کاش! ہم نے بھی کبھی احتجاج کیا ہوتا

رئیس فاطمہ  ہفتہ 5 جنوری 2013

بھارت کی راجدھانی دلّی میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی 23 سالہ طالبہ بالآخر زندگی کی بازی ہار گئی۔ لیکن اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے نتیجے میں ایک تاریخ رقم کر گئی۔ اس اندوہناک حادثے پر بھارت کی سول سوسائٹی کا احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ وہاں نہ صرف جمہوریت مستحکم ہے بلکہ یہ بھی کہ وہاں سول سوسائٹی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتی ہے۔ بھارت کے ان گنت شہروں میں اس دل سوز واقعے پر بھرپور احتجاج ہوا اور حکومت کو اس کا فوری نوٹس لینا پڑا۔ بڑے بڑے نام ور اداکار، موسیقار، فلم میکرز اور دیگر طبقوں کے اہم لوگ سراپا احتجاج بن گئے۔ انھوں نے سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی تصاویر جلا ڈالیں۔

ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی اور پھر اس کی موت پر جس طرح بھارتیوں نے اپنا احتجاج درج کرایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اس سے پہلے بھی دو تین واقعات اسی طرح کے ہوئے تھے، جس میں ایک سیاستدان کے بیٹے نے ایک بار کے بند ہونے کے بعد وہاں اپنے غنڈہ دوستوں کے ساتھ جا کر شراب طلب کی تھی اور بار میں کام کرنے والی لڑکی نے جب یہ کہہ کر شراب دینے سے انکار کیا تو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں توڑ پھوڑ کی اور لڑکی کو فائرنگ کر کے مار دیا۔ اور وہاں سے فرار ہو گیا۔ کیونکہ وہ ایک وزیر کا بیٹا تھا۔ اس لیے اسے کوئی پرواہ نہ تھی۔ لیکن بھارت کی جنتا اس معاملے پر بھی سراپا احتجاج بن گئی۔

بالآخر مجرم کو سزا ہوئی۔ سیاست دان باپ کی وزارت کسی کام نہ آئی، کیونکہ عوام متحد تھے اور ان کے احتجاج پر نہ تو کسی نے اپنی سیاسی دکان چمکائی، نہ ہی عوام کے احتجاج کو اپوزیشن کا سوچا سمجھا منصوبہ بتایا گیا اور نہ ہی عوامی احتجاج میں کسی قسم کے روڑے اٹکائے گئے اور ان پر آنسو گیس چھوڑی گئی۔ ایک اور واقعے میں جو ممبئی میں رونما ہوا تھا، وہاں دیر سے رات گھر کو جانے والی ایک ماڈل کی جان غنڈوں نے لے لی۔ یہاں بھی سول سوسائٹی پیچھے نہیں رہی۔ احتجاج بھی ہوا اور مجرموں کو سزا بھی ہوئی۔ اس واقعے پر ایک فلم بھی بنائی گئی ’’نو ون کلڈ جیسیکا‘‘ (No one killed Jessica) اور اس میں جیسیکا کی بہن کا کردار ادا کیا تھا، سپر اسٹار رانی مکھرجی نے۔

یہ کوئی تفریحی فلم نہیں تھی، بلکہ ایک مقصدی فلم تھی کہ ایسی فلمیں بنانے کی ہمت بھی بھارتی فلم ساز ہی کر سکتے ہیں اور اس فلم نے کامیابی بھی خوب حاصل کی۔ کیونکہ اس واقعے کا تعلق ایک عام آدمی سے تھا۔ اسی طرح ایک فلم میں وزیر کے بیٹے کی غنڈہ گردی کو بھی سلور اسکرین پر منتقل کیا گیا۔ لیکن نہ تو ان فلموں پر پابندی لگی اور نہ ہی ان کے رائٹر، پروڈیوسر اور اداکاروں کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ وہ ایک جمہوری سوسائٹی ہے۔ دو روز قبل خاتون سے زیادتی کے اعتراف پر کانگریس کے رکن پارلیمنٹ بکرم سنگھ برہما کی خواتین نے جوتوں سے پٹائی کی، رسوا کیا، پولیس نے انھیں تفتیش کے لیے گرفتار کر لیا۔

کیا ہمارے ہاں اس کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حقوق نسواں کی پاسداری کرنے والی تنظیموں اور این جی اوز کو اس معاملے میں ساتھ دینا چاہیے تھا۔ کم از کم اس طالبہ کے لیے شمعیں تو روشن کی جا سکتی تھیں کہ معاملہ عورتوں کے ساتھ زیادتی اور استحصال کا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی عورت بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ مجھے امید تھی محترمہ کشور ناہید سے کہ وہ کم از کم اس احتجاج میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں گی۔ کیا کریں ہم تو بہت دور ہیں لیکن ان کی ایک آواز پر بہت سی خواتین ہی نہیں مرد حضرات بھی اکٹھے ہو جاتے کہ عورت سب کے لیے قابل احترام ہے۔ مہیش بھٹ نے بڑی اچھی بات کہی کہ’’ تمام مندروں کو بند کر دو، جہاں تم خواتین کو بھگوان سمجھ کر پوجتے ہو۔‘‘

زیادتیاں تو ہمارے ملک میں اس سے زیادہ ہوتی ہیں، لیکن اجتماعی احتجاج نہیں ہوتا۔ انتہا پسندوں اور شدت پسند مذہبی جماعتوں نے سوسائٹی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پہلے کراچی میں سول سوسائٹی کے لوگ احتجاج میں سب سے آگے رہتے تھے۔ طلبہ کا آمروں کے خلاف احتجاج تاریخ کا حصہ ہیں۔ لاہور بھی کبھی پیچھے نہیں رہا۔ لیکن افسوس کہ اب دونوں شہروں میں طالبان اور انتہا پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور اربن وڈیروں سمیت سول سوسائٹی خاموش ہے۔ ملالہ کے نام پر کالج کو خطرات لاحق ہیں، کیونکہ ہماری تمام سابقہ حکومتوں نے اپنی اپنی اننگز کھیلنے اور اس کو طول دینے کے لیے طالبان اور انتہا پسند مذہبی جماعتوں کا ساتھ مانگا ہے اور بدلے میں انھوں نے وہ طاقت حاصل کر لی ہے کہ ملک کی معیشت کو سنبھالنے اور صنعتی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے بھارت کو انھی مذہبی جماعتوں خصوصاً دفاع پاکستان کونسل کے احتجاج کے ڈر سے پسندیدہ ملک قرار دینے سے ہچکچا رہے ہیں اور شدت پسندوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں خواتین کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ بے شمار لڑکیوں کے چہرے تیزاب پھینک کر جلا دیے گئے، کیا ہوا ان مجرموں کے ساتھ؟ کیا کوئی سزا ملی؟ فاخرہ کا کیس سب کے سامنے ہے، مجرم مکھن میں سے بال کی طرح نکل گئے کہ وہ مظفر گڑھ کے با اثر سیاست دان کے فرزند ہیں۔ جن کی سپورٹ کی ضرورت ہر حکومت کو ہوتی ہے۔ بے شمار عورتوں کو نواب پور، محراب پور اور دیگر قصبوں اور شہروں میں بے لباس گھمایا گیا، کوئی مولوی، کوئی عالم دین، اس زیادتی کے خلاف کھڑا ہوا؟ حد تو یہ ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلی کی خواتین اراکین نے بھی کبھی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز نہیں اٹھائی، کیونکہ اسمبلیوں میں ان کا وجود محض شو پیس کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ ساٹھ برسوں سے مسلط سیاسی خاندان، جاگیردار، سردار اور وڈیروں نے اپنے اپنے خاندانوں کی خواتین کو اس لیے اسمبلیوں کی زینت بنایا ہے کہ کہیں متوسط اور پڑھے لکھے طبقے کی خواتین کامیاب نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ان سب نے سیاسی گٹھ جوڑ کر کے رشتے دار عورتوں کو یہاں مسلط کر دیا ہے تا کہ ان کی سکھا شاہی برقرار رہ سکے۔

پاکستان میں ہر روز عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ بے شمار عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن کوئی احتجاج نہیں کرتا، حتیٰ کہ ایسے کیس نہ رجسٹر ہوتے ہیں نہ ہی ان کی ایف آئی آر کٹتی ہے۔ کیونکہ ہر دو صورتوں میں متاثرہ خاتون کے گھر والوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ ہمارے علماء صرف زبانی کلامی یہ دعوے کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو بہت حقوق عطا کیے ہیں، لیکن طبقاتی، قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرے میں ان حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بھارت میں جس لڑکی کا چہرہ کچھ لوگوں نے تیزاب سے جلایا تھا۔ وہ گھر میں منہ چھپا کرنہیں بیٹھی بلکہ اپنے جھلسے ہوئے چہرے کے ساتھ امیتابھ بچن کے مقابل ہاٹ سیٹ پر بیٹھی کثیر انعامی رقم جیت کر گئی جو اس کے علاج معالجے پر خرچ ہو گی۔

نئے سال کی آمد پر میں دعا کرتی ہوں کہ کاش! کراچی کا اصلی چہرہ پھر لوگوں کے سامنے آ جائے، لاہور میں سول سوسائٹی خواب غفلت سے بیدار ہو اور ان دونوں شہروں کے مہذب شہری خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر سراپا احتجاج بن جائیں۔ آبرو ریزی اور تیزاب پھینکنے کے مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے۔ علماء جو اپنی تخلیق کردہ جنت میں رہتے ہیں وہ بھی اس جہاد میں شریک ہوں کہ جس طرح انھوں نے ان تمام چیزوں کو اپنے لیے حلال کر لیا ہے جنھیں کبھی وہ حرام قرار دیتے تھے۔ کیونکہ اس میں ان کا ذاتی فائدہ تھا۔ اسی طرح ذاتی فائدے سے ہٹ کر ان خواتین کے لیے بھی کوئی کلمہ حق ادا کریں جس کا حکم ہمارا مذہب دیتا ہے۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو یقینا ان کا ووٹ بینک بھی بڑھ سکتا ہے۔

عورت جس نے انسان کو جنم دیا، جس کے دم سے یہ دنیا آباد ہے، اس کا اتنا تو حق ہے کہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کیا جائے۔ یاد رکھیے احتجاج صرف زندہ قومیں کرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔