لاہور کے ثقافتی حسن کو عارضی میک اپ سے گہنانے کی سازش

عاطف اشرف  منگل 18 اکتوبر 2016
لاہور جیسے خوبصورت شہر کو میٹرو جیسی لیپا پوتی کرنے سے بہتر ہے اس کے ثقافتی حسن کو برقرار رکھا جائے۔ کیونکہ سادگی جیسی اصل خوبصورتی عارضی میک اپ سے آ ہی نہیں سکتی۔

لاہور جیسے خوبصورت شہر کو میٹرو جیسی لیپا پوتی کرنے سے بہتر ہے اس کے ثقافتی حسن کو برقرار رکھا جائے۔ کیونکہ سادگی جیسی اصل خوبصورتی عارضی میک اپ سے آ ہی نہیں سکتی۔

لاہور کے بناؤ سنگھار کے لئے پہلے میٹرو بس کی سرخ لپ اسٹک لگائی گئی اور اب میٹرو ٹرین کا اورنج بلشر لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ بیس لگ چکی ہے لیکن ابھی میک اپ فائنل نہیں ہوا کیونکہ لاہور جیسی خوبرو حسینہ کا اپنا ثقافتی حسن ہی اتنا قدر و منزلت والا ہے کہ اورنج ٹرین کا جدید میک اپ اس کے حسن کو چار چاند لگانے کی بجائے گہنا سکتا ہے۔

لاہور کو اِس خوبصورت دلہن کی طرح سجانے کی تیاری ہو رہی ہے جس کے پاس نہ تو تعلیم کا خالص زیور ہے، نہ ہی اسی کی صحت اعلیٰ معیار کی ہے۔ پیٹ سے بھوکی، اس کمزور دلہن پر کبھی کبھار فاقوں کی نوبت بھی آتی ہے، صحت کے نظام کو کرپشن کی بیماری لگی ہے، جگہ جگہ نااہلی کا وائرس تنگ کرتا ہے، رشوت کا بیکٹیریا ستاتا ہے، ناانصافی کی خارش ہوتی ہے، میرٹ کے زخم لگتے ہیں، اقرباء پروری درد ِسر بنی ہوئی ہے، شہر کے آس پاس سینکڑوں گلیاں اور سڑکیں ناقص مٹیریل کی جلدی بیماریوں کا شکار ہوکر جھریوں میں بدل چکی ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں کتابیں تو ہیں علم نہیں، اسپتال تو ہیں مگر خود انہیں اپنےعلاج کی ضرورت ہے۔ لاہور نامی اس بیمار کمزور اور غریب دلہن کی صورت کو دیکھ کر اگر ایک نظر شہر کے نظام اور حالات پر ڈالیں اور ایک نظر میٹرو بس اور ٹرین پر ڈالیں تو سمجھ آجائے گی کہ غریب اور بیمار دلہن کو مہنگا ترین میک اپ کرکے آپ استنبول جیسی حسینہ کے ساتھ ایک ہی ریمپ پر کیٹ واک تو کرواسکتے ہیں، نمائش کے لئے فوٹو سیشن تو کرسکتے ہیں لیکن اندر کے حالات اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک اس دلہن کے بنیادی مسائل حل نہ کرلیں۔

افسوس اس لاہوری دلہن کا حال پہلے سے بھی بے حال کیا جارہا ہے، اس کے قدرتی اور ثقافتی حُسن کو میٹرو ٹرین کا میک اپ کرکے نہ صرف چھپایا جارہا ہے بلکہ اس کی غربت اور بیماری کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے، کیونکہ جو پیسے اس کی غربت، جہالت اور  بیماری دور کرنے پر لگنے تھے وہ اس کے میک اپ پر لگا کر اس کی صورت مزید بگاڑی جارہی ہے۔ لاہور کی صورت کیسے بگڑ رہی ہے، آئیے ان تاریخی عمارتوں کا ذکر کرتے ہیں جو لاہور کا ثقافتی حُسن ہیں لیکن اورنج ٹرین سے حُسن کو گرہن لگ سکتا ہے۔

اورنج میٹرو لائن کا 27 کلومیٹر طویل راستہ علی ٹاؤن سے شروع ہوکر ڈیرہ گجراں تک جاتا ہے۔ اس روٹ کے راستے میں آنے والی اہم تاریخی اور ثقافتی عمارات میں زیب النساء کا مقبرہ، چوبرجی، موج دریا کا مزار، سینٹ اینڈریو چرچ، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری، ایوان اوقاف، جی پی او، لکشمی بلڈنگ، بدھو کا مقبرہ، گلابی باغ اور شالامار باغ شامل ہیں۔

زیب النساء کا مقبرہ

علی ٹاؤن سے اورنج ٹرین کے روٹ پر آئیں تو راستے میں پہلا ثقافتی نگینہ زیب النساء کا مقبرہ آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مغل بادشاہ اورنگزیب کی بیٹی تھی جو یہاں مدفون ہے۔ اس کی حالت تو پہلے ہی خستہ حال ہے، لیکن اندازہ کریں اگر اس عمارت کے 2 سو میٹر کے فاصلے سے بھی میٹرو ٹرین گزرے تو ارتعاش سے اس خستہ حال عمارت کی بنیادیں کیا مضبوط ہی رہیں گی؟

چوبرجی

تھوڑا سا آگے آئیں تو چار میناروں والی تاریخ عمارت چوبرجی میٹرو کے ملبے سے مزین نظر آتی ہے۔ میٹرو کے ستون اس عمارت کے قریب سے گزرتے ہیں۔ چوبرجی بنیادی طور پر اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النسا کے باغ کا مرکزی دروازہ تھا لیکن اب یہاں باغ کا کوئی نام و نشان تک نہیں۔ پہلے دور سے چوبرجی کی شان نظر آتی تھی لیکن اب میٹرو کے ستونوں نے لاہور کے اس ثقافتی ہیرے کو کنکریٹ کے پردے میں چھپا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چوبرجی کے قریب ستونوں کی کھدائی نے چوبرجی کے میناروں کی بنیادوں کو بھی کمزور کردیا ہے، اور ٹرین کے جھٹکے اس ثقافتی ورثے کو صرف تصاویر اور تصور تک ہی محدود کرسکتے ہیں۔

موج دریا کا مزار

چوبرجی کے بعد لٹن روڈ سے تھوڑا آگے موج دریا کا خوبصورت مزار ہے۔ اس مزار میں حضرت میران محمد شاہ بخاری دفن ہیں۔ حضرت میران شاہ کا انتقال 1604ء میں ہوا تو شہنشاہ اکبر کے حکم کے مطابق یہ ساری زمین اس بزرگ  کے خاندان کے لئے وقف کردی گئی ہے اور عمارت کا ایک انچ بھی حکومت استعمال نہیں کرسکتی۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھی یہ حکم نامہ پیش ہوچکا ہے، یہاں کام تو رک چکا ہے مگر خدشہ اب بھی ہے کہ اورنج ٹرین کی وجہ سے یہ جگہ بھی قبضے کا شکار ہوجائے۔

سینٹ اینڈریو چرچ، سپریم کورٹ رجسٹری اور ایوان اوقاف

سینٹ اینڈریو چرچ لاہور ہائی کورٹ کے پہلو میں واقع ہے۔ 1899ء میں قائم ہونے والے اس چرچ کی عمارت اِس دور کے فن تعمیر کی عکاس ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ رجسٹری اورلاہور ہائی کورٹ بھی واقع ہیں۔ ایوان اوقاف کے ایک طرف سپریم کورٹ لاہور برانچ رجسٹری کی عمارت ہے جبکہ عقب میں لاہور ہائی کورٹ واقع ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق اورنج ٹرین ان عمارتوں سے بھی دو سو گز فاصلے سے انڈر گراؤنڈ ٹنل سے گزرے گی لیکن کیا چرچ کی بنیادوں کو کوئی نقصان تو نہیں ہوگا؟ اس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں۔

جنرل پوسٹ آفس

مال روڈ پر قائم اہم ترین اور تاریخی عمارت جنرل پوسٹ آفس بھی ہے۔ سوا سو سال پرانی یہ عمارت 1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی یاد میں تعمیر کی گئی۔ اس عمارت کا نقشہ گنگا رام نے بنایا اور یہ وہی گنگا رام ہیں جن کے نام پرلاہور کا گنگا رام اسپتال بھی ہے۔ اگر میٹروٹرین کو گرین سگنل مل گیا، تو اس نگینے کی حالت بیشک ٹھیک رہے گی لیکن مال روڈ کا حُسن چھپ سکتا ہے۔

لکشمی بلڈنگ

اورنج لائن منصوبے نے لکشمی عمارت کی لکشمی بھی چھین لی، ستونوں کے ہجوم میں یہ عمارت چھپ سی گئی ہے، منصوبے سے پہلے اس عمارت کے آس پاس جو رونقیں تھیں، آج میٹرو کی تعمیر کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ، دھول اور کھڈوں میں بدل چکی ہیں۔ یہ جگہ کھانے پینے کا مرکز ہے لیکن اب ہوٹلوں والے گاہکوں کی راہ تکتے ہیں۔ 1924ء میں بننے والی اس بچی کھچی عمارت کو کہیں میٹرو ٹرین ہی نہ نگل جائے؟ فی الحال یہاں بھی کام روک دیا گیا ہے۔

بدھو کا مقبرہ

17ویں صدی کی یہ عمارت یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے بالکل سامنے واقع ہے۔ یہ عمارت بدھو نامی ایک کمہار کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جس نے پکی اینٹوں کے کام سے دولت جمع کرلی تاکہ اپنے لئے ایک مقبرہ تعمیر کرواسکے۔ اس عمارت کو عام طور پر بدھو کا آوا بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے مٹی پکانے والا بھٹہ۔ ویسے تو یہ عمارت پہلے ہی حالات کے رحم و کرم پر ہے لیکن اب اس ثقافتی حسن پر جدید میٹرو کی یلغار بھی ہوسکتی ہے۔

گلابی باغ

گلابی باغ کا اب صرف نام بچا ہے، باغ تو رہا نہیں صرف داخلی راستہ ہی باقی ہے، جہاں دائی انگہ کا مزار ہے جو شاہ جہاں بادشاہ کی دایہ تھیں۔ اب گلابی باغ کے سامنے میٹرو ٹرین کا ستون کھڑا ہے جس نے اس عمارت کے داخلی دروازے پر بھی نظارے کا راستہ روک دیا ہے۔

شالا مار باغ

کہتے ہیں شالا نظر نہ لگے لیکن شالا مار باغ کو پہلے انتظامی نااہلی اور بے حسی کی نظر لگی اور اب میٹرو اس کو شہریوں کی نظروں سے بھی اوجھل کررہی ہے۔ عالمی ثقافتی ورثے میں شامل یہ تاریخی باغ میٹرو کے لوہے کے ستونوں میں گِھرچکا ہے، جہاں کہیں ہریالی تھی اب ملبہ اور مٹی ہی نظر آتی ہے۔

لاہور کا جتنا حسن گہنایا جاچکا وہ کافی ہے۔ اب لاہور ہائی کورٹ نے ان 11 اہم عمارتوں کے قریب میٹرو ٹرین کی تعمیراتی سرگرمیاں روکنے کا حکم دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی راہ میں آنے والی ان عمارتوں کے قریب 2 سو فٹ کی حدود میں ہر طرح کی تعمیراتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے لیکن حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے اورسپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی بڑے سخت ریمارکس دے کر صاف صاف کہہ دیا ہے کہ تاریخی ورثوں کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے میں ثقافتی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے دو ماہرین کا کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ یہ کمیشن اورنج لائن منصوبے پر نیسپاک کی رپورٹ کا جائزہ لے گا جس میں کہا گیا تھا کہ منصوبے کی تعمیر کے دوران تاریخی عمارات اور ورثہ کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس کمیشن میں ڈیپارٹمنٹ آف آرکیالوجی کے پروفیسر رابن اور پرائیویٹ کنسلٹنگ انجیئنرنگ کمپنی شامل ہیں۔ کمیشن ایک ماہ میں عدالت کو رپورٹ دے گا۔

اگر نیسپاک کی رپورٹ بالکل درست ہے تو ٹھیک ہے ورنہ لاہور جیسے خوبصورت شہر کو میٹرو جیسی لیپا پوتی کرنے سے بہتر ہے اس کے ثقافتی حسن کو برقرار رکھا جائے۔ کیونکہ سادگی جیسی اصل خوبصورتی عارضی میک اپ سے آ ہی نہیں سکتی۔ ثقافت کی قبر پر جدت کا درخت لگانا کسی طرح سے عقملندی نہیں۔ میک اپ ضرور کریں لیکن صورت سنوارنے کے لئے ۔۔۔۔۔ اُسے بگاڑنے کے لئے ہرگز نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

عاطف اشرف

عاطف اشرف

عاطف اشرف میڈیا سٹڈیز میںPhDاسکالرہیں جوپچھلے 10 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مصنف ایکسپریس نیوز میں بطور پڑوڈیوسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔تحریر،تحقیق اور ویڈیوپروڈکشن میں گہری دلچسپی رکھنے والے یہ طالب علم میڈِیا کے موضوع پر جرمنی میں چھپنے والی ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ عاطف سے ٹویٹر پر#atifashraf7 جبکہ [email protected] پر آن لائن رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔