لندن سے آداب عرض

رفیع الزمان زبیری  منگل 28 فروری 2017

یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا اور اس کے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ اسی دن آغا محمد اشرف ہندوستان سے انگلستان روانہ ہوئے۔ ان کا جہاز اب نہر سوئز کے راستے نہیں جاسکتا تھا۔ جنوبی افریقا کا چکر کاٹ کر جانا تھا۔ یہ چودہ دن میں کیپ ٹاؤن پہنچے اور کوئی ایک ماہ بعد انگلستان کا ساحل نظر آیا۔

آغا اشرف لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں اردو کے استاد کی حیثیت سے گئے تھے۔ لڑائی کی وجہ سے ان کا کالج کیمبرج چلا گیا تھا، اس طرح انھیں کیمبرج اور لندن دونوں یونیورسٹیوں کا تجربہ ہوگیا۔ یہ بس ایک سال وہاں رہے اور پھر بی بی سی کے ہندوستانی شعبے میں بلالیے گئے۔ ریڈیو کی نشریات سے پھر وابستہ ہوگئے۔ دہلی میں بھی کچھ وقت ریڈیو میں گزارا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’بی بی سی میں میری زندگی کو بیک وقت بہت سی چیزوں کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔

اخبار نویس، مصنف، استاد، طالب علم، مترجم، داستان گو، پرچہ نویس، واعظ، غرض وہ کون سی بات ہے جو میں نہیں کرتا تھا، بادشاہ سلامت سے لے کر کارخانے میں کام کرنے والے مزدور تک سے ملاقات کرنا میرا فرض تھا۔ اگر صبح میں ہاؤس ان کامنز میں بیٹھا برطانیہ کے وزیروں کی تقریریں سنتا ہوں تو شام کو ہندوستانی سپاہیوں سے کھود کھود کر ان کے تجربے معلوم کرتا تھا۔ ان گوناگوں اور رنگارنگ تجربوں کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ شاید اس قسم کی زندگی بسر کرنے کا موقع انگلستان میں بہت کم ہندوستانیوں کو ملا ہوگا۔ اگر میں اپنے سارے تجربات اور دلچسپ واقعات لکھنے بیٹھوں تو شاید ایک کتاب بن جائے۔

اور یہ کتاب بن بھی گئی، اگرچہ پوری داستان تو نہیں ہے مگر جو کچھ ہے وہ دلچسپ ہے۔ اس کتاب کا عنوان ہے ’’لندن سے آداب عرض‘‘ اب کوئی 80 سال بعد کراچی سے راشد اشرف نے اسے مرتب کرکے شایع کیا ہے۔ بھولی بسری داستانوں کو نئے سرے سے مرتب کرکے شایع کرنا ان کا کام ہے۔آغا محمد اشرف کا دلی کے ادبی گھرانے سے تعلق تھا، وہ مولانا محمد حسین آزاد کے پوتے تھے۔ بقول اسلم فرخی ادب کی دولت انھیں ورثے میں ملی تھی، قدرت نے انھیں غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازاتھا، آواز کی دنیا کے سر بر آوردہ لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

آغا اشرف جون 40ء کے آخر میں کیمبرج سے بی بی سی میں آگئے، وہ ہندوستان میں بی بی سی سننے والوں کے لیے پروگرام کرتے تھے، انھیں دنیا بھر میں ہونے والے واقعات و حالات سے آگاہ کرتے تھے، جنگ کا زمانہ تھا، برطانیہ جرمنی سے برسر پیکار تھا، لندن پر بموں کے حملے ہورہے تھے، پورے ملک میں بلیک آؤٹ تھا، فوجیں آجارہی تھیں، محاذ یورپ سے لے کر ایشیا کے آخری کونے تک کھلے تھے اور اس سب کے ساتھ لندن میں زندگی رواں دواں تھی، کون سا کام بند تھا۔

بی بی سی میں آنے کے کچھ ہی دن بعد ایک دن خبر آئی کہ بادشاہ سلامت ان کے دفتر کا دورہ کریںگے۔ ان کی کتاب میں ان کے جو مضامین ہیں وہ ان کے نثری مراسلے ہیں، جو وہ خود پڑھ کر سناتے تھے۔ بادشاہ کی آمد کا حال ان کی زبان سے سنیے۔ ’’اطلاع ملی بادشاہ سلامت چند منٹ میں تشریف لانے والے ہیں، ایک فوٹو گرافر پہلے سے تصویریں لینے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اتنے میں دروازہ کھلا، میری میز بالکل دروازے کے سامنے ہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک بانکا، سجیلا جوان فیلڈ مارشل کی وردی پہنے دروازے میں کھڑا مسکرا رہا ہے۔ یہ ہمارے بادشاہ سلامت تھے۔

بھلا سلطنت کا کون باشندہ ہے جو انھیں نہیں پہچانتا۔ ان کے بالکل برابر ہماری ملکہ معظمہ کھڑی تھیں‘‘ (یہ نہ بھولیے کہ اس وقت یہ برطانیہ ہی کے نہیں ہندوستان کے بھی بادشاہ سلامت تھے) پارلیمنٹ میں ہندوستان پر بحث ہونے والی تھی۔ آغا اشرف اسے دیکھنے گئے اور پھر اپنے سننے والوں کو اس کا حال سنایا۔ ہاؤس آف لارڈز میں بھی گئے۔ دو باتیں خاص نظر آئیں ایک یہ کہ کوئی عورت ممبر نہیں ہے اور دوسری یہ کہ 98 فیصد ممبر ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے تھے۔

پارلیمنٹ میں جس دن چرچل نے تقریر کی تو اس کا آنکھوں دیکھا حال بھی انھوں نے اسی وقت آکر سنایا۔ ہندوستان کے ایک سابق واسرائے لارڈ ولنگڈن کو دفن کرنے کی رسم میں اپنی شرکت کا حال یوں سنایا ’’یوں تو بہت سی خوشی اور غمی کی رسمیں مجھے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن جو متانت، سنجیدگی اور دبدبہ میں نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کی یاد مدت تک میرے دل میں باقی رہے گی‘‘۔

ان دنوں لندن میں حالات کیا تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے، اپنی ایک رپورٹ میں وہ بتاتے ہیں ’’دھائیں دھائیں توپیں چلنا شروع ہوگئیں، پورے آٹھ بجے سے جرمن ہوائی جہاز ہمارے سروں پر منڈلارہے تھے بہت دور کبھی کبھی بم پھٹنے کی آواز آجاتی تھی۔ ہمارے مکان پر سے زائیں زائیں دشمن کے سلیٹی والے بم گزر رہے تھے۔ کھڑکی کا پردہ ہم نے شام ہی سے کھینچ لیا تھا اور لیمپ پر کاغذ لگاکر روشنی بہت مدھم کرلی تھی۔ یکایک قریب ہی ایک بم آکر پھٹا، سارا کمرہ ہل گیا جیسے زلزلہ آگیا، کھڑکی کا ایک شیشہ ٹوٹ کر زمین پر پٹاخ سے گرا‘‘۔

آغا اشرف نے برطانوی شخصیتوں سے اپنی ملاقات کا حال بھی لکھا ہے۔ جن دنوں وہ ہندوستانی بچوں کے لیے ایک پروگرام کررہے تھے ان کی ملاقات لارڈ ویول سے ہوئی جو واسرائے سے ہوکر ہندوستان جانے والے تھے، لارڈ ویول نے ان سے کہا، اپنے سننے والے بچوں سے میری طرف سے کہہ دیجیے کہ جہالت کے مورچہ پر تیزی سے کام کیے جائیں، ایک دن کامیاب ہوںگے۔ آغا اشرف نے وزیر ہند، مسٹر ایمبرے سے بھی ملاقات کی۔ وہ اردو ہی نہیں کچھ فارسی اور عربی بھی جانتے تھے۔

اشرف کے کہنے پر انھوں نے حافظ شیرازی کا ایک شعر پڑھا اور پھر سورۂ فاتحہ بھی پڑھ کر سنادی۔’’لندن سے آداب عرض‘‘ میں آغا اشرف کے کئی اور مضمون شامل ہیں لندن میں گزرے، اپنے چار سال کا احوال ہے، کچھ شخصیتوں کے خاکے ہیں، ایران کے سفر کا حال ہے، کچھ بھولی بسری یادیں ہیں۔

یہ یادیں انصار ناصری کے حوالے سے ہیں، جومیر ناصر علی کے پوتے تھے اور ان کے عربک کالج دہلی کے ساتھی ان میں ذکر میر صاحب کی علم دوست شخصیت کا زیادہ ہے، لندن آنے کے بعد آغا اشرف لکھتے ہیں ’’تقریباً چھ مہینے تک میری زندگی کالج، کتب خانے اور گھر کی چار دیواری تک محدود رہی، بالآخر ایک دن وہ بھی آیا کہ میں اپنی اس زندگی سے اکتا گیا، کتب خانہ اور اس کی کتابیں مجھے بھیانک صورتیں معلوم ہونے لگیں۔ میں نے گھبراکر اپنی مالکہ مکان سے کہاکہ میں ناچنا چاہتاہوں، اسے میری اس خواہش پر ذرا تعجب ہوا لیکن اسی روز تیسرے پہر گراموفون کی مدد سے بڑھیا نے مجھے ناچ کا پہلا سبق دے دیا‘‘۔

کتاب میں خود آغا محمد اشرف کا ایک خاکہ ان کے بڑے بھائی آغا محمد باقر کا لکھا شامل ہے، وہ لکھتے ہیں ’’ابتدا ہی سے ان میں ایسی خوبیاں نظر آتی تھیں جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں اور ان کے شاندار مستقبل کا پتا دیتی تھیں وہ صاف دل، محنتی اور مخلص انسان تھے، مطالعہ کے ساتھ انھیں تصنیف و تالیف کا بھی شوق تھا‘‘۔

آغا اشرف کے بھتیجے آغا سلمان باقر نے ’’میرے چچا آغا اشرف‘‘ کے عنوان سے ان کے بارے میں اپنی یادوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں اپنے بچپن کے زمانے کی میری چچا اشرف سے وابستہ یادیں صرف سات سال کی عمر تک کی ہیں۔ یہ یادوں کے ننھے ننھے دیے ہیں جو آج بھی اسی طرح فروزاں اور روشن ہیں کہ جیسے ایک چھوٹے سے بچے کے دل اور دماغ پر نقش ہوتے ہیں۔ آج ساٹھ برس کی عمر میں میرے ذہن میں چچا اشرف کی یہ یادیں یوں تا زہ ہیں جیسے بالکل کل کی بات ہو۔ راشد اشرف کی خواہش پر ان کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کا چہرہ میرے سامنے مسکرارہا ہے اور ان کے گالوں پر پڑنے والا گڑھا اسی طرح نظر آرہاہے کہ جیسا کہ وہ ہوا کرتا تھا۔

آغا محمد اشرف ایک آئیڈیل شخصیت اور اچھے انسان تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔