یورپ کا سردار __ جرمنی (دوسری قسط)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 5 جولائی 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

جرمنی ایک سیلابِ بلا کی طرح نکلا اور یورپ کو روندتا چلا گیا، پہلی جنگِ عظیم میں آسٹریا اور ہنگری کے علاوہ  ترکی کی عثمانی سلطنت نے بھی جرمنی کے ساتھ دیا۔ اگر امریکا جنگ میں نہ کودتا تو جرمنی پورے یورپ پر قابض ہو جاتا اور دنیا کا نقشہ مختلف ہوتا۔ جنگ میں امریکا کے شامل ہونے سے اتحادی فتحیاب ہوئے جس کے نتیجے میں عثمانی سلطنت کے حصّے بخرے کردیے گئے اور جرمنی پر معاہدہ وارسیلز کے نام سے ایک توہین آمیز معاہدہ مسلط کر دیا گیا جس کے تحت اس پر فوج اور فوجی ہتھیار رکھنے کی پابندی لگادی گئی۔ اسی ذلّت آمیز معاہدے کے ردّ ِعمل میں کچھ جرمن نیشلسٹ منظر نامے پر ابھرے جن میں سب سے نمایاں نام ایڈولف ہٹلر کا ہے۔

ہٹلر 1889ء میں آسٹریا کے شہر براؤن میں پیدا ہوا۔ وہ روزگار کے لیے جرمنی آیا اور جنگِ عظیم کے دوران جرمن فوج میں بھرتی ہوگیا اور اس میں زخمی بھی ہوا۔ جنگ میں شکست کو اس نے دل سے تسلیم نہ کیا اور اس ذلّت کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ وہ 1919ء میں نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی میں شامل ہوا اور دوسال میں اس کا لیڈر بن گیا  حالا ت اس کا ساتھ دیتے گئے اور چند سالوں بعد وہ جرمنی کا چانسلر بن گیا، حکمران بنتے ہی اس نے ورسیلز کا معاہدہ منسوخ کردیا۔ ہٹلر بلا کا مقرر تھا اور لاکھوں کے مجمعے پر سحر طاری کردینے کی صلاحیّت رکھتا تھامگراس نے اپنی صلاحیّتوں کو تعمیری مقاصد کے بجائے انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال کیا۔

1938 ؁ء میں وہ لشکرِ تاتار کی طرح نکلا اور فرانس، بیلجئم، ہالینڈ لکسمبّرگ، ناروے، ڈینمارک، یونان ، آسٹریا، پولینڈکوفتح کرتا ہوا روس کی دہلیزتک جا پہنچا  اُدھر جرمن بمباروں نے لندن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس بار جرمنی کاساتھ جاپان اور اٹلی نے دیا، دوسری طرف پورا یورپ ، روس اورامریکا بھی۔ اِس دوسری عالمی جنگ میں بھی امریکا کی شمولیت اور اس کی طرف سے ایٹم بم کے استعمال نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا۔ جرمنی شکست اور تباہی سے دوچار ہوا۔ فاتحین نے جرمنی کو تقسیم کردیا، مشرقی حصّہ کمیونسٹ روس کے حصّے میں آیا اور مغربی حصّے پر امریکا قابض ہواجس نے اسے برطانیہ کے حوالے کردیا۔

1945ء میں جرمنی ایک تباہ شدہ ملک تھا جسکے نوّے لاکھ افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ ایسی ذلّت آمیز شکست قوموں کا مورال اور حوصلہ کچل کر رکھ دیتی ہے اور انھیں پاؤں پر کھڑا ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اُس وقت جرمنی اتنا تباہ حال تھا کہ پاکستان نے بھی اسے کروڑوں روپے کی مالی امداد دی تھی( اب تو یہ ایک خواب لگتا ہے) ۔مگرجرمن ایک حیرت انگیز قوم ہیں، جنگ نے ان کی عمارتیں تباہ کردیں ان کے لاکھوں پیارے ہلاک کر دیے مگر تباہ کن شکست ان کے عزم اور حوصلے کو شکست نہ دے سکی۔ دنیا کا کوئی بم اُنکی ہمّت کو نہ کچل سکا۔

انھوں نے اپنے وطن ِ عزیز کے ملبے اور کھنڈر کو چند سالوں میں پھر دنیا کی سپر پاور میں تبدیل کر دیا۔ بلاشبہ آج کی یہ اقتصادی سپر پاور جرمن عوام کے لازوال عزم،  یقینِ محکم اور عملِ پیہم کا بے مثال معجزہ ہے۔ مگر معجزے غیر معمولی انسانوں کے ہاتھوں برپا ہوتے ہیں۔ جرمنی کے دانشور اس پر متفق ہیں کہ ملبے کو شاندار مملکت میں بدلنے اور کھنڈر کو دنیا کی سپر پاور بنا دینے کا معجزہ جس رہنما کی قیادت میں رونما ہواوہ چانسلر ایڈینیور تھے۔امریکا کے سابق صدر نکسن نے اپنی مشہور زمانہ کتاب” “Leaders میں دنیا کے جن غیرعظیم رہنماؤں کے خاکے لکھے ہیں ان میں یورپ کے تین لیڈرز شامل ہیں۔

برطانیہ کے ونسٹن چرچل ، فرانس کے چارلس ڈیگال اور جرمنی کے کونرڈ ایڈینیور۔ چرچل نے خود خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ـ”بِسمارک کے بعد ایڈینیور جرمنی کے قابل تر ین رہنماہیں” وہ نئے جرمنی کے معمار بھی تھے اور پورے یورپ کے اتحاد کے داعی بھی ! وہ ایک وجہیہ ، حاضردماغ وکیل ، مدبّر ، جرات مند اور عملی طو پر مذہبی آدمی تھے ۔ نکسن لکھتے ہیں ” دوسری جنگ عظیم کے تباہ حال جرمنی میں ایڈنیور کی ذات ایک عظیم الشّان چرچ کی مانند تھی ۔  قو می ذلّت و رسوائی اور بے یقینی کے ُاس دور میں وہ جرمن عوام کے لیے اعتبار، یقین اور حوصلے کی علامت بنکر ابھرے۔ انھوں نے ہی جرمنی کو ایک عالمی باغی سے آزادی اور جمہوریت کے گہوارے میں بدل دینے کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا۔

ایڈینیور نے ٹھیک کہا تھا کہ ” جرمنوں کو شکست تو ہو سکتی ہے۔ مگر کوئی بھی اُن کا حوصلہ نہیں توڑ سکتا” بد ترین بد حالی میں بھی کوئی جرمن گداگر نہ بنااور نہ ہی کسی نے ہاتھ پھیلائے۔ ایڈینیور کئی سال تک کو لوگنے کا میئر رہا ۔ وہ  1933میں چانسلر بن سکتا تھا مگراس نے گریز کیا تو ہٹلر چانسلر ی لے اڑا۔ وہ ہٹلر کو ناپسند کرتا تھا ہٹلرچانسلر بننے کے بعد جب کو لوگنے کے دورے پر آیا تو میئر نے اس کا استقبال کرنے سے انکار کردیا اور نازی پارٹی کے بینرز بھی اتر وا دیے اور نازی پارٹی نے ا سے میئر شپ سے ہٹا دیا۔ ایڈینیور نے کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ 1946 میں وہ پارٹی کا چیئر مین بنا اور 1947میں جرمنی کا چانسلر منتخب ہو گیا۔وہ چودہ سال اس اہم ترین  عہدے پر رہا۔ جس میں سے چھ سال وہ تھے جب اتحادی فوج جرمنی پر قابض تھی۔

اتحادیوں کے راج تلے جرمنی کی تعمیرِ نو آسان کام نہ تھا مگر غیر معمولی تدبّراورحکمت سے ایڈینیور نے بڑے کھٹن مرحلے عبور کر لیے۔ 1949میں ایڈینیور ہی تھا جس نے اتحادیوں کو جرمنی کی انڈسٹری اور فیکٹریاں اکھاڑنے سے روکااور جرمنی کے لیے “سانس لینے “کی آزادی حاصل کی اور پھر آزادی کی ان تین دھائیوں میں اُس نے انڈسٹری کو اس قدر ترقی دی کہ جرمنی کا Per Capital GNP امریکا سے بڑھ گیا۔ اس نے ہمسایہ ملکوں خصوصاً فرانس سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بے پناہ محنت کی ۔ ملک میں سوشل مارکیٹ اکانومی کانظام رائج کیااس سے مزدوروں کی روایتی  بے چینی (Labour Unrest) کاخاتمہ ہو گیا ، جسکے بغیر جرمنی کے معاشی سپر پاور بننے کا معجزہ ممکن نہیں تھا ، ایڈینیور اور ڈیگال پہلی بار 1958میں ملے اور پھر ان دو قد آور شخصیات میں ایسی گہری دوستی ہو گئی جس نے دو متحارب ملکوں میں امن اور دوستی کی بنیاد ڈال دی ، بلاشبہ جرمنی کی آزادی اور خود مختاری بحال کرانے اور اسے معاشی سپر پاور بنانے میں ایڈینیور کا کلیدی کردار ہمیشہ یاد رکھّا جائیگا۔

پاکستان میں فنّی تعلیم و تربیّت کا سلسلہ شروع ہوئے ابھی ایک دھائی گزری ہے۔ TVET سیکٹر کی سمت درست کرنے کے لیے اسمیں بنیادی اصلاحات کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں یورپین یونین، جرمنی، ناروے اور نیدرلینڈ نے آگے بڑھکر ہمارے نونہال سیکٹر کا ہاتھ تھاما، اس کی بنیاد مضبوط بنانے میں حصّہ ڈالا اور اسے درست سمت کیجانب گامزن کر دیااس قلیل عرصے میں کچھ اہم سنگِ میل بھی طے ہوئے ہیں۔ نیشنل سِکل اسٹرٹیجی تشکیل دی گئی ہے اور نیشنل ووکیشنل کوالیفیکیشنز فریم ورک (NVQF)بنالیے گئے ہیں۔ انھی ڈونرز نے اب اگلے پانچ سال کے لیے اس سیکٹر میں مزید اصلاحات کے لیے TVETریفارم پروگرام جاری رکھنے کی حامی بھری ہے۔ اسمیں پرائیوٹ سیکٹر (صنعت و تجارت) کی زیادہ شمولیّت کو یقینی بنانا اور اسکل ڈویلپمنٹ کا معیار بلند کرنا بڑے اھداف ہیں۔ ان اصلاحات پر عملدرآمد کی ذمے داری جرمن ادارے Gizپر ہے جسے وہ پورے اخلاص اور تندہی سے نِبھا رہا ہے۔

GIZ ہی کے مرتّب کردہ اس اسٹڈی ٹور میں شرکت کرنے والے وفد میں راقم کے علاوہ سندھ ٹیوٹا کے ایم ڈی مظفر بھٹو، خیبر پختونخواہ ٹیوٹا کے ایم ڈی منیب اللہ، آزاد کشمیر ٹیوٹا کے چئیر مین ظفر نبی بٹ، پنجاب ٹیوٹا کی سینئر منیجر عنبر افضل، نیوٹیک کے ڈائریکٹر جنرلز ڈاکٹر ناصر خان اور عبد الرحیم شیخ تھے، تربیّتی اداروں کی نمایندگی سعدیہ قریشی اور مدیحہ رانا نے کی اور انڈسٹری کی نمایندگی کے لیے نیسلے کے سینئر ڈائریکٹر شیخ وقار احمد اور Gizکی جانب سے راجہ سعد اور میڈم رونیکا شامل تھیں۔

ہمارا وفدفرینکفرٹ ایئرپورٹ پر اترا تو GIZ کیطرف سے مس سوزینے ہمیں ریسیو کرنے آئی ہوئی تھیں ، ائیر پورٹ سے نکلے تو ایک لگژری کوچ کے ذریعے قریبی صنعتی شہر مَین ہائیم کی جانب روانہ ہوگئے، پنتالیس منٹ میں ہم مین ہائیم پہنچ گئے اورونیڈہم ہوٹل میں ڈیرہ جما لیا۔ جرمنی کے دورے میں میزبان ہمیں جرمنی کے Duel Training System سے روشناس کرانا چاہتے تھے اس کے لیے انھوں نے ہفتے بھر کا پروگرام ترتیب دے رکھّاتھا۔ ہمارے ہاں اسطرح کے تربیّتی پروگراموں کے دوران دوپہر کو کئی ڈشوں پر مشتمل مرغّن کھانے کھلائے جاتے ہیں کھانا کھاتے ہی نیند حملہ آور ہوتی ہے او ر مرغن کھانوں سے لطف اندوز ہونے والوں پرفورََا غلبہ پا لیتی ہے۔ جسکے ساتھ ہی اُس روز کا پروگرام اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ مگر جرمنی میں صبح آٹھ بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک کام کے اوقات مقرر ہیں پانچ بجے سے پہلے میزبان آپکو انگڑائی اور جمائی لینے کی اجازت تو دیتے ہیںمگر کمرے سے جانے کی اجازت نہیں دیتے اور اسٹوڈنٹس کی طرح آپ کو نوگھنٹے مسلسل مصروف رکھا جاتا ہے۔

ہم ہفتے کی رات کو مَین ہائیم پہنچے تھے۔دوسرے روز اتوار تھا مگر منتظمین نے چھٹی کا دن بھی استعمال کیا ،یہاں مس سوزینے کے ساتھ مس لارا اور مسٹر سٹیفن بھی شامل ہوچکے تھے جو آیندہ ایک ہفتے تک ہمارے ساتھ منسلک رہے۔ا ور ہمارے پورے پروگرام اور دوروں کو ترتیب دیتے رہے۔                  (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔