بازیچہ اطفال

سیدہ کنول زہرا زیدی  جمعرات 31 جنوری 2013

زمانہ کم سنی میں ہم کبھی بلا عنوان کہانیاں لکھا پڑھا کرتے تھے مگر جب اس حقیقت سے نا واقف تھے کہ ہم کبھی ایسی ریاست بھی دیکھیں گے اور نہ صرف دیکھیں گے بلکہ اس ریاست کے عوام بھی کہلائیں گے جس کی حکومت صرف نیوز چینلز اور اخبارات میں ہی نظر آئے گی۔ وطن عزیز میں آئے دن قیامت کا رن پڑتا ہے مگر حکومت کی موجودگی کہیں نظر نہیں آتی اس لیے اگر ہم مملکت پاکستان کو ـ ’بلا حکومت ریاست‘ کا نام دیں تو غلط نہ ہو گا یقینا اگر آج غالب ؔ زندہ ہوتے تو اپنا ’بازیچہ اطفال‘ مملکت پاکستان کو ہی گردانتے مگر، اس معاملے میں مرزا کی قسمت نے یاوری نہ کی وہ آج اگر وطن عزیز کی کسی سیاسی جماعت کے رکن یا رہنما کی صورت میں دنیا سے کوچ کرتے تو ’شہید‘ کہلاتے اور دیگر ’ ریاستی شہیدوں‘ کی طرح وہ بھی ’زندہ‘ ہوتے چلیں جی یہ بھی اللہ کا کرم ہے کم از کم اس ملک کے عوام ’ایک‘ شہید کے نرغے سے تو بچے۔۔۔۔۔ وطن عزیز وہ ریاست ہے جسے ’تماشہ ریاست‘ کہا جائے تو ذرا غلط نہ ہو گا کیونکہ گزشتہ 4 سال 10 ماہ میں ریاست میں وہ وہ تماشے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام کو نہ صرف حکمرانوں سے بلکہ لفظ ’جمہوریت‘ سے نفرت محسوس ہونے لگی ہے۔

کوئٹہ کا حالیہ واقعہ آپ سب کے سامنے ہے جہاں 86 جنازوں کے ہمراہ دھرنا دیے سوگوار خاندان فوج کے منتظر تھے یہ بات ذہن میں رہے یہ وہ ہی بلوچستان ہے جس کی علیحدگی کے دہانے کی خبریں ہم اخبارات یا ٹی وی ٹیکرز کی صورت میں وقتاً فوقتاً ملاحظہ فرماتے رہتے ہیں جب کہ پہلی دفعہ اسی بلوچستان کے درالحکومت سے آرمی کو طلب کرنے کی گزارشات سامنے آئیں گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہنا چاہونگی ناچیز نے کبھی وطن عزیز میں حقیقی جمہوریت نہیں دیکھی اگر ہمارے حکمران یورپ و امریکا کی غلامی کے ساتھ اُنکی بتائی ہوئی اصل جمہوریت کو واقعتاً ملک میں رائج کر لیتے تو یہ ریاست ’تماشہ ریاست‘ نہ ہوتی اور نہ ہی آج یوں کسی کو غالب ؔ کا ’بازیچہ اطفال‘ یاد آتا۔ جمہوریت یہ نہیں کہ ملک میں قتل ِ عام ہو اور جمہوری حکمران 100 گاڑیوں کے پروٹوکول میں سفر کریں۔ میرے وطن میں بڑے بڑے نرالے واقعات ہوئے ہیں یہ بھی کیا عجب اتفاق ہے ایک آمر کے دور میں میڈیا کو آزادی ملی، صنعتیںملک سے باہر شفٹ ہوئی تھیں نہ ہی CNG کے حصول کے لیے گاڑیوں کی قطاریں تھیں نہ بجلی، پانی اور گیس کی آمد کا انتظار اب تو یہ حال ہے عید ہو یا محرم ان ایام کی آمد سے خوف محسوس ہوتا ہے کیونکہ ’کھل جا سم سم، بند ہو جا سم سم‘ کے روح رواں ملک صاحب ایک یہ ہی بہترین کام کرتے نظر آتے ہیں جس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں یہ بھی کیا حسنِ اتفاق ہے حالیہ اسکرپٹ شدہ یا غیر اسکرپٹ شدہ لانگ مارچ اور دھرنا 5 روز تک جاری رہا۔ تحریک طالبان پاکستان کےThreat بزبان ملک صاحب کے تو ضرور سامنے آئے مگر شاید TTP کا اسلام آباد تک جانا مشکل تھا۔ اسی لیے اُنکی دھمکیاں وسیلے سے ہی سامنے آئیں لیکن اللہ کے کرم سے وہ کچھ کر نہ پائے اگر وہ کچھ کرتے تو لازمی سی بات ہے پارٹی کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑتا TTP کی موجودہ حکومت سے اتنی زیادہ وفاداری؟ مجھ نا سمجھ کی سمجھ میں نہیں آئی۔

ابھی ہم بدعنوانی، مہنگائی، تعلیم کے فقدان، بجلی، پانی، گیس اورCNG کی لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، اِسٹریٹ کرائمز اور دیگر پریشان کن صورتحال سے نمٹ نہیں پائے تھے کہ 20 برس کے شاہ زیب خان کے بھیانک قتل نے سوگوار کر دیا، تفصیلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئی آگے چلوں گی کیونکہ متحرک سوشل اور ریگولر میڈیا کی بدولت ہم سب اس کیس کے متعلق کافی حد تک باخبر ہیں۔ ان تمام Breaking News کا سلسلہ ابھی ٹھیک سے ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ لانگ مارچ نے تمام تر توجہ اپنے تک مرکوز کروا لی، اُدھر سرحدوں پر آرمی کے جوانوں کی شہادت کے ٹیکرز اور شہ سرخیاں بھی مرکز نگاہ بنی رہیں۔ وطن عزیز میں جس طرح حقیقی جمہوریت کا ’ج‘ بھی نظر نہیں آتا اسی طرح ـ ’انقلاب‘ کے ’الف‘ سے بھی ہم نابلد ہیں۔

آج تک جہاں جہاں انقلابات آئے ہیں وہ کنٹینر میں یا 5 دن دھرنے کے بعد مذکرات کی صورت میں کہیں نہیں آئے مگر جناب میرے وطن میں دنیا سے نرالی جمہوریت ہے جس میں ’سب کچھ بکتا ہے‘ سیدالشہداء کے نام پر آغاز کرنے والا یہ لانگ مارچ اور دھرنا فقط 5 دن میںِ مذکرات سے وزراء کے ساتھ بغل گیر ہو گیا جنھیں چند گھنٹے قبل ’سابق‘ گردانا گیا تھا۔ یہ بھی کیا مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ وزیراعظم کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والے احکام ِگرفتاری پر خوشی سے نعرے لگا نے والے اب اُن کو بار بار ’سابق وزیراعظم‘ کا لقب عنایت فرما رہے تھے اُن ہی کے دستخط شدہ کاغذ پر راضی بہ رضا بھی ہو گئے۔ واضح رہے یہ وہ ہی ’راجہ صاحب‘ ہیں جن کی روشن شخصیت کی بدولت آج قوم اندھیروں میں ہے۔

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عوام کے اندھیروں کے روح رواں کے دستخط میں کتنی سچائی ہے مگر رہی بات بگ باس کی تو جناب وہ پکے مسلمان ہونے کی بنیاد پر اپنے دعوئوں اور وعدئوں کو قرآنی صحیفہ نہیں گردانتے اور اُن کی اس مسلمانیت پر ہم مستقبل قریب میں آنے والے بیانات کے متعلق کسی حد تک تیار بھی ہیں۔ خیر جناب یہ لانگ مارچ اور دھرنا ایک Breaking News کی طرح تھا چونکہ Breaking News کی مدت حیات چند لمحات پر مبنی ہوتی ہے لہذا یہ بریگنگ نیوز انجام پذیر ہوئی۔ ناچیز کا نہیں خیال کہ اس Breaking News کا اب کوئی Follow Up آئے گا۔ مگر وطن عزیز میں کچھ بھی حتمی نہیں کب کیا ہو جائے اس بارے میں اپنے محدود علم کے مطابق ناچیز کچھ کہنے سے قاصر ہے۔

قارئین! کامران فیصل کو ریگولر اور سوشل میڈیا کے توسط سے ہم سب نے دیکھا ہے بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ اچھے خاصے بھاری بھرکم ڈیل ڈول کا مالک ایک کمر بند سے اپنے آپ کو Ceiling fan سے لٹکا دے؟ ہم کبھی یہ تما م بے سروپا باتیں فلم میں دیکھا کرتے تھے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ یہ تمام تر صورتحال کبھی حقیقتاً بھی ملاحظہ بھی فرمائیں گے یہ تو سب جانتے ہیں کسی بھی فلم کے لیے اسکرپٹ کا ہونا بہت ضروری ہے تو۔۔۔۔۔۔۔؟ یقینا میرے وطن کے باشعور عوام اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ میرے ملک میں کیا کیا کچھ اسکرپٹ شدہ ہوتا ہے!

پاکستان کے عوام چیف جسٹس صاحب کی شخصیت اور عدلیہ کے کردار سے مطمئن نظر آتے ہیں اور ان کے احکامات و اقدامات کا دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ اس دبستانِ بریکنگ نیوز وطن میں ہم کسی بھی اندوہناک خبر کو آخری خبر نہیں کہہ سکتے بدعنوانی، مہنگائی، کراچی ٹارگٹ کلنگ، آئی ڈی کارڈ دیکھ کر ایک مخصوص فرقے سے زندگی کا حق چھیننا، بلوچستان کی افسوسناک خبریں،Missing Persons کا معاملہ، اسٹریٹ کرائمز اور اب حالیہ شاہ زیب قتل کیس، کوئٹہ میں 87 جنازوں کے ساتھ سوگواروں کا انصاف کے حصول کی خاطر انتہائی صبر سے احتجاج، اسلام آباد لانگ مارچ اور درالحکومت میں دھرنا، رینٹل پاور کیس کے سلسلے میں وزیراعظم کی عدالت میں طلبی، کامران فیصل کی اچانک مبینہ خودکشی اور اب الیکشن سے پہلے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کا پُرزور شور اس قسم کی خبروں نے وطن عزیز کو معاشی لحاظ سے انتہائی غیر مستحکم کر دیا ہے۔ جہاں تک نئے صوبوں کا معاملہ ہے تو نئے صوبوں کی تشکیل نو غلط نہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکمرانوں کی نیت صاف ہونا البتہ ایک بڑا مسئلہ ضرور ہے۔۔۔۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے میرا وطن غالبؔ کا ’بازیچہ ِاطفال‘ ہے مگر ساتھ ہی مسلمان ہونے کے ناتے اپنے رب سے مثبت اُمیدر کھنا میرا فرض ہے اسی لیے موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں پاکستان کے آنے والے ’کل‘ سے بہت مطمئن ہوں۔ وہ دن دور نہیں جب یہ نوجوان اس ’بازیچہِ اطفال‘ کو دنیا کی بہترین ریاست میں تبدیل کر دیں گے۔ انشا اﷲ، پاکستان زندہ باد!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔