ہم الزام ان کو دیتے تھے

رئیس فاطمہ  بدھ 9 جنوری 2013

طاہر القادری صاحب کیا آئے، بھونچال آگیا، ایوان لرزنے لگے، پرانی دشمنیاں بھلا کر لوگ پھر گلے ملنے لگے، نئے اتحاد بننے لگے۔ میڈیا کو بہت عرصے بعد کوئی کردار ایسا ملا جس نے ہلچل مچا دی۔ورنہ تو بعض بڑے لوگوں کے اسکینڈلوں کے بعد بڑا سناٹا تھا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قادری صاحب کے آنے سے عام آدمی کی زندگی میں تو کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ گزشتہ ساٹھ سال سے مختلف ادوار میں اقتدار پر قابض سیاست دانوں کی نیندیں انھوں نے ضرورحرام کردیں اور ایک بار پھر نواز لیگ اور پی پی کو آپس میں گلے ملا دیا۔ دونوں کا ٹارگٹ ایک۔۔۔۔پھر کیوں نہ گلے ملتے؟ الیکشن تو نام ہی اس کا ہے کہ وقت پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑے تو ضرور بناؤ۔

عام تاثر یہی ہے کہ قادری صاحب الیکشن ملتوی کرانے آئے ہیں اور اسی لیے سیاسی پارٹیوں کے کارندے انھیں برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں کہ پانچ سال کی اس ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے بعد جس نے پیپلز پارٹی کو کھل کر کھیلنے اور اصل عوامی مسائل کی طرف سے آنکھیں چرانے میں مدد کی، اسے یہ پچھتاوا ضرور ہو رہا ہے کہ کاش! اس نے واقعی ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہوتا اور میوزیکل چیئر میں ملنے والی باری کا انتظار نہ کیا ہوتا تو شاید آج طاہر القادری جلوہ فرما نہ ہوتے۔

دراصل سارا واویلا الیکشن کا ہے۔ اس الیکشن کا جس کے بعد وہی پرانے چہرے اور وہی فرسودہ نظام ہمارا مقدر بننے والا ہے جو موروثی سیاست پر کھڑا ہے جو چیخ چیخ کر گلے میں لاؤڈ اسپیکر فٹ کرکے الیکشن کے التواء کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں، یہ وہی ہیں جو اپنی باری پوری کرچکے اور اب اپنی اولاد کو ہم پر مسلط کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ ایک ایسی چراگاہ میں رہتے ہیں جہاں ان کے بزرگوں نے برسوں سرسبز کھیت کھلیان برباد کیے اور جو کچھ بچا کھچا رہ گیا ہے اسے اپنی اولاد کے لیے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔

اس سر سبز چراگاہ سے باہر جو سوکھا پڑا ہے، جہاں نہ پانی ہے نہ کھاد، نہ بیج وہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام کا مقدر ہے۔ یہ چاہے گھانس کھائیں یا بھوکے مریں، چراگاہ کو روندنے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ کیونکہ ان کے امیر باپوں نے بیرون ملک ان کے لیے نئی نئی چراگاہیں بنوائی ہوئی ہیں۔ لیکن ننگے، بھوکے اور لاچار لوگوں پر حکومت کرنے کا اپنا ہی نشہ ہوتا ہے۔ وہ کسی دوسرے ملک میں ان کو نہیں مل سکتا۔ اسی لیے ان کے لیے الیکشن کا التواء موت اور زندگی کا سوال ہے۔

جس طرح دو نمبر کے لوگ پیسے کے بل بوتے پر ادب میں گھس بیٹھتے ہیں، کہ پیسہ شناخت نہیں دیتا ادب دیتا ہے۔ اسی طرح یہی ناجائز ذرایع سے کمایا جانے والا کالا دھن الیکشن لڑنے کا موقع دیتا ہے۔ اسی لیے سارا واویلا اور شور قادری صاحب کے لیے وہیں سے آرہا ہے جن کے سپوت الیکشن کی گھڑ دوڑ کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ عام آدمی کا کیا لینا دینا؟

جمہوریت کا راگ الاپنے والے اور اپنے لیڈر کا دفاع کرنے والے سیاسی کارکن ذرا یہ تو بتائیں کہ ان کی جماعتوں میں الیکشن کب ہوئے، تمام پارٹیوں میں صرف ایک ایک نام گونجتا ہے۔ ہر جگہ وراثت ہے۔ ان پارٹیوں کے لیڈروں نے کبھی الیکشن نہیں کروائے نہ ہی کروائیں گے، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اقتدار کا تاج سر پہ ہرگز نہ رہے گا۔ وہ بھی اس صورت میں جب خفیہ رائے دہی ہو، اور ایسا یہ جماعتیں کبھی کریں گی نہیں، پیپلز پارٹی ہمیشہ بھٹو کی پارٹی رہے گی۔ البتہ اب یہ آصف زرداری بھٹو کی پارٹی ہے۔ کل بلاول اور بختاور کی ہوگی۔ لیکن فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی کبھی نہیں ہوگی۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ نواز لیگ، ایم کیو ایم، (ق)لیگ، نیپ، تحریک انصاف، سب ایک ایک نام پر کھڑی ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟اور اسی کی دہائی دی جارہی ہے جسے قادری صاحب سبوتاژ کرنے آئے ہیں؟

ذرا سچے دل اور ایمان داری سے سوچیے تو قادری صاحب کی بات غلط نہیں ہے۔ یہ چھوڑ دیجیے کہ وہ کس مقصد سے تشریف لائے ہیں اور ان کے پیچھے کون سی خفیہ طاقتیں ہیں۔ یہ دیکھیے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں کیا وہ سچ نہیں ہے۔ مفکرین نے کہا ہے کہ ’’یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ اس لحاظ سے قادری صاحب کی باتیں بالکل درست لگتی ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ دن بدن ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ دراصل انھوں نے اپنی تقریر اور مطالبات سے ایک خلاء کو پر کیا ہے ۔ بہت عرصے سے لوگ اس سسٹم اور کرپٹ سیاستدانوں کی چالوں سے نالاں ہیں۔ وہی گھسے پٹے فرسودہ بیانات، وہی بازیگری اور عوام کو بے وقوف بنانے کے ہتھکنڈے۔

جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنے کی ڈھٹائی۔ پانچ سال میں ملک کو بے روزگاری، غربت، سی این جی کی بندش، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ہوشربا مہنگائی، میرٹ کا قتل عام، رشوت ستانی کی بھرمار، کرپشن کی کہانیاں عام لیکن بے غیرتی یہ کہ برملا اس پر فخر۔۔۔۔۔اور اب آنے والے الیکشن کے لیے پھر وہی فرسودہ اور گھسے پٹے نعرے، وہی روٹی کپڑا اور مکان کے کھوکھلے نعرے، وہی عوامی خدمت کے جھوٹے دعوے، وہی راگ ’’ہم اقتدار میں آکر عوام کی قسمت بدل دیں گے، عوام کو چور اور لٹیروں سے نجات دلائیں گے، لوٹا گیا مال واپس لائیں گے‘‘وغیرہ وغیرہ۔ عام آدمی یہ احمقانہ اور حقیقت سے کوسوں دور نعرے سن سن کر اکتا چکا ہے۔ اسی لیے ایمان دار اور مخلص قیادت کا جو خلاء پیدا ہوگیا تھا، اسے طاہر القادری نے پر کردیا۔

لوگ سوچنے لگے کہ جب اپنے اقتدار اور باری کی خاطر (ن) لیگ نے عام آدمی کی پرواہ نہ کی اور ان قوتوں کا ساتھ دیا جنہوں نے ان کے ساتھ دغا کی اور حلف کی بھی پرواہ نہ کی۔ تو لوگ مایوس ہوگئے، ایسی تاریکی میں کہ جب طاہر القادری کی آواز گونجی تو لوگ چوکنا ہوگئے، بہتوں نے سنی ان سنی کردی اور بہتیرے کروٹ بدل کر دوبارہ سوگئے۔ لیکن کچھ حساس اور باشعور لوگوں کے کان کھڑے ہوئے۔ انھوں نے سوچا کہ پانچ سال میں ملک پر کیا کیا عذاب نازل نہ ہوئے، ڈالر سو روپے کا ہوگیا، خودکشیوں، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، بم دھماکوں اور مذہبی انتہا پسندی کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ محلاتی سازشیں عروج پر ہیں، بڑے بڑے بتوں کی خریداری کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی، کیونکہ عوامی مسائل کا حل کسی بھی حکومت کے ایجنڈے میں کبھی شامل نہ رہا۔ ایسی بھیانک صورت حال میں اکثریت کو قادری صاحب کی بات میں وزن نظر آیا۔ انھیں الزام دینے والے پہلے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نظر ڈالیں تو خود کو ہی قصور وار پائیں گے۔

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

آخر قوم کو اس حالت میں پہنچانے کے ذمے دار کون ہیں؟ اور کیا یہ عوام کو حق نہیں کہ وہ جس کی بات میں وزن محسوس کریں اس کا ساتھ دیں؟ کہ یہی تو جمہوریت ہے نا کہ موروثی اور فرد واحد کی سیاست کا استحکام۔ اس وقت صحیح معنوں میں ریاست بچانے کی ضرورت ہے کہ ہم بیرونی دنیا میں بہت بدنام ہوچکے ہیں۔ اس حد تک جہالت ہمیں لے گئی ہے کہ پولیو زدہ قوم پیدا کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ کیا ہے ہماری پہچان؟ مذہبی انتہاپسندی، دہشت گردی، جھوٹ، منافقت، کھوکھلے نعرے، موروثی سیاست پر لولی لنگڑی جمہوریت کا تاج، جہالت اور پولیو زدہ نئی نسل کے وارث۔۔۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔