حسد؛ ایک مہلک مرض

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی  جمعـء 10 فروری 2017
دنیا میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ انسان مسلسل تکلیف میں رہتا ہے۔ فوٹو : فائل

دنیا میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ انسان مسلسل تکلیف میں رہتا ہے۔ فوٹو : فائل

حسد کے اصطلاحی معنی، صاحبِِ نعمت سے نعمتوں کے چھننے کی تمنا کرنا ہے۔ حسد، انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اس کی ابتدا حضرت آدم ؑ کے بیٹوں سے ہوئی، جب اﷲ نے ہابیل کی قربانی کو قبول کیا تو قابیل غصے سے بے قابو ہوا اور بھائی کا خون کر بیٹھا۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اور صدقہ گناہ کو ایسے مٹا دیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔‘‘ (صحیح ، ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا : ’’ تم گمان سے بچو ، اس لیے کہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے، تم آپس میں حسد نہ کیا کرو، جاسوسی نہ کیا کرو، بغض نہ رکھا کرو، بے رخی نہ برتا کرو، دام بڑھانے کے لیے بولی نہ لگایا کرو، بل کہ اﷲ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘ (متفق علیہ)

حضرت زبیر بن عوامؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا : ’’ تم میں گذشتہ اقوام کی بیماریاں لوٹ آئیں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیں، بل کہ دین کا صفایا کردینے والی ہیں۔‘‘ (ترمذی )

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’عن قریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی، صحابہؓ نے پوچھا پہلی امتوں کی بیماریاں کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا، غرور، تکبر، کثرت حرص دنیا میں محو ہونا، ایک دوسرے سے بے زار رہنا، اور ایک دوسرے سے حسد کرنا، یہاں تک کہ بغاوت ہوگی ور پھر قتل بہت زیادہ ہوگا۔‘‘ (المعجم )

عبد اﷲ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتر کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’ ہر مخموم القلب اور صدوق اللسان، صحابہ کرامؓ نے کہا کہ صدوق القلب (زبان کا سچا) تو ہم جانتے ہیں، لیکن یہ مخموم القلب کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا وہ پاک، صاف، متقی شخص جس کے دل میں گناہ، بغاوت، خیانت اور حسد نہ ہو۔‘‘

(ابن ماجہ)

حضرت عقبہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا : ’’ مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے، البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزے میں پڑ کر حسد نہ کرنے لگو۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اﷲ تعالی کے بندے اور بھائی بھائی ہوکر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری)

ضمرہ بن ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ لوگ ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے، جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے۔‘‘ (طبرانی فی الکبیر )

حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا ہے۔ جب کہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے۔ لیکن رشک میں وہ نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے) سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چناں چہ حسد ایک منفی جب کہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ حسد (رشک) صرف دو چیزوں پر جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اﷲ تعالی نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اﷲ تعالی نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘

(صحیح بخاری، جلد اول، حدیث نمبر 1324)

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ حسد (رشک) صرف دو لوگوں پر ہے، ایک اُس شخص پر جسے اﷲ تعالی نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اﷲ تعالی نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے کہ کاش مجھے بھی یہ مال میسر آتا تو میں بھی اسے اسی طرح صَرف کرتا۔‘‘ (صحیح بخاری)

حسد دل کا خبث ہے۔ یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ دنیا میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ انسان مسلسل تکلیف میں رہتا ہے کہ جب بھی وہ اپنے دشمن یا دوست کو راحت میں دیکھتا ہے تو اس کا خون کھولتا ہے اور اس پر ہونے والی نعمتوں اور راحتوں کے چھننے کی تدبیریں سوچتا ہے اور جب اس سے کچھ بن نہیں پاتا تو دل میں کڑھتا رہتا ہے۔

ﷲ تعالیٰ حسد جیسی مہلک بیماری سے سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔