اقتدار کی غلام گردشوں میں ہلچل

رئیس فاطمہ  اتوار 13 جنوری 2013

اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک بار پھر ہلچل پیدا ہوچکی ہے،کٹھ پتلیوں کی ڈور جن کے ہاتھ میں ہے، وہ بھی کچھ فکرمند نظر آتے ہیں۔ بددیانت لوگوں کو ایک بار پھر اس چھتری کی ضرورت پڑگئی ہے۔ جو اقتدار کا تاج سر پر رکھنے کے بعد اس تاج کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ حالانکہ اب کچھ نیا نہیں ہونے جارہا، وہی کھیل جو بار بارکھیلا جاتا رہا ہے، شکاری پرانے ہیں البتہ جال نیا ہے۔ اس جال میں بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا چارہ لگایا گیا ہے۔

جو پہلے بھی ان کا تھا آج بھی ان کا ہے اور آئندہ بھی ان ہی کا رہے گا۔ عوام صرف کھوکھلے نعرے میں ہی خوش ہوجاتے ہیں۔ اقتدار کا وہ کھیل جس کے نتائج سب کو معلوم ہیں، اس دفعہ کیا کچھ نیا نتیجہ سامنے لائے گا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر الیکشن پر جوکہ اصل میں سلیکشن ہوتا ہے اتنا پیسا خرچ کرنے کی اور ایک بے مقصد ڈرامے کے لیے اسٹیج سجانے کی کیا ضرورت ہے؟ لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور فرشتے ان کے ووٹ ڈال آتے ہیں۔

گزشتہ پانچ سال میں گڈ گورننس کے کارنامے طشت ازبام ہیں۔ کوئی ایک کارنامہ ہو تو گنوایا جائے، اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کی اسکرین ان کارناموں سے لبریز ہیں۔ اسی لیے اب لوگوں کی حالت یہ ہے کہ:

اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے

اسی لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، اپنی اپنی باری کے چکر میں قوم مجموعی طور پر جس گرداب میں پھنس چکی ہے، اس کا احساس کسی لیڈر، کسی حکمراں کو نہیں۔ البتہ دعوے بہت بڑے بڑے ہیں۔ ’’اقتدار میں آئے تو یہ کردیں گے، وہ کردیں گے، دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے نجات دلادیں گے، روزگار مہیا کریں گے، غربت مٹائیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پرانے اخبارات نکال کر دیکھیے تو گزشتہ ساٹھ سالوں میں بالکل ایک ہی جیسے نعرے ملیں گے۔ بس فرق اتنا ہے کہ جو نعرے سیاست دان حکومت میں رہتے ہوئے لگاتے ہیں یعنی عوام کی فلاح و بہبود کے وہ اپوزیشن میں آتے ہی بدل جاتے ہیں۔

لیڈروں کا درد سر یہ ہے ہی نہیں کہ وہ بیانات دیں۔ وہ تو بس لکھے ہوئے حروف پڑھ دیتے ہیں۔ جہاں تک بیانات کا تعلق ہے تو پوری ایک ٹیم یہ کام بخوبی کرتی ہے کہ کہیں ایک فرد بھی مر جائے تو سیاسی اور مذہبی پارٹیاں اسے اپنا کارکن ثابت کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیتی ہیں۔ لیڈروں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کس دن کے اخبار میں ان کا کونسا بیان لگا ہے؟ اور ہماری فرینڈلی اپوزیشن نے تو کمال کردیا۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ:

باغباں بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیاد بھی

لیکن اپوزیشن لیڈر نے جن کی خاطر ’’لاکھوں کے بول سہے‘‘ ان کا فرمانا ہے کہ:

ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے

پاکستان میں یہ روایت پڑ چکی ہے کہ جس ادارے سے وابستہ رہو، اس کو کھوکھلا کردو کہ آئندہ موقع ملے یا نہ ملے۔ جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو پہلا راگ یہی الاپتی ہے کہ ’’خزانہ خالی ہے‘‘ اور پھر اس خالی خزانے میں کسی جادوئی طاقت سے اتنا کچھ آجاتا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں نئے کھاتے کھل جاتے ہیں، فرانس، لندن، امریکا، کینیڈا، دبئی، شارجہ اور پیرس میں محلات، اپارٹمنٹ اور عیاشی کے لوازمات مہیا ہوجاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے دو کمروں کے سوا صحن کی شکل بھی نہ دیکھی تھی، ان کے گھر جاکر دیکھیے تو صرف سوئمنگ پول دیکھ کر آنکھیں کھل جائیں، سیاسی کارکنوں اور پارٹی ممبران کے پاس یہ قارون کا خزانہ کہاں سے آیا؟ یہ قارون کا خزانہ ان اداروں کے سربراہوں کے گٹھ جوڑ اور رشوت سے وجود میں آیا اور آئندہ بھی سیاست دانوں کا پیٹ بھرتا رہے گا۔

اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اقتدار کی تسبیح کی مالا جپنے کے لیے سب تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ بڑی پارٹیوں سے ’’معاملات‘‘ پہلے ہی طے ہوجاتے ہیں، پگڑی اور عمامے زیادہ بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ماضی پر نگاہ ڈالیے تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ آمریت ہو یا جمہوریت طریقہ واردات سب کا ایک ہی ہے۔ جمہوریت کی ڈگڈگی بھی وردی والوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ رہی آمریت تو کم ازکم وہ کوئی لبادہ نہیں اوڑتی۔ جب کہ جمہوریت بھی ہے تو سویلین آمریت لیکن اسے جمہوریت کی چادر سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ ایوب خان کو کن لوگوں کی سپورٹ حاصل تھی؟ ضیاء الحق کو امیر المومنین کا خطاب کون دے رہا تھا؟ پرویز مشرف کو سو بار وردی میں منتخب کروانے والے آج جمہوریت کی تھالی کے پیڑے کھارہے ہیں اور قوم پر احسان کر رہے ہیں۔

جو کچھ آج ہورہا ہے وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات جس طرح ردی کی ٹوکری کی نذر کیے جارہے ہیں اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی مدافعتی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ لیکن طاہر القادری کے لانگ مارچ نے راتوں کی نیندحرام کردی ہے۔ روحانی شخصیت نے صدر زرداری کو پہاڑوں سے دور اور ساحلوں کے قریب رہنے کو کہا ہے۔ اسی لیے گزشتہ ستائیس دن سے وہ اپنے کراچی والے گھر میں جلوہ افروز ہیں۔ کاش! وہ روحانی شخصیت کبھی حکومت کو یہ مشورہ بھی دے کہ وہ عوام کے گمبھیر، جائز اور بنیادی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دے۔ اگر یہ مشورہ دیا جاتا تو آج طاہر القادری کی لانگ مارچ سے خائف ہوکر اسلام آباد کو بند نہ کردیا جاتا۔

آج لوگ ایک دوسرے سے کہتے نظر آتے ہیں کہ جو جیتے گا وہ بھی وہی کرے گا جو گزشتہ پانچ سال سے ہورہا ہے اور اگر کہیں چھتری والوں اور سفید محل میں رہنے والوں نے ایک بار پھر فتح کا تاج پی پی کے سر پر رکھ دیا تو پھر ڈالر کو 150 روپے کا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیونکہ اگلے پانچ سال ملنے کا مطلب ہے کہ ’’ہم جو چاہیں کریں‘ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ دونوں جگہ سے ہمیں تحفظ مل گیا ہے‘‘۔ اقتدار اور سازشوں کی غلام گردشوں میں کچھ بھی ہوتا رہے، نتیجہ وہی نکلے گا جو سفید محل اور بوٹوں والوں کی مرضی ہوگی، ایک بار پھر بازار سجے گا، نیلامی ہوگی، بولیاں لگیں گی، بکاؤ لوگ ماتھے پر ’’برائے فروخت‘‘ کا ٹیکہ لگاکر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے، کہ پاکستان ایک نیلام گھر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔