نئے صوبے کا قیام اور اپوزیشن کے تحفظات

ملک منظور احمد  منگل 29 جنوری 2013
پپیپلزپارٹی, پنجاب میں نیا صوبہ ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ قائم کرنے کے لیے تمام تر تیاریاں مکمل کرچکی ہے۔ فوٹو: فائل

پپیپلزپارٹی, پنجاب میں نیا صوبہ ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ قائم کرنے کے لیے تمام تر تیاریاں مکمل کرچکی ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آ باد: اسمبلیوں کی تحلیل اور عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان اب کچھ زیادہ دور نہیں۔ موجودہ حکومت 5سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے قریب تر ہے ایک ایسے موقع پر جب موجودہ اسمبلی کا آخری اجلاس اسلام آباد میں جاری ہے۔

پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت پنجاب میں نیا صوبہ ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ قائم کرنے کے لیے اپنے طور پر تمام تر تیاریاں مکمل کرچکی ہے۔ پارلیمانی کمیشن اس سلسلے میں سفارشات تیار کرچکا ہے۔24ویںآئینی ترمیم کے مسودے اور آرٹیکل میں مجوزہ ترامیم کو بھی آخری اطلاعات آنے تک حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کی حکومت یہ سب کچھ کرپائے گی۔ بہت سارے حلقے اس امر پر حیرت کابھی اظہار کررہے ہیں کہ آخر پیپلزپارٹی کو پنجاب میں نیا صوبہ قائم کرنے کے لئے اتنی جلدی کیوں ہے؟حکومت اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں پنجاب کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لارہی ہے۔

سرائیکی صوبے کے نام سے پہلے نیا صوبہ بنانے کا فیصلہ کرلیاتھا مگر اب اس صوبے کا نام تبدیل کردیاگیا ہے اور پارلیمانی کمیشن کی سفارشات کے تحت نئے صوبے کا نام ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ تجویز کیاگیا ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) کو پنجاب کی تقسیم کے معاملے پر شدید اختلافات ہیں جب سے پارلیمانی کمیشن کا قیام عمل میں لایاگیا اس وقت سے مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اس پارلیمانی کمیشن کا بائیکاٹ کررکھا ہے اور اس کمیشن کے مینڈیٹ اور قیام کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کیاگیا تھا۔کمیشن کے چیئرمین سینیٹرفرحت اللہ بابر کا تعلق صوبہ خیبرپختونخواہ سے ہے اور یہ اعتراض کیاگیا ہے کہ جس صوبے کو تقسیم کرکے نیا صوبہ قائم کیاجارہا ہے، پارلیمانی کمیشن کے سربراہ کاتعلق اس صوبے سے نہیں ہے۔

پارلیمانی کمیشن کے ارکان کے چنائو پر بھی تحفظات کااظہار کیاگیا ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پنجاب میں نیا صوبہ قائم کرنے کے لیے پیپلزپارٹی دراصل سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے اور کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو ٹف ٹائم دینے کی خاطر ایک سیاسی چال چلتے ہوئے نیا صوبہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ حکومت کے لیے عملی طورپر مشکلات ضرور ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی اکثریت نہیں ہے اور متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت سے اس کی حمایت میں قرارداد کی منظوری اس کے لیے ضروری ہے۔ پنجاب اسمبلی سے ایک قرارداد کی مذمت بھی منظور کرائی جاچکی ہے۔ قومی اسمبلی میں پارلیمانی کمیشن کی نئے صوبے کے قیام کے لئے سفارشات ان سطور کی اشاعت تک امکانی طور پر پیش کی جاچکی ہوں گی۔

قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نے پنجاب ہائوس اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر حکومت نے اسمبلی میں بہاولپور جنوبی پنجاب کے نام سے صوبہ قائم کرنے کے لیے قرارداد پیش کی تو مسلم لیگ(ن) مخالفت کرے گی اور ہم اپنی ترامیم پیش کریں گے۔ چوہدری نثارعلی خان نے ایک بار پھر کمیشن کے چیئرمین کے تقرر اوراس کمیشن کے مینڈیٹ کو کڑی تنقید کانشانہ بنایاہے۔ انہوں نے گورنر پنجاب کو بھی آڑھے ہاتھوں لیا ہے۔

اس وقت ملکی سیاست نئے صوبے کے قیام کے گرد گھوم رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے اس اقدام کے آئندہ سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اپوزیشن کی جماعتیں یہ واضح کرچکی ہیںکہ وہ نئے صوبوں کے قیام کے خلاف نہیں مگر طریقہ کار پر اختلافات ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا موقف ہے کہ نئے صوبے لسانی بنیادوں پر قائم کرنے کی بجائے انتظامی یونٹوں کی بنیادوں پر بنائے جائیں۔ یہ درست ہے کہ لسانی بنیادوں پر صوبے کے قیام سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ محض ایک صوبے کو تقسیم کرنے کے بجائے دیگر صوبوں کی تقسیم کو بھی یقینی بنایاجائے،صرف پنجاب کی تقسیم کے معاملے پر تحفظات اور خدشات اٹھائے جارہے ہیں اور پنجاب کے بعض شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر حکومت نیا صوبہ ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ کے نام سے قائم کرنے میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے تو کیا وسائل کی تقسیم پر تنازعات جنم نہیں لیں گے؟غیرجانبدار حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ یقینی طور پر وسائل کی تقسیم کے معاملات پر اختلافات سامنے آئیں گے۔ موجودہ قومی اسمبلی کا آخری یادگاراجلاس جاری ہے اور ارکان اسمبلی کی اکثریت اس آخری اجلاس میں بھی دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ حکومت نے مارچ کے شروع میں اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے اور اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ تقریباً مشاورت کرلی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ انتقال اقتدار کی پرامن انداز میں منتقلی کے تمام مراحل کو احسن انداز میں آگے بڑھانے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں نوازشریف کی ہدایت پر بیشتر اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ قائدین کے ساتھ نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورت کرچکے ہیں اور یہ مشاورت تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے یہ خدشہ ظاہر کردیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے قائدین کے درمیان سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کو نگران وزیراعظم بنانے پر ایک ڈیل ہوچکی ہے۔دونوں جماعتوں کے قائدین اس ڈیل کی تردید کررہے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف آنے والے دنوں میں قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کو نگران سیٹ اپ کے قیام پر باضابطہ مذاکرات کی دعوت دیں گے۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رضاربانی نے دوسال کے لیے غیرآئینی عبوری سیٹ اپ لانے کی سازش کی بات کہہ کر دراصل کافی عرصے سے پائے جانے والے خدشات اور تحفظات کی تصدیق کردی ہے۔مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے الیکشن کمیشن کے ساتھ اظہاریکجہتی کے لئے پارلیمنٹ ہائوس سے لے کر کمیشن تک مارچ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے اس مارچ میں شرکت کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ انتخابات سے محض چند ماہ قبل الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی تمام تر سازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔