جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)

شاہد کاظمی  منگل 15 نومبر 2016
عوام کی ’ٹوٹتی امیدیں‘ یہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ حکومت وقت کی ساری توانائی تو سیاسی محاذ آرائی میں خرچ ہو رہی ہے۔ اگر عوام کو سہولیات فراہم کی جاتی تو عوام مخالفین کو آپ سے پہلے جواب دے رہے ہوتے۔

عوام کی ’ٹوٹتی امیدیں‘ یہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ حکومت وقت کی ساری توانائی تو سیاسی محاذ آرائی میں خرچ ہو رہی ہے۔ اگر عوام کو سہولیات فراہم کی جاتی تو عوام مخالفین کو آپ سے پہلے جواب دے رہے ہوتے۔

دعویٰ تھا کہ ایک سال کے اندر لوڈ شیڈنگ کےعفریت پر قابو پالیں گے۔ دنوں سے مہینوں، چھ مہینے، پھر سال کا وقت عوام کو عنایت کیا گیا، کمال مہربانی سے۔ مگر شومئی قسمت کہ یہ صرف انتخابی وعدہ ثابت ہوا اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے بجائے صرف اور صرف پل، سڑکیں، انڈر پاس، میٹرو بس، میٹرو ٹرین بنانے پر تمام توانائیاں صرف کردی گئیں۔

لاہور میٹرو بس، ملتان میٹرو بس، راولپنڈی میٹرو بس، راقم کو تینوں پراجیکٹس کا ذاتی طور پر مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ تینوں منصوبوں کو اگر بغور دیکھیں تو ہوا میں لہراتی سڑک کے علاوہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔ لاہور کو انڈر پاسز کا شہر تو بنا دیا گیا مگر حالات اس قدر خراب کر دیئے گئے کہ آلودگی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ سالہا سال پرانے قدیم درخت پل بھر میں ایسے اکھیڑ دیئے گئے جیسے ان پر بنے پرندوں کے گھونسلوں سے کوئی ذاتی دشمنی نکالی جا رہی ہو۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ میٹرو ٹریکس بن جانے کے باوجود ٹریفک کی روانی میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آسکی۔

مغلیہ دور کی عمارات کے حوالے سے کیسز الگ عدالتوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے اُس مزاج کا کیا کیا جائے جو کچھ اِس طرح سوچتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، ہر وہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے جس پر اپنی سوئی اٹک گئی ہے۔ چاہے وہ مفاد عامہ میں ہو یا نہ ہو۔ راولپنڈی میٹرو بس کو دیکھ لیجیئے، حکومت اگر یہی تمام پیسہ صدر سے سیکریٹریٹ تک موجود سڑک کو چار رویہ کردیتی تو اس سے نسبتاً کم لاگت میں بہتر سفری سہولیات مل سکتی تھیں۔ پیر ودہائی منڈی میں کشمیر، خیبرپختونخواہ اور راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں سے سبزیاں و پھل لائے جاتے ہیں۔ اگر میٹرو بنانے کے بجائے گاؤں تا منڈی سڑکوں کو ہی بہتر کردیا جاتا تو جڑواں شہروں کی معیشت میں ڈرامائی تبدیلی آسکتی تھی۔ سڑکوں کے بجائے اگر صرف ڈیمز بنانے پر توجہ دی جاتی تو ایک تیر سے دو شکار ایسے ہوسکتے تھے کہ نہ صرف لوڈشیڈنگ سے نمٹنے میں مدد مل سکتی تھی بلکہ بنجر علاقے زرعی زمین میں تبدیل ہوسکتے تھے۔

مثال کے طور پر اگر کھیت سے ایک من پیداوار حاصل ہوتی اور یہی پیداوار بہتر سفری سہولیات کی وجہ سے فوری منڈی میں پہنچتی اور وہاں پر اسے اسٹور کرنے کا مناسب بندوست ہوتا اور عام لوگوں تک فوراً رسائی ممکن ہوتی تو خوراک کس قدر سستی ہوتی۔ ایس صورت میں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عام آدمی کی زندگی میں انقلاب میٹرو بس سے آسکتا تھا یا دیگر منصوبہ جات کی وجہ سے۔ جو خرچہ میٹرو جیسے منصوبوں پر کیا گیا ہے وہی پیسہ مفت بیج کی فراہمی، کسانوں کو سستی بجلی، ملازمین کو بہتر ملازمت کے مواقع، مفت تعلیم کی سہولت، مفت طبی سہولیات پر خرچ کردیا جاتا تو حالات آج کس نہج پر ہوتے۔

لیکن بات پھر وہیں آکر رکتی ہے کہ کرنا تو وہی ہے جو اپنا من ہے۔ عوام کی امیدیں اسی لئے ٹوٹتی ہیں کہ ان سے کئے گئے وعدے تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے۔ مفت علاج کا وعدہ کرکے طبی کارڈ کا اجراء شروع کردیا جاتا ہے۔ آپ کیوں خوامخواہ کارڈز کی زحمت میں پڑتے ہیں؟ آپ صرف اتنا کرتے کہ تمام بڑے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کردیتے، اور شکایات کے لئے کوئی ایسا فورم بنا دیتے جو اتنا مستعد ہوتا کہ ایک دن میں شکایت سنتا اور ازالہ کرتا۔ کہنے کو اب بھی سرکاری اسپتالوں میں علاج مفت ہے لیکن اس مفت علاج کا کیا فائدہ جہاں ایک درد کُش تک باہر سے خود لے کر آنی پڑے۔

آپ تعلیم مفت کردیتے۔ کہنے کو تو شاید تعلیم بھی مفت ہی ہے مگر کیا فائدہ ایسی مفت تعلیم کا جہاں اسکول باڑے بنے ہوں۔ جہاں اساتذہ قدیم طریقوں کو اپنائے ہوئے ہوں۔ جہاں مولا جٹ کا راج ہو۔ عوام کو اُمیدیں تھیں کہ شاید آپ گندم کو ذخیرہ کرنے کے گودام بنائیں گے، آپ ڈیمز بنائیں گے، آپ رابطہ سڑکوں کی حالت زار بہتر کریں گے، آپ دیہاتوں کو سہولیات دیں گے، آپ تعلیم مفت دیں گے، آپ صحت کی سہولت دیں گے، آپ انصاف کی فراہمی غریب کو دہلیز پر مفت یقینی بنائیں گے، آپ اور نہیں تو اپنے منشور پر عمل کریں گے۔

لیکن عوام کی ’’ٹوٹتی امیدیں‘‘ یہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ حکومت وقت کی ساری توانائی تو سیاسی محاذ آرائی میں خرچ ہو رہی ہے۔ تمام پیادے و وزیر تو اپنی قوت عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی پر خرچ کرنے کے بجائے صرف مخالفین پر فقرے کسنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ تمام مشیران  پُرخلوص مشوروں کے بجائے اپنی اپنی جگہ پکی کرنے کے چکر میں ہیں۔ آپ سے جو اُمیدیں وابستہ کر لی گئی تھیں، یہ بھول کر کہ پہلے جو مواقع ملے اس پر آپ نے کیا کیا، وہ اب ٹوٹتی نظر آرہی ہیں۔

جناب، اب بھی وقت ہے، سڑکوں سے زیادہ عوام پر توجہ دیجیئے۔ سیاسی نعروں سے زیادہ عمل پر زور دیجیئے، اگر عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی ہوتی تو آج عوام آپ کے مخالفین کو آپ سے پہلے جواب دے رہے ہوتے۔ مگر آپ نے جس طرح عوام کی اُمیدوں کا خون کیا ہے اس سے آپ اپنے مخالفین کے ہاتھ ہی مضبوط کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ عالی جاہ! غور کیجیئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔