یورپی یونین کی عدالت نے فرانس کی جانب سے لگائی گئی نقاب پر پابندی کی توثیق کردی

ویب ڈیسک  منگل 1 جولائی 2014
چہرے پر نقاب لینے پر مجھ پر کوئی دباؤ نہیں اور میں نقاب اپنی مذہبی آزادی کے طور پر پہنتی ہوں، درخواست گزار خاتون ۔ فوٹو فائل

چہرے پر نقاب لینے پر مجھ پر کوئی دباؤ نہیں اور میں نقاب اپنی مذہبی آزادی کے طور پر پہنتی ہوں، درخواست گزار خاتون ۔ فوٹو فائل

پیرس: یورپ کی عدالت برائے انسانی حقوق نے پورے چہرے کے پردے  پر فرانس کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے فیصلے کو برقرار ر کھتے ہوئے کہا ہے کہ پابندی میں کسی لباس کی حیثیت کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق  نے یہ فیصلہ  24 سالہ فرانسیسی خاتون کے مقدمے میں سنایا جس میں ان کا مؤقف تھا کہ عوامی مقامات پر نقاب پہنے پر پابندی سے ان کی مذہبی  آزادی کی خلاف ورزی ہوئی ہے،عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چہرے کے پردے پرفرانسییسی پابندی میں کسی لباس کی مذہبی حیثیت کو بنیاد نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اس پابندی کی تمام بنیاد اس دلیل پر تھی کہ اس سے چہرہ چھپ جاتا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے دوران حکومت کی اس درخواست  کو بھی مد نظر رکھا کہ معاشرتی میل ملاپ میں انسانی چہرے کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے اورایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ افراد کے درمیان میل جول معاشرتی زندگی کا لازمی جزو ہے، ایک دوسرے سے چہرہ چھپانے پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔

درخواست گزار خاتون نے جب کیس دائر کیا تو انہوں نے اپنی پہچان کو بھی ظاہر نہیں کیا اور ان کی صرف ایس اے ایس کے نام سے رکھی گئی، خاتون نے  کیس 2011 میں یورپی یونین کی عدالت میں دائر کرکے موقف اختیار کیا تھا کہ چہرے پر نقاب لینے پر اس پر کوئی دباؤ نہیں اور وہ نقاب اپنی مذہبی آزادی کے طور پر پہنتی ہیں۔

واضح رہے کہ فرانس وہ پہلا ملک تھا جس کے قانون کے مطابق ملک میں کوئی بھی خاتون عوامی مقامات پر ایسا لباس نہیں پہن سکتی جس کا مقصد چہرے کو چھُپانا ہو۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر 150 یورو کا جرمانہ کیا جاتا ہے اور یہ قانون 2010 میں صدر نکولس سرکوزی کی قدامت پسند حکومت کے دور میں منظور ہوا۔ اس کے بعد 2011 میں بیلجیئم نے اوراسپین نے بھی کچھ شہروں میں  نقاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔