے۔ باقی چھ بیٹوں کے بارے میں مختلف کہانیاں منظر عام پر آتی رہیں۔ شیرسنگھ کو بھی رنجیت سنگھ کا حقیقی بیٹا نہیں مانا جاتا۔ اس ضمن میں ایک حوالہ بھولا ناتھ وارث کی کتاب تاریخ لاہور (ص۔147) پر یوںملتا ہے۔

’’مہتاب کور کے گھر کئی برسوں تک اولاد نہ ہوئی۔ آخر 1807ء میں شیرسنگھ اور تارا سنگھ نامی دو لڑکوں کی پیدائش کی خبر مشہور ہوئی۔ کئی لوگ اس پر شبہ کرتے رہے کہ یہ دونوں لڑکے رنجیت سنگھ کے نہ تھے اور رنجیت سنگھ نے بھی ان پر کوئی خاص دھیان نہ دیا۔1820ء کو رنجیت سنگھ نے شیرسنگھ کو اپنا بیٹا مان لیا اور شیر سنگھ کی نانی سدا کور سے مطالبہ کیا کہ کہنیا مٹل کے قصبہ میں موجود آدھا علاقہ اپنے نواسے کے نام کردے۔ رنجیت سنگھ نے اس بات کو جواز بناکر سدا کور کی جائیداد پر قبضہ کرلیا۔ بعدازاں انگریزوں کے زور ڈالنے پر جائیداد سدا کور کو واپس کردی گئی۔‘‘

شیر سنگھ کا بنیادی رجحان پہلوانی، شمشیرزنی اور گھوڑ سواری کی جانب تھا۔ 1829ء میں اسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دربار میں خاص جگہ دی اور اس نے کئی جنگی مہمات میں بھر پور حصہ لیا۔ 1831ء میں اسے کشمیر کی گورنری دی گئی جوکہ 1834ء تک جاری رہی۔ اس تمام عرصہ میں کشمیر کی حالت انتہائی خراب ہوگئی۔ اس عہد کا تذکرہ کہنیا لال ہندی نے کتاب تاریخ لاہور (ص۔335) پر یوں کیا ہے۔’’چونکہ شہزادہ شیر سنگھ سے بسبب عیش و عشرت کے انتظام خطۂ کشمیر نہ ہوسکا اور اس کے کارداروں سے وہ ملک ایسا خستہ حال ہوا کہ دیوان موتی رام اور کریا رام کے عہد میں آٹھ ہزار دکانیں شال باف لوگوں کی سری نگر میں جاری تھیں۔ شہزادے کے عہد میں کل ایک ہزار پچاس دکانیں باقی رہ گئیں اور سب کے دیوالے نکل گئے اور دکانیں اجڑگئیں۔ مہاراجہ نے یہ حال سن کر شہزادہ شیرسنگھ کو نظامت سے معزول کرکے جمعہ اور خوشحال سنگھ کو اس خدمت پر مقرر کرکے بھیج دیا۔‘‘

1834ء میں شیرسنگھ کو پشاور کا کمانڈر تعینات کیا گیا۔ مارچ 1837ء کو جب کھڑک سنگھ کے بیٹے اور رنجیت سنگھ کے پوتے کنور نونہال سنگھ کی تاریخی شادی ہوئی تو اس شادی میں انگریزوں کی میزبانی کے فرائض شیرسنگھ ہی کے ذمے تھے۔ شیرسنگھ نے ستلج کے کنارے پر سرہنری فین، کیپٹن ویڈ اور دیگر اقابرین کے ساتھ لیفٹیننٹ ہنری ایڈورڈ فین کا استقبال کیا۔ ہنری ایڈورڈ تمام شادی میں سب سے زیادہ متاثر شیرسنگھ کی شخصیت سے تھا اس نے اپنی ڈائری میں یوں لکھا ’’وہ سیاہ داڑھی والا ایک نہایت دلکش انسان تھا، ایسے حسین لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ اس نے زرق برق لباس پہنا ہوا تھا۔ اس نے جو ہیرے جواہرات پہنے ہوئے تھے۔ میں نے ایسے ہیرے جواہرات کبھی نہیں دیکھے تھے۔ بعض جواہرات تو بہت بڑے تھے۔

ایڈورڈ نے شیرسنگھ کے کمرے کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا۔

’’یہ آئینوں، فرانسیسی خوشبو کی بوتلوں اور طرح طرح کی اشیاء سے بھرا ہوا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ اس کمرے کا مالک بہت نفیس تھا۔‘‘

1839ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد کچھ عرصہ اس کے بیٹے کھڑک سنگھ نے حکومت کی اور 1840ء میں اس کی موت بھی ہوگئی اور اس کے بعد اگلے روز ہی ولی عہد نونہال سنگھ کی موت بھی ہوگئی۔ نونہال سنگھ کی موت کی روایات بھی انتہائی متنازعہ ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا انگریزوں کے خلاف ہونا تھا۔ باپ بیٹے کی موت کے بعد تخت لاہور پر سرکار بنانے کے جھگڑے شروع ہوگئے۔

ان جھگڑوں کو ہوا دینے میں وزیراعظم میاں دھیان سنگھ کا خاص کردار رہا تھا۔ کھڑک سنگھ کی بیوہ چندر کور جوکہ نونہال سنگھ کی والدہ بھی تھیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر تخت سنبھالا کہ نونہال سنگھ کی بیوہ امید سے ہے اور اس کا ہونے والا بچہ ہی ولی عہد ہوگا۔ دوسری جانب شیر سنگھ نے بھی تخت لاہور پر نظر جمارکھی تھی۔ اس تمام معاملے میں سرداران سندھانوالیہ رانی چندر کور کے ساتھ تھے کیونکہ وہ رنجیت سنگھ کے بھی ہم جد تھے۔ اس جنگ کی منظرکشی مفتی غلام سرور قریشی لاہوری نے اپنی کتاب ’’تاریخ مخزن پنجاب‘‘ (ص۔490) پر یوں کی ہے۔

’’قلعہ لاہور میں راجہ گلاب سنگھ اور چندر کور سرداراں سندھانوالیہ محصور ہوئے۔ شیرسنگھ نے تو پنجانہ آبشار قلعہ کے گرانے کے واسطے مامور کیا۔ بادشاہی مسجد کے میناروں پر زنبورے چڑھادیئے اور لڑائی شروع کی۔ تین روز تک برابر لڑائی ہوتی رہی، اندر سے بھی گولیوں کی بوچھاڑ اور باہر سے گولوں کی مار مار ہوتی تھی۔ ہر روز سینکڑوں آدمی کام آتے تھے۔ جب قلعہ کی دیواریں مسمار ہوگئیں تو چوتھے روز راجہ دھیان سنگھ جموں سے آیا اور توپ رانی بند کرا کے اس نے آپس میں صلح کرائی اورشیر سنگھ کو گدی پر بٹھایا اور اس امر کے ظہور سے سندھانوالیہ سردار سب ستلج پار بھاگ گئے۔‘‘

20 جنوری 1841ء کو شیر سنگھ کی افواج نے لاہور کے قلعہ پر قبضہ کرلیا۔ اس دوران شیرسنگھ کی فوج نے تمام لاہور شہر میں تباہی مچادی۔ دکانیں توڑ توڑ کر سامان لوٹا گیا۔ رنجیت سنگھ کے عہد میں موجود یورپی فوجیوں میں سے چند ایک کو گولی ماردی گئی اور کچھ نے بھاگ کر انگریزوں کے پاس پناہ لی۔ 27 جنوری 1841ء کو قلعہ لاہور میں رسم تاجپوشی ہوئی اور تمام شہر میں چراغاں ہوا۔

شیر سنگھ پنجاب کا مہاراجہ تو بن چکا تھا لیکن اس کو رانی چندر کور کی جانب سے مسلسل دھڑکا لگا رہتا تھا۔ رانی چندر کور کے ساتھ شیرسنگھ کے معاملات درست ہوسکتے تھے لیکن راجہ دھیان سنگھ نے ایسا نہ ہونے دیا۔ غلط فہمیاں بڑھتی گئیں اور شیرسنگھ نے ایک سازش کے تحت رانی چندر کور کو اندرون لوہاری دروازہ لاہور میں موجود کنور نونہال سنگھ کی حویلی میں اس کو اس کی کنیزوں کے ہاتھوں مروا دیا۔

اس دوران شیرسنگھ نے سندھانوالیہ سرداروں کو دوبارہ حکومت میں شامل کیا اور اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ لیکن دھیان سنگھ نے ان سرداروں میں بھی غلط فہمیاں قائم رکھیں اور ان کے ساتھ مل کر شیرسنگھ کے قتل کی منصوبہ بندی جاری رکھی۔ 15 ستمبر 1843ء کو شیرسنگھ، شاہ بلاولؒ  کے مزار کے قریب دریا کنارے بارہ دری پر پہلوانی کا مقابلہ دیکھ رہا تھا کہ اجیت سنگھ نے اس کو معائنے کے لیے ایک شکاری بندوق دکھائی۔ جب مہاراجہ نے بندوق دیکھنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے ساری بندوق کی گولیاں مہاراجہ پر چلادیں۔

شیر سنگھ کے آخری الفاظ یہ تھے۔ ’’ایہہ کیہ دغا‘‘

اس کے بعد اجیت سنگھ نے تلوار کے وار سے شیرسنگھ کا سر تن سے جدا کردیا اور پھر وہی تلوار لیے قریبی باغ چلا گیا۔ وہاں شیرسنگھ کا بیٹا اور ولی عہد پرتاب سنگھ غریبوںکو خیرات دے رہا تھا۔ اس وقت اس کی عمر محض بارہ برس تھی۔ ادھر لہند سنگھ نے ننگی تلوار نو عمر پرتاب سنگھ پر اٹھائی تو وہ پیروں میں گر کر رحم کی بھیک مانگنے لگا اور کہا کہ چچا میں تمام عمر تمہارے گھوڑوں کی لید اٹھاؤں گا۔ لیکن چچا نے کوئی رحم نہ کھایا اور ایک ہی وار کرکے سر تن سے جدا کردیا۔

اس کے بعد یہی سردار قلعہ لاہور بھی گئے اور راجہ دھیان سنگھ کو بھی قتل کرڈالا۔شیرسنگھ اور اس کے بیٹے کے عبرتناک قتل کے بعد ان کی چتائیں اسی مقام پر جلا دی گئیں اور ان کی سمادھیاں بھی ادھر ہی بنائی گئیں۔ پہلے تو یہ سمادھیاں کچی تھیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد رانی رندھاوی اور کنور بخشیش سنگھ نے ان سمادھیوں کو تعمیر کروادیا۔ سمادھیوں کی تفصیل تاریخ لاہور از کہنیا لال ہندی (ص۔222,223) پر اس طرح ملتی ہیں۔

’’شرقی حصہ مکان میں سمادھ مہاراجہ شیرسنگھ کی ہے اور اس کے نیچے ایک بالشت زمین چھوڑ کر اس رانی کی سمادھ ہے جو مہاراجہ کے ساتھ ستی ہوئی تھی۔ غربی حصے میں کنور پرتاب سنگھ فرزند مہاراجہ شیرسنگھ کی سمادھ ہے۔ ان تینوں سمادھیوں پر موٹے کپڑے کے غلاف پڑے رہتے ہیں۔ مکان سمادھ کے اندر کی عمارت چونا گچ ہے۔ دیواروں پر بابا نانک وغیرہ دسوں گرووں کی تصویریں لگی ہیں۔ سقف مکان کی قالبوتی ہے اور اوپر گنبد کشتی نما۔ باہر اس مکان کے بجانب شمال اڑھائی گز زمین چھوڑ کر رانی رندھاوی زوجہ مہاراجہ شیرسنگھ کی سمادھ الگ سے ہے۔‘‘

سمادھیوں میں سے دو سمادھیوں پر تحریر بھی کندہ تھی جوکہ خان محمد ولی اللہ خان کی کتاب SIKH SHRINES IN WEST PAKISTAN کے صفحہ 55 پر یوں ملتی ہے۔

(1) سمادھ رانی صاحبہ رندھاوی دھرم کور۔ مہاراجہ شیرسنگھ صاحب بہادر کی سرگباشی بیوی در ماہ 14 سمت 1927 یوم یکشنبہ

(2) رانی پرتاب کور والدہ سردار ٹھاکر سنگھم زوجہ مہاراجہ شیرسنگھ بہادر سرگباشی دھم ماہ باروت سمت 1912

پیر بلاولؒ شاہ کے مزار کے ساتھ بارہ دری کی عمارت اور سمادھیوں کی عمارتیں سالہا سال قائم رہیں۔ مزار کے ساتھ ایک قدیمی اکھاڑہ بھی تھا جو سن اسّی کی دہائی تک قائم رہا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی ناپید ہوگیا۔ تقسیم کے دوران بھی اس جگہ پر کافی تباہی مچی لیکن اصل تباہی بابری مسجد کے سانحہ کے بعد آئی جب قبضہ گروپوں نے مزار کے ساتھ ساتھ ملحقہ بارہ دری اور سمادھیوں کی عمارت کو تہس نہس کردیا۔

عصر حاضر میں ان سمادھیوں کی رسائی کیلئے راستہ انجینئرنگ یونیورسٹی جی ٹی روڈ لاہور پر موجود سنگھ پورہ بس سٹاپ سے ملتا ہے۔ اس بس سٹاپ سے بائیں جانب اندر کو ایک راستہ جاتا ہے جہاں پر پہلے شوالہ چوک آتا ہے اور اس سے آگے گندی بمبی نامی بس سٹاپ ہے اس کے ساتھ آگے کو شیرشاہ روڈ ہے جس کے ساتھ ہی دربار بابا بلورؒ شاہ اور بارہ دری شیرسنگھ پارک ہے۔ اس تباہ حال بارہ دری اور سمادھیوں کو ازسرنو تعمیر کرایا گیا ہے۔ اس میں موجود پارک P.H.A کے پاس 2010ء میں آیا۔ اس سے قبل یہ تمام جگہ بھنگی چرسی حضرات کی آماجگاہ تھی اور لوگ اپنے گھوڑے گدھے باندھ جایا کرتے تھے۔

2010ء سے قبل تک قدیمی اکھاڑہ ختم ہوچکا تھا۔ اس میں استاد سلیم جیسے ماہر پہلوان ہوا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ خلیفہ رفیق کا نام بھی کافی مشہور تھا، وہ تمام علاقے میں استاد فیقہ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اکھاڑہ ختم ہونے کے بعد استاد فیقہ نے سکیم نمبر 2 میں ہڈی جوڑ توڑ کا کلینک بنالیا ہے۔ بارہ دری کے دونوں جانب نیچے کو پانی کی طرف بڑھتی سیڑھیاں موجود تھیں اور ان کے ساتھ ساتھ خاص طرز کے کنڈے بھی موجود تھے جہاں کشتی کو رسے کے ساتھ باندھا جاتا تھا۔یہ کنڈے اس امر کے گواہ ہیں کہ اس شہر کے لاہور کے ساتھ ساتھ قدیمی راوی بھی بہا کرتا تھا۔ جو اب ایک گندے نالے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

اسّی کی دہائی سے قبل بارہ دری کے اردگرد کھیت کھلیان ہوا کرتے تھے۔ بابا بلورؒ شاہ کا مزار پہلے محض ایک مٹی کی ڈھیری ہوا کرتی تھی جو عصر حاضر میں ایک مکمل مزار بمعہ گنبد کے رنگ میں نظر آتا ہے۔ یہاں پر اب ہر 27 دسمبر سے 29 دسمبر تک سہ روزہ میلہ بھی لگتا ہے۔ اس میلے میں ایک عرصہ تک صفدر کھوکھر نامی لوک فن کار ترت مراد گاتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان شہزاد بھی تھا جو ترت مراد بہت اچھا پڑھتا تھا۔

آج کل شہزاد کانجی بیچتا ہے۔ اسی میلے کے ساتھ جڑا ایک نام مشتاق نیئر کا ہے جو دودھ دہی کی دکان چلاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میلاد پڑھنے میں خاص نام کما رکھا ہے۔ آرٹ اور تھیٹر کے حوالے سے محمد اکرم کھوکھر، ریاض بدر، آغا زاہد اور آغا شاہد کے نام بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔

یہ علاقہ عمومی طور پر قبضہ گروپوں کے ہاتھوں پروان چڑھا لیکن اس کے باوجود یہاں پر سیاسی حوالے سے ماجھا سکھ کا نام انتہائی معروف ملتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ پرانے ڈیرے داروں میں ملک اصغر، ملک اسلم اور ملک یونس کا ڈیرہ تمام علاقے میں جانا جاتا تھا۔ بھٹو دور میں اس علاقے میں طارق وحید بٹ، عزیز الرحمن چن، ڈاکٹر ضیاء اللہ بنگش، پیر اشرف، شیخ اصغر، حاجی احمد علی اور ان کے بعد شجاع الرحمن اور میاں معراج دین کے نام بھی جگ جانے مانے تھے۔

نواز شریف ہسپتال کی تعمیر بھی بارہ دری سے ملحقہ احاطے میں ہوئی۔ اس سے پہلے یہاں پر پرانے شہتوت، بیری اور برگد کے درخت ہوا کرتے تھے جن کا وجود اب ناپید ہو چکا ہے۔ بارہ دری سے پہلے ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف کی رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ سمادھ کی مغربی سیدھ میں ایک قدیمی کنواں اور اس کے ساتھ اور اس کے ساتھ ملحقہ حوض بھی تھے جو نئی تعمیرات کی نذر ہو چکے ہیں۔ سمادھ کی عمارت کے کمرے نئے تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ جن میں سمادھیوں کے محض نشان موجود ہیں۔ اب یہ کمرے بھی چوکیدار اور دیگر عملہ کے زیر استعمال رہتے ہیں۔

بارہ دری کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ بچوں کے لیے بنائے گئے پارک میں شام کے وقت خواتین اور بچے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا سکھ یاتری بھی آجاتا ہے۔ اسی بارہ دری پر ظلم کی داستان رقم ہوئی۔ اس داستان کو بیتے ایک سو ستر برس سے زائد ہوگئے۔ لیکن اس کا احساس اور تکلیف آج بھی ادھر جاتے ہی محسوس ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔