مشال قتل کیس میں سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا

ویب ڈیسک  بدھ 19 اپريل 2017

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مشال قتل کیس میں پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے روکتے ہوئے خود معاملے کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ میں مشال قتل کیس از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوئی۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا وقار بلور نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ میں 28 ملزمان نامزد ہیں جن میں سے 24 کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ دیگر 4 کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے اور معاملے کی ایمانداری سے تحقیقات جاری ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: مشال خان کے قتل میں ملوث مردان یونیورسٹی کے 7 ملازمین معطل

عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ تحقیقات میں آئی ایس آئی کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جس پر بتایا گیا کہ آئی ایس آئی کے لوگوں کو تو شامل نہیں کیا گیا لیکن آئی بی کے لوگوں کو تحقیقات میں شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس واقعہ میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قتل کے پیچھے طالبعلموں کے علاوہ کون سے لوگ ملوث ہیں اور یہ واقعہ کیوں پیش آیا، اس لئے اس میں حکومت کو انٹیلی جنس کی ضرورت ہو گی لہذا اس سے متعلق لوگوں کو شامل کیا جائے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں :مشال کے قاتلوں کے نام نہ بتانے کیلیے حلف لینے کی وڈیو منظر عام پر آگئی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس واقعہ پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتے لیکن تفتیش کی پوری نگرانی کی جائے گی اور متعلقہ حکام تفتیش میں پیش رفت کی ہفتہ وار رپورٹ بھی عدالت میں پیش کریں گے۔ سپریم کورٹ نے آئی جی خیبر پختونخوا کو واقعہ کی تحقیقات خود کرنے کا کہا، جس پر آئی جی خیبر پختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ کی 80 فیصد تحقیقات ہو چکی ہے اور بہت جلد تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کو مشال قتل کیس کے واقعہ میں جوڈیشل کمیشن بنانے سے روکتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے کمیشن بنانے سے متعلق رپورٹ طلب کرلی اور کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: مردان یونیورسٹی میں طلبا کے تشدد سے طالبعلم جاں بحق

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا صلاح الدین کے قتل والے روز سے آج تک سوشل میڈیا پر بہت سی چہ مگوئیاں اور افوائیں گردش کر رہی ہیں جو کیس اور دیگر چیزوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے لہذا عوام سے اپیل ہے کہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور پولیس کی تفتیش کا انتظار کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔