محنت کش خواتین کی مسلسل جدوجہد

ایم اسلم کھوکھر  جمعرات 9 مارچ 2017

1917 میں روس میں برپا ہونے والے انقلاب کے قائد لینن نے کہا تھا کہ کوئی انقلابی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، جب تک اس انقلابی تحریک میں باشعور خواتین شریک نہ ہوں۔ چنانچہ  لینن کے اس قول کی صداقت یوں ثابت ہوئی کہ روس کی محنت کش خواتین نے رشیا وومن ٹیکسٹائل ورکرز یونین کے زیر اہتمام ایک بہت بڑا احتجاج منظم کیا۔ ان محنت کش خواتین کا وہ احتجاج اس قدر بھرپور تھا کہ گویا وہ احتجاج زار شاہی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ انقلاب روس میں بھرپور شرکت واحتجاج کی یہ گویا ایک مثال ہے مگر سچائی یہ ہے کہ جب جب استحصال ہوا ہے محنت کش خواتین نے تب تب اس استحصال کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

البتہ یہ بات دیگر ہے کہ مرد قلم کاروں نے خواتین کی جدوجہد کوباضابطہ تحریر میں لانا پسند نہیں کیا مگر حقیقت یہی ہے کہ محنت کش خواتین نے اپنے حقوق کے حصول و مختلف سماجوں میں تحاریک منظم کی ہیں اور اس احتجاج کا آغاز 1789 کے فرانس میں برپا ہونے والے انقلاب کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ فرانس کی محنت کش خواتین نے صنعتی ماحول میں ہونے والے استحصال کے خلاف بار بار احتجاج کیا جب کہ 1820 میں انگلستان کی گارمنٹس صنعت سے وابستہ محنت کش خواتین نے مناسب اُجرت کے حصول کام کے دوران بہتر ماحول وکام کے اوقات کارکم کرنے کے لیے بھرپورجدوجہد کا آغازکیا۔ ان محنت کش خواتین نے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ ان کے کام کے ایک دن میں 10 گھنٹے کیے جائیں۔

انگلستان کی وہ محنت کش خواتین اپنے مطالبات منوانے میں توکامیاب نہ ہوسکیں البتہ دیگر شہروں میں صنعت سے وابستہ محنت کش خواتین کو احتجاج کا راستہ اختیارکرنے کا سبق پڑھادیا۔ یہی سبب تھا کہ اسی دوران مانچسٹر میں روئی کی مل کی محنت کش خواتین نے ایک زبردست احتجاج کا اہتمام کیا۔ان خواتین کے مطالبات یہ تھے کہ ان کے کام کے گھنٹے کم کیے جائیں۔

دوئم ان کی اجرت میں اضافہ کیا جائے ان خواتین پر یہاں تک جبر ہوتا کہ باوجود اس کے کہ کام کا وقت صبح سات بجے شروع ہوتا مگر ان خواتین کو صبح کاذب یعنی پانچ بجے کام پر لگادیا جاتا کیونکہ مل انتظامیہ کا موقف یہ تھا کہ اگر کام کرنے والی خواتین ناشتہ کھاکر کام شروع کریںگی تو ان خواتین کی کام کی رفتارکم ہوجاتی ہے یعنی وہ خواتین کام میں سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جب کہ ان خواتین کے استحصال کی دوسری شکل یہ تھی کہ ان خواتین سے 81 گھنٹے ہفتہ وار کام لیا جاتا مگر ان کو ملنے والی اجرت تھی 3 ڈالر فی ہفتہ ۔ ان 3 ڈالر میں سے بھی 1.5ڈالر ان محنت کش خواتین کو دی گئی، رہائش کی سہولت کے عوض وصول کرلیے جاتے چونکہ یہ خواتین غیر منظم تھیں چنانچہ ان خواتین کو کام پر واپس آنا پڑا۔

البتہ 1936 میں ایک بار پھر ان خواتین کی شروع کی گئی جدوجہد ناکام ثابت ہوئی مگر 1844 میں ایک بھرپور جد وجہد کے نتیجے میں ان خواتین کو چند سہولیات ضرور حاصل ہوگئیں جب کہ امریکا کی تاریخ میں گارمنٹس کی صنعت سے وابستہ محنت کش خواتین نے لیڈیزگارمنٹ یونین کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور کام کے دوران بہتر ماحول کے لیے جد وجہد کی یہ تذکرہ ہے 1900 کا۔ کیونکہ اس وقت کام کے دوران ایسا ماحول ہوتا تھا جیسے کہ عصرِحاضر میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش ودیگر ایشیائی ممالک کا۔ جب کہ 1903 میں نیشنل وومن ٹریڈ یونین لیگ قائم ہوئی۔

اس تنظیم کے لوگ ہر اس جدوجہد میں شریک ہوجاتے جو خواتین اپنے حقوق کے حصول کے لیے شروع کرتیں جب کہ ایک تنظیم شرٹ ویسٹ بنانے والی خواتین نے بھی قائم کی اور ٹرائنگل ویسٹ کمپنی میں بہتر حالات کے لیے ایک بھرپور  تحریک چلائی۔ یہاں تک ان محنت کش خواتین کو گرفتار کرکے عدالتوں تک میں پولیس والے لے جاتے۔ حالانکہ ان خواتین میں 13 سے 25 برس کی عمر کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ اگرچہ محنت کش خواتین کی جانب سے اپنے حقوق کے لیے کی جانے والی اس تحریک کو ریاستی جبر سے کچل دیا گیا مگر آنے والے وقتوں میں محنت کش خواتین کے لیے ان خواتین نے یہ پیغام ضرور چھوڑ دیا کہ خواتین بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے تحریک منظم کرسکتی ہیں۔

ہاں یہ ضرور ہوا کہ ٹرائنگل ویسٹ میں ایک برس بعد بد ترین آتشزدگی ہوئی جس کے باعث 146 خواتین اس آتشزدگی کی نذر ہوگئیں بالکل سانحہ بلدیہ علی انٹر پرائزز کراچی کی طرح جس میں 260 محنت کش خواتین وحضرات جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔ خواتین کی اتنی لازوال قربانیوں کے مد نظر رکھتے ہوئے 1910 میں ہونے والی سوشلسٹ انٹرنیشنل دوسری کانگریس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ خواتین پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف ایک دن عالمی سطح پر منایا جائے۔ یوں 1911 سے 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا جانے لگا اور یہ دن ہر برس 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔

اگر ہم پاکستان میں محنت کش خواتین کے حالات کا مشاہدہ کریں تو گویا خواتین کا ہر جگہ  استحصال دکھائی دیتا ہے حتی کہ پاکستانی خواتین ہنر اور محنت میں دنیا کی کسی بھی خاتون سے کم نہیں ہیں۔ صنعت سے وابستہ ان خواتین کو انتہائی قلیل اجرت حاصل ہوتی ہے جب کہ صنعتی ماحول بھی پر خطر ہوتا ہے جس کے باعث ہمہ وقت اندیشہ رہتا ہے کہ کوئی سانحہ نہ رونما ہوجائے جب کہ اکثر صنعتی ایریا میں خواتین ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتی ہیں جب کہ ٹھیکیداری نظام کا مطلب  ہے محنت کشوں کا مکمل استحصال۔اس سلسلے میں کئی بار آواز اٹھائی گئی مگر حکومتی سطح پر سوائے یقین دہانیوں کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔صنعتی ایریا کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد  گھریلو اور مزدور خواتین  کی بھی ہے ۔

ان محنت کشوں کا یہ وہ طبقہ ہے جوکہ تمام قسم کے حقوق سے محروم ہے۔ اگرچہ محنت کشوں کا یہ طبقہ بھی ایسی اشیا تیارکرتا ہے جوکہ مارکیٹ میں منافعے کے لیے فروخت کی جاتی ہیں ، گویا یہ طبقہ بھی صنعتی مزدور ہی ہے۔خواتین کے اس طبقے کو بھی اپنی محنت کا معقول معاوضہ نہیں ملتا،جو ملتا ہے ہو اتنا قلیل ہوتا ہے کہ گھر کا خرچ ہی بمشکل پورا ہوتا ہے۔ محنت کشوں کا گھر مزدور طبقہ مرہون منت ہوتا ہے اس ٹھیکیدارکا جوکہ فیکٹری سے سامان لاکر دیتا ہے اور قلیل معاوضے کے عوض مال تیارکرواتا ہے ان گھر مزدوروں کی تعداد ہے ۔ ایک کروڑ اسی لاکھ ان میں اکثریت خواتین کی ہے ۔

اچھی خبر یہ ہے کہ ان محنت کش گھر مزدوروں کے لیے وزیراعلیٰ سندھ  مراد علی شاہ نے نومبر 2016 کو ایک پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ پالیسی بل کی شکل میں جلد سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس کی منظوری کے بعد یہ گھر مزدور محنت کش بھی صنعتی مزدوروں کے مساوی حقوق کے حق دار ہوںگے۔

اس گھر مزدور پالیسی کو منظورکروانے میں اگرچہ ایک جانب سینیٹر سعید غنی کی کاوشوں کا عمل دخل ہے جس کے لیے وہ قابل تحسین ہیں تو دوسری جانب ہوم بیسیڈ ورکرز وومن فاؤنڈیشن (HBWWF) کی خواتین کا بھی اہم کردار ہے جنھوں نے اپنی رہنما سماجی خاتون  زہرا خان کی قیادت میں ایک تحریک منظم کی اور گھر مزدور محنت کش خواتین کے لیے ایک طویل جد وجہد کی یوں گھر مزدوروں کے لیے ایک پالیسی حکومت سندھ نے منظور کی۔ جب کہ سندھ اسمبلی سے یہ پالیسی امید ہے بل کی شکل میں جلد پاس ہوجائے گی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج خواتین بیدار ہوچکی ہیں اور امید ہے کہ خواتین پرامن جد وجہد سے جلد اپنے حقوق حاصل کرلیںگی وہ حقوق جومردوں کے مساوی ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔