اندرونی خطرات کے دھرنے اور بیرونی خطرات کے سونامی

اسد اللہ غالب  بدھ 16 جنوری 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

ہر آن بدلتے حالات نے کچھ لوگوں کی نیند حرام کر رکھی ہے مگر میری نیند کیوں اڑ گئی،میں نے سونے کی کوشش میں ناکام ہو کر اپنا گلیکسی فون پکڑا اور انٹرنیٹ پر تازہ خبروںکا جائزہ لینے لگا ، آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر ایک چھوٹی سے خبر نے مجھے چونکا دیا ، یہ خبر ابھی تک کسی نیوز چینل یا نیوز ایجنسی پر نہیں آئی تھی۔رات کے دس سے گیارہ بجے کے درمیان بھارتی فوج نے تتہ پانی سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے نائیک اشرف شہید ہو گیا، پچھلے چند دنوں میں پاک فوج کی یہ پانچویں شہادت ہے جو بھارتی فوج کے ہاتھوں رونما ہوئی۔

فاٹا میں ان گنت لاشیں روز گرتی ہیں،پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کا اغوا ایک معمول بن گیا ہے اور پھر ان کے سر قلم کر دیے جاتے ہیں۔وار آن ٹیرر میں پاک فوج سات ہزار جانوں کی قربانی دے چکی ہے، سیاچین میں زندہ در گور ہونے والے ان کے علاوہ تھے۔اور جو شدید زخمی ہو کر عمر بھر کے لیے مفلوج ہو گئے، ان کی تعداد گننے میں نہیں آتی۔منگل کی دوپہر کو سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا تو اسے مسترد کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ اس ملک میں وزرائے اعظم کا تو احتساب ہوتا ہے مگر جرنیلوںکا نہیں ہوتا، یہ اعتراض وارد کرنے والے کیا جانیں کہ پاک فوج کا احتساب کرنے کے لیے کتنی قوتیں سرگرم عمل ہیں ، ایک طرف اندرون ملک دہشت گرد ہیں ، دوسری طرف بھارتی را کے تربیت یافتہ گروہ ہیں ، تیسری طرف اسرائیلی موساد کے ایجنٹ ہیں ، چوتھی طرف سی آئی اے کے کنٹریکٹرز ہیں، پانچویں طرف افغان شر پسند ہیں ، اور سب سے بڑھ کر امریکی اور اتحادی افواج ہیں جو چوبیس گھنٹے پاک فوج کو نشانہ بنانے کے لیے تاک میں بیٹھی ہوئی ہیں۔

سلالہ میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور ایبٹ آباد میں پاکستان کے اقتدار اعلی کو تاراج کیا گیا تو یہ سب کچھ پاک فوج کے حوصلے توڑنے کے لیے ہی تو تھا۔اس کے باوجودپاک فوج کے خلاف ادھار چکانے والے ہر دوسرے مسئلے کا فوج پر الزام عائد کر کے اپنے دل کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ فلاں تحریک کے پیچھے جی ایچ کیو کا ہاتھ ہے،فلاں دھرنے کو آئی ایس آئی کی اشیر باد حاصل ہے اور فلاں سونامی اسٹیبلشمنٹ کے زور بازو کا نتیجہ ہے، پاک فوج کو رگیدنے پر بیرونی اور اندرونی قوتوں کا نظر آنے والا گٹھ جوڑ قائم ہے۔

میں چاہوں بھی تو نائیک اشرف کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے لیے نہیں جا سکتا،اس کی بیوہ اور تین یتیم بیٹیوں کے سر پر دست شفقت نہیں رکھ سکتا، ایک وقت تھا جب اسی تتہ پانی کے محاذ پر میں جا پہنچا تھا ، یہ مارچ 1972 کی بات ہے، تب آتش جوان تھا، میں نے لاہور اور راولپنڈی سے بس کے ذریعے سفر کرتے ہوئے راولا کوٹ کے کالج ہوسٹل میں ایک رات قیام کے بعد اگلے روز ایک فوجی جیپ میں تتہ پانی کی آخری چوکی کی طرف سفر شروع کیا، راستے میں سیکٹر کمانڈر بریگیڈئر شفیع سے ملاقات ہو گئی، وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیے ، پوچھا: آئی ایس پی آر کا اجازت نامہ ہے، میرا جواب نفی میں تھا ، کہنے لگے، تو پھر یہاں سیر ضرور کرو مگر کوئی فوجی آپ سے جنگ کے احوال پر بات نہیں کرے گا۔

بریگیڈیئر شفیع ریٹائر ہو کر لاہور میں مقیم ہوئے، میرے گہرے دوست بن گئے ، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سرگرم رکن بنے اور پھر اللہ کو پیارے ہو گئے، میں ان کے شفیق لہجے کو آج بھی نہیں بھول پایا۔اسی تتہ پانی کے محاذ پر گزری شب کے اندھیرے میں بھارتی فوج نے اندھا دھند فائر کر کے نائیک اشرف کو ابدی نیند سلا دیا۔یہ رات بے حد سرد تھی، ویسی ہی سرد اور ٹھٹھری ہوئی جیسی کوئٹہ میں تھی جب لوگ اپنے پیاروں کی میتیں سڑک پر رکھ کر دھرنا دینے پر مجبور ہو گئے تھے، یہ رات ویسی ہی یخ بستہ تھی جس میں اسلام آباد کے بلیو ایریا میں کھلے آسمان تلے ننھی کونپلوں جیسے معصوم بچے مائوں کی گود میں حدت کے متلاشی تھے۔کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ ان پر ٹھنڈے پانی کی توپوں کے دھانے کس وقت کھول دیے جائیں، ملک کے طول وعرض میں سیکڑوں بچے خسرے سے موت کی نیند سو گئے ہیں۔

چند سو بچے پانی کی توپوں کے فائر سے نمونیے کا شکار ہو کر چل بسے تو اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک میں اسٹیٹس کو پر کیا فرق پڑے گا ، کچھ بھی تو نہیں۔ دو روز قبل ڈاکٹر طاہر القادری کو گرفتار کرنے کی ناکام کوشش ہوئی، کل صبح پھر واردات کی بو سونگھی گئی اور خواتین نے ڈنڈے اٹھا لیے۔ کچھ ٹی وی والے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے عورتوں اور بچوں کو ہیومین شیلڈ کے طور پر استعمال کیا ہے اور اگر یہ ٹھیک ہے تو کیا ضروری ہے کہ اس ہیومین شیلڈ کے پرخچے اڑائے جائیں۔میں اردو ادب کا طالب علم نہیں رہا ، انیس اور دبیر کو پڑھا تو ہے مگر انھیں ازبر نہیں کیا، ورنہ میں ایسا نوحہ تیار رکھتا کہ آسمان بھی لہو کے آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا۔

نوحے ضرور لکھے جائیں گے، ہم نے مشرقی پاکستان کے نوحے لکھے۔اب خدا خیر کرے دشمن کی نظر بلوچستان پر ہے، ایک عرصے سے تدبیر ہورہی ہے کہ پاک فوج کو اس دلدل میں پھنسا دیا جائے، سندھو دیش کی دہکتی آگ میں دھکیل دیا جائے، وزیرستان کے مقتل میںالجھا دیا جائے۔دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں کامیاب نظر آتا ہے،کسر صرف یہ ہے کہ پورے ملک کے حالات اس قدر بگاڑ دیے جائیں کہ فوج نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست اور حکومت میں دخیل ہو جائے اور پھر اسے چاروں طرف سے گھیر کر اس کے ایٹمی دانت نکال دیے جائیں۔

کل میرے دوست پروفیسر مسرورکیفی بتا رہے تھے کہ بچپن میں وہ کسی بھڑ کو پکڑ کر اس کا ڈنگ نکال دیتے اور پھر اسے دھاگے میں باندھ کر پتنگ کی طرح لہرایا کرتے تھے۔ہمارے ملک کے کچھ ناسمجھ سیاستدان بھی فوج کے ساتھ یہی موج مستی کرنا چاہتے ہیں۔بھارت ان کی پشت پر ہے، وہ سرحدوں کو گرما رہا ہے ۔ دہشت گردوں کا لشکر روزانہ ہماری فوج کو بارود سے اڑا رہا ہے۔ بھارتی فوج کے ایئر چیف جو بلحاظ عہدہ وہاں کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ہیں ، ہمیں سخت نتا ئج کی دھمکی دے چکے ہیں، بھارتی فوج کے سربراہ نے بھی دھمکایاہے کہ وقت اور محاذ کا فیصلہ وہ خود کریں گے اور اب تو بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ پیچھے نہیں رہے ، انھوں نے سخت نتائج کی دھمکی دے ڈالی ہے۔

کیا مجال کہ پاکستان کے کسی سیاستدان نے ان دھمکیوں کو خاطر میں لانے کا تکلف بھی کیا ہو، ہاں ٹکٹیں بانٹنے کے لیے اجلاس ہو رہے ہیں ، ڈاکٹر قادری کے دھرنے سے نبٹنے پر غور جاری ہے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر گہرا غورو خوض جاری ہے۔عمران خان بھی میدان میں کودنے کی تیاری کر رہے ہیں اوران کا سات نکاتی ایجنڈہ سامنے آ گیا ہے، ان میں کوئی ایک نکتہ بھی سرحدی خطرات کے بارے میں نہیں، امریکا ہمیں ایران کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کو اس خطرے کی پیش بندی کرنے کے لیے فرصت نصیب نہیں۔

بھارت سے امن کی آشا کے جادو میں گرفتار حلقے سرحدی خطرات سے بے پروا ہیں۔پاکستان کے تاجر بھارت کوموسٹ فیورڈ نیشن قرار دینے کے عشق میں مبتلا ہیں مگر انھیں لائن آف کنٹرول سے روزانہ آنے والی لاشوں سے کوئی غرض نہیں۔بس ہر زبان پر ایک ہی ورد ہے کہ خفیہ ہاتھ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے میں مصروف ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں پڑ رہی ہیں۔ادھر سے بھارت لاشیں گر ارہا ہے، دہشت گرد فوجیوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں یا دھماکوں سے ان کی تکا بوٹی اڑا رہے ہیں۔

چند روز پہلے ہم نے ایک شہید حوالدار کی لاش کو دفنایا، آج یا کل میں نائیک اشرف کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنا دیا جائے گا لیکن کیا ان شہیدوں کا یہ حق نہیں کہ ہماری اشرافیہ،ہمارے سیاستدان، ہمارے ٹکٹ ہولڈر، ہمارے صنعتکار، سیٹھ،ٹائیکون، صدر، وزرائے اعظم ، گورنرز، وزرا کی فوج ظفر موج میں سے کوئی تو ان کے جنازوں کو کندھا دے سکے، یقین کیجیے ،انھیں یکہ و تنہا چھوڑ دینے سے ہم اپنے دفاع اور سلامتی کو کمزور کر بیٹھیں گے۔سیاست کے مسئلے تو حل ہوتے رہیں گے، پہلے ریاست کا بچاؤ تو کر لیں اور جو اس بچاؤ کے لیے بر سر پیکار ہیں، ان سے اغماض اور غفلت تو نہ برتیں ، ان سے منہ تو نہ موڑیں۔یہ طرز عمل اپنے پائوں پر آپ کلہاڑا مارنے کے مترادف ہوگا۔یا خدا رحم !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔