- آئی ایم ایف کا پاکستان کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں خرابیوں پر اظہارتشویش
- کراچی یونیورسٹی میں فلسطین سے اظہار یکجہتی؛ وائس چانسلر نے مہم کا آغاز کردیا
- کراچی میں شدید گرمی کے دوران 12، 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ، شہری بلبلا اٹھے
- کم عمر لڑکی کی شادی کرانے پر نکاح خواں کیخلاف کارروائی کا حکم
- جنوبی وزیرستان؛ گھر میں دھماکے سے خواتین سمیت 5 افراد جاں بحق
- آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا احتجاج ختم کرنے کا اعلان
- جوسز پر فیڈرل ایکسائز ٹیکس؛ خسارے کا سودا
- وزیراعظم کا اسٹریٹیجک اداروں کے سوا تمام ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا اعلان
- طبی آلات کی چارجنگ، خطرات اور احتیاطی تدابیر
- 16 سال سے بغیر کچھ کھائے پیے زندہ رہنے والی خاتون
- واٹس ایپ صارفین کو نئی جعلسازی سے خبردار رہنے کی ہدایت
- ممبئی میں مٹی کا طوفان، 100 فٹ لمبا بل بورڈ گرنے سے 14 افراد ہلاک
- غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں ہو رہی ، امریکا
- بولرز کی خراب فارم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
- محمد رضوان نے اپنی ’سادہ‘ فلاسفی بیان کردی
- شاہین سے بدتمیزی، افغان شائق کو اسٹیڈیم سے باہر نکال دیا گیا
- کامیاب کپتان بننے پر بابراعظم کو چیئرمین کی جانب سے شرٹ کا تحفہ
- بجٹ، بزنس فورم کی لسٹڈ کمپنیوں کیلیے کم ازکم ٹیکس ختم کرنے سمیت مختلف تجاویز
- پاکستان سے توانائی، ڈیجیٹل ٹرانسفرمیشن دیگرشعبوں میں تعاون کرینگے، عالمی بینک
- غیرملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھنے لگا
شان بڑھاتی کڑھائی۔۔۔
صنف نازک اپنے ملبوسات میں انفرادیت اور نئے پن کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔
اس حوالے سے روایت پسند خواتین کا دائرہ اور بھی محدود ہوتا ہے، کیوں کہ وہ روایتی پہناووں سے تجاوز کرنا پسند نہیں کرتیں، ورنہ جدید ملبوسات کی دلدادہ خواتین کے لیے تو طرح طرح کے کپڑوں کا میدان موجود ہوتا ہے، جس میں مغربی طرز کے ملبوسات سب سے زیادہ ہیں، جب کہ روایت پسند خواتین اپنے ملبوسات میں تراش خراش، رنگ، نقش ونگار اور بنت وغیرہ کے تغیر وتبدل کے ذریعے انفرادیت حاصل کرتی ہیں۔ ان میں مختلف طرح کے اُونی اور رنگ برنگے دھاگوں کی کشیدہ کاری وغیرہ شامل ہیں۔ انہی میں ایک ’ایمبرائیڈی‘ بھی ہے۔
جوں جوں زمانہ ترقی کر رہا ہے، توں توں ہاتھ سے کی ہوئی کشیدہ کاری کا فن دم توڑ رہا ہے۔ بازار میں بہت سارے ڈیزائن آئے اور چلے گئے، تاہم ایمبرائیڈری کا فیشن آج بھی روا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بات بلاخوف وتردید کہی جا سکتی ہے کہ کپڑوں میں جتنے بھی جدید انداز آجائیں یا پھر ہزاروں نئے فیشن متعارف ہو جائیں، ہمارے ہاں تب بھی کپڑوں پر ہونے والی کڑھائی یا ایمبرائیڈری کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی برصغیر پاک وہند کے ملبوسات کو روایتی انداز کی دیدہ زیب کڑھائیاں ہی دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ معروف ڈریس ڈیزائنر دیپک پروانی اس بارے میں بتاتے ہیں کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہر طرح کے لباس بنانے کے لیے ہمارے پاس ایمبرائیڈری کے سیکڑوں انداز ہیں۔ جب ہم اپنے ملبوسات کی دوسرے ممالک میں نمائش کرتے ہیں، تو لوگ ہمارے کپڑوں کو دیکھ کر بہت حیران ہو جاتے ہیں کہ ہمارے پاس کیسے کیسے ہنر ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے تخلیقی ذہنوں کی تعمیر میں ایمبرائیڈری کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
بہت سے ڈریس ڈیزائنر تو یہ تککہتے ہیں کہ ہمارے ملبوسات سے دیگر ممالک کے افراد صرف اس لیے متاثر ہوتے ہیں کہ ہم ایمبرائیڈری پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور ہمارے ملک میں اس فن کا چلن بہت زیادہ ہے، اس میں نت نئے طرز کے نقش ونگار بھی سامنے آتے رہتے ہیں، یوں دیکھنے والوں کو یک سانیت محسوس نہیں ہوتی۔ اسی طرح بہت سے طریقوں میں جب جدت اور روایت کا امتزاج ہوتا ہے، تو ہمارے منفرد ڈیزائن سامنے آتے ہیں۔
آج کل دیدہ زیب کڑھائیاں گرم ملبوسات پر اپنی بہار دکھا رہی ہیں، عام سے سوئیٹر، مفلر، شالیں اور جیکٹ وغیرہ بھی کڑھائی کے بعد بیش قیمت اور حسین لگنے لگتے ہیں، اگر یہ کڑھائی ہاتھ سے کی گئی ہو تو مزید دل فریب معلوم ہوتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔