آج ہے افطار ڈنر

سحرش پرویز  پير 12 جون 2017
چندباتیں، جن پر عمل کرکے دعوت کے بکھیڑے سمیٹنا آسان ہوجائے گا۔ فوٹو: نیٹ

چندباتیں، جن پر عمل کرکے دعوت کے بکھیڑے سمیٹنا آسان ہوجائے گا۔ فوٹو: نیٹ

دعوتیں اہل خاندان کے ساتھ مل بیٹھنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ رمضان میں یہ موقع دعوت افطار یا افطار ڈنر کی صورت میں میسر ہوسکتا ہے۔

یوں تو عام دنوں میں بھی مہمانوں کی دعوت کرنے کے بہت سے بکھیڑے ہوتے ہیں مگر رمضان میں دعوت یوں مشکل ہوجاتی ہے کہ روزے کی حالت میں معمول سے زیادہ کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر مہمانوں کی تعداد زیادہ ہے تو پھر انتظام بھی اسی مناسبت سے کرنا ہوتا ہے۔ دعوت سے نمٹنے کے بعد گھر کی صفائی اور دیگر کاموں کے بارے میں بھی پہلے سے سوچا جا رہا ہوتا ہے ۔ نتیجتاً کئی کام ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے سے تمام کاموں کی فہرست بنا لی جائے اور اسی کے مطابق ہر کام سر انجام دیا جائے۔

جب بھی گھر پہ دعوت رکھیں تو گھر کی صفائی کی طرف خاص توجہ دیں کہ آنے والے مہمان سب سے پہلے گھر ہی کو دیکھتے ہیں ۔ اگر بہت سارے لوگوں کو گھر پہ مدعو کیا گیا ہے تو مہمان نوازی کے لیے کافی برتنوں کی ضرورت پڑے گی ۔ آسان طریقہ یہی ہے کہ ڈسپوزیبل برتن کا استعمال کریں تاکہ انھیں استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جائے اور زیادہ برتن دھونے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ کم قیمت ہونے کی وجہ سے انھیں خریدنا بھی آسان ہوتا ہے۔ ان کے لیے زیادہ بڑی جگہ بھی درکار نہیں ہوتی۔ کم جگہ پر ڈھیروں برتن رکھے جا سکتے ہیں۔

اگر آپ ڈسپوزیبل برتنوں کا استعمال نہیں کرنا چاہتیں تو بہتر یہ ہے کہ کیٹرنگ والوں سے برتن ، ٹیبل کے کوورز اور دیگر اشیاء منگوا لیں ۔ایک دن کرایے پر منگوائے جانے والے برتنوں کو دھونے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ایسی خواتین جو اپنے گھر کے قیمتی برتنوں کو بڑی دعوتوں میں استعمال نہیں کرنا چاہتیں۔ انھیں چاہیے کہ بازار سے ایک دن کرایے پر برتن منگوا لیں ۔گھر کے نئے ٹیبل کور ، رومال اور دیگر بہت سی چیزوں کو دعوت کے بعددھونا پڑتا ہے اور دن بھر روزہ رکھنے کے بعد اتنا کام کرنا بھی مشقت معلوم ہوتا ہے۔

دعوت کے اہتمام کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے کمروں کے کونے کونے میں ائیر فریشنر رکھے جائیں تاکہ اس کی خوشبو ہر طرف مہکے اور پورے گھر میں تازگی کا احساس برقرار ہے۔ بھینی بھینی خوشبو سے مہمانوں کا موڈ بھی خوشگوار ہو جا تا ہے۔ اگر ڈسپوزیبل برتن استعمال ہورہے ہیں تو پھر جس جگہ دعوت کا بندوبست کیا گیا ہے وہاں برتنوں کو پھینکنے کے لیے ڈسٹ بن یا بڑی باسکٹ رکھ دیں تا کہ دعوت کے بعد ان بر تنوں کو ایک ساتھ اکٹھا کر کے پھینکنے میں آسانی رہے۔

ڈسٹ بن رکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مہمان برتنوں کو استعمال کرنے کے بعد ازخود اپنی پلیٹ اسی میں ڈال دیں گے ۔اس طرح دعوت کے بعدکام نمٹانے میں وقت کی بچت ہو گی ۔ٹیبل کے کورز ، رومال اور صفائی کرنے والے کپڑوں کو الگ رکھیں ،کبھی کبھار ان کی فوری ضرورت پڑ سکتی ہے ۔کیوں کہ اکثر دعوتوں میں مہمانوں کے کپڑوں پر بوتل ، شربت یا سالن گِر جاتا ہے ،ایسے میں ایک سے زائد رومال کی ضرورت پیش آ جا تی ہے۔

وہ واتین جو ڈش واشر کا استعمال کرتی ہیں ،دعوت سے پہلے ہی اس کو خالی کر لیں ۔ساتھ ہی کچن سنک کو صاف اور خالی رکھیں تاکہ دھونے والے برتنوں کو وہاں رکھا جا سکے ۔ جو برتن باہر سے منگوائے تھے وہ تو بغیر دھلے ہی واپس ہو جاتے ہیں لیکن جو برتن آپ کے گھر کے استعمال ہوئے ہیں انھیں دھونا پڑے گا ۔ اگر اسی وقت دھونے کی ہمت نہیں ہے تو اگلے دن کے لیے رکھ دیں لیکن یاد رکھیں اگر چکنائی والے برتن ہیں تو ان کو پانی ڈال کے رکھیں تاکہ دوسرے دن آسانی سے صاف ہو جائیں۔ کچن میں سالن کے داغ لگے ہیں تو انھیں کلینر میں بلیچ ملا کے کسی برش سے رگڑیں ،تھوڑی دیر بعد پانی سے دھو لیں۔

اگر کھانا کافی مقدار میں بچ گیا ہے اور مہمانوں کو دینا مقصود ہے تو پھر اس کو پیک کرنے کے لیے  ائیر ٹا ئٹ جارز اور تھیلیوں کی ضرورت ہو گی ۔ اس کا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ کھانا ضایع اور خراب ہونے سے بچ جا تا ہے اور دوسرا دعوت کے بعد اس کو سمیٹنے کا مسئلہ بھی حل ہو جا تا ہے ۔ضروری نہیں کہ سارا کھانا مہمانوں میں بانٹ دیا جائے، کچھ کھانا اپنے گھر والوں کے لیے بھی بچا کے رکھیں کیوں کہ دعوت کے دوران گھر والے مہمان داری میں زیا دہ مصروف ہو تے ہیں اور وہ ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھا پاتے۔

یہ بھی سچ ہے کہ رمضان میں پورا دن روزے کی حالت میں کام کر کے آخر میں ہمت نہیں ہوتی کہ دعوت کے بکھیڑے کو سمیٹا جائے ۔اکثر خواتین یہاں سستی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کام اگلے دن پر چھوڑ دیتی ہیں ۔اس طرح دوسرے دن کا کام بڑھ جا تا ہے اور روزے میں زیادہ کام کر کے تھکن ہو جاتی ہے۔ اسی لیے بہتر یہی ہے کہ جتنے کام ہو سکے وہ کر لیں ۔ رمضان میں دعوتیں تو شوق سے کی جاتی ہیں لیکن ان کے بکھیڑے سمیٹنا کئی خواتین کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہو تا ہے۔ درج بالا باتوں پر عمل کر وہ اس مرحلے سے بہ آسانی گزرسکتی ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔