وفاداری یا غداری

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 4 مارچ 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ ایک سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ حقیقت حال بھی یہی ہے۔ دنیا بھر میں جاری کشمکش اور جنگ و جدل کی بات ہو یا ماضی کے کشت و خون کی بات ہو، ان میں جتے ہوئے فریقین ہمیشہ خود کو حق پر کہتے ہیں، یوں ایک ہی محاذ پر لڑنے والے اپنی جگہ مظلوم بن جاتے ہیں اور اپنے آپ کو حق پر کہتے ہیں۔ آج بھی جاری تحریکوں میں یہ دو رخ واضح نظرآتے ہیں۔ مثلاً کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کرنیوالے اپنے آپ کو مجاہدین کہتے ہیں لیکن بھارتی حکومت انھیں اگر وادی اور ’’گھس بیٹھیے‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ سے گردانتی ہے۔ دنیا بھر میں جاری مسلمانوں کی جدوجہد کو مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے جہاد کہتے ہیں جب کہ مخالفین دہشت گرد، انتہاپسند اور بنیاد پرست جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ویتنام میں لڑنے والوں کو دنیا بھر کے میڈیا حریت پسند یا پھر غدار وغیرہ کے نام سے موسوم کرتے رہے۔ یعنی کچھ نے ہیرو کہا کچھ نے غدار۔

کوئی بھی تحریک بیک وقت کسی کے لیے غداری ہوتی ہے تو دوسرے کے نزدیک آزادی کی تحریک ہوتی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں سے نجات کے لیے تحریک چلائی تو وہ ہندوؤں کی نظر میں بھی حریت پسند تھے مگر جب مسلمانوں نے انگریزوں سے نجات کے ساتھ ساتھ اپنے معاشی، سماجی اور مذہبی حقوق کے لیے علیحدہ وطن کی طرف قدم بڑھایا تو یہی مسلمان ان ہندوؤں کی نظر میں ماتا کے ٹکڑے کرنے والے غدار ہوگئے، جو پہلے حریت پسند تھے۔

قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی تو انھیں غدار کہہ کر دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش کی گئی، پھر جب بھارت کی مدد سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کوشش کو روکنے کے لیے آگے بڑھنے والوں کو ہی ’’غدار‘‘ اور ’’ایجنٹ‘‘ کا لقب دے دیا گیا۔ یوں بھارتی خواب جب پورا ہوگیا اور اندرا گاندھی یہ کہنے میں کامیاب ہوگئی کہ اس نے آج بحیرہ بنگال میں ’’دو قومی نظریہ ڈبو دیا‘‘ تو وہ پاکستانی جو پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اپنے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے، بازی پلٹتے ہی غدار ہوگئے۔ گویا کل کے غدار محب وطن (یعنی بنگلہ دیشی) ہوگئے اور کل کے محب وطن (یعنی پاکستانی) غدار ہوگئے اور اس کی تمام لوگوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔

بات یہیں ختم ہوجاتی تو ٹھیک تھا، لیکن یہ سلسلہ تھما نہیں۔ المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کا پرچم اور نعرہ بلند کرنے والے ان لوگوں کو جو مشرقی پاکستان میں تھے پاکستان نے یکسر نظرانداز کردیا جب کہ بنگلہ دیش نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان لوگوں میں غیر بنگالی وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں ’’محصورین پاکستان‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ لوگ بھی شامل ہیں کہ جن کی اپنی لسانی شناخت بطور بنگالی ہے مگر نظریاتی طور پر وہ پاکستان کے حامی تھے اور پاکستان توڑنے کے خلاف تھے، وقت کا نقشہ بدلا تو ’’غدار‘‘ محب وطن ہوگئے اور ’’محب وطن‘‘ غدار ہوگئے۔

افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ یہ تماشا ختم ہوگیا مگر اس کی گونج کو ختم نہ کیا جاسکا اور ایک مرتبہ پھر ان شعلوں کو ہوا دی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کا ٹریبونل قائم کرکے آگ و خون کا ماحول پھر سے پیدا کردیا گیا ہے حالانکہ اب پل کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا اور اب وطن کی تعمیر اور عوام کو کسمپرسی کی حالت سے نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں جنگی جرائم کے ٹریبونل نے جماعت اسلامی کے رہنما دلاور حسین کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا جس کے بعد بنگلہ دیش میں ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انھیں 1971 میں جنگ کے دوران جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔

اس فیصلے کے بعد سے عوامی لیگ اور جماعت اسلامی کے کارکنوں میں تصادم کے واقعات ہو رہے ہیں۔ دلاور حسین جماعت اسلامی کے سب سے سینئر رہنما ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان پر اور دیگر رہنماؤں پر سیاسی بنیادوں پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں ایسی تبدیلیاں کی جارہی ہیں کہ جن کے تحت جماعت اسلامی پر 1971 کی جنگ میں آزادی کی مخالفت (یعنی پاکستان کی حمایت کرنے پر) اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کے الزام میں پابندی عائد کی جاسکے گی۔ اس ترمیم کے ذریعے جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما عبدالقادر ملا کو دی جانے والی عمرقید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت سے اپیل بھی کی جاسکے گی۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا موقف ہے کہ اس آئینی ترمیم کا مقصد صرف اور صرف جماعت اسلامی کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ بنگلہ دیشی حکمرانوں کے اس قسم کے فیصلوں کے بعد لوگوں کی ایک تعداد ترمیم کے حق میں اور دوسری مخالفت میں مظاہرے کر رہی ہے جب کہ جانی اور مالی نقصان الگ ہورہا ہے، حکمرانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے دوران 30 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بنگلہ دیشی حکمرانوں کی دانش کا کیا کہنا کہ ایک جانب وہ 30 لاکھ جانوں کا ماتم کر رہے ہیں کہ جس میں دونوں فریقین کی ہلاکتیں شامل ہیں اور دوسری جانب پھر وہی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں کہ جس سے مزید جانوں کا نقصان تو ہوسکتا ہے، معیشت بھی تباہی کی طرف جاسکتی ہے مگر کسی طور عوام اور ریاست کی بھلائی نہیں ہوسکتی، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ پچھلے واقعات کو بھول کر عوام اور ملک کی بہتری کے لیے کوششیں کرتے اور دوسری طرف ہم پاکستانی بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے مگر اس کے برعکس کام ہو رہا ہے، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس اہم نازک مرحلے پر پاکستان کی جانب سے بھی کوئی اہم کردار سامنے نہیں آرہا ہے حالانکہ یہ سب کچھ اس عمل پر ہو رہا ہے کہ جس کے تحت 1971 میں محب وطن پاکستانیوں نے مشرقی پاکستان میں رہ کر پاکستان کے ساتھ وفاداری کی تھی غداری نہیں۔

اس مسئلے کو محض جماعت اسلامی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ جب ہمارے ارباب اختیار پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس اور بم دھماکوں کے ذریعے پاکستانیوں کو ہلاک کرنے والے بھارتی جاسوس کو رہائی دلانے کے لیے کوششیں کرسکتے ہیں تو پھر ان محب وطن پاکستانیوں کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے جن کو 1971 میں پاکستان سے وفاداری کرنے کے جرم میں سزائے موت اور عمر قید وغیرہ دی جارہی ہیں۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ دیگر محب وطن قوتیں بھی اس مسئلے پر اپنی کوششیں کریں کیونکہ یہ لوگ پاکستان کے غدار نہیں وفادار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔