اسلام آباد میں مظاہرین نے پی ٹی وی کی عمارت خالی کردی، فوج نے کنٹرول سنبھال لیا

ویب ڈیسک  پير 1 ستمبر 2014
ہفتے کی رات سے ریڈ زون میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں اور اس میں اب تک 4 افراد جاں بحق جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں فوٹو:اے ایف پی

ہفتے کی رات سے ریڈ زون میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں اور اس میں اب تک 4 افراد جاں بحق جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اسی دوران مظاہرین نے سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت پر بھی قبضہ کرلیا تھا تاہم پاک فوج نے عمارت کو خالی کراکر نشریات بحال کرادی۔ 

اسلام آباد کے ریڈ زون میں گزشتہ رات پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا تاہم صبح ہوتے ہی مظاہرین کی جانب سے ڈی چوک سے آگے کی جانب پیش قدمی کردی اور وزیر اعظم ہاؤس کی جانب جانے والے راستے پر پاکستان سیکریٹریٹ کا علاقہ جھڑپوں کا مرکزبن گیا۔ مظاہرین پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں پر پتھراؤ  اور انھیں غلیلوں سے کنچے برسا تے رہے، شدید پتھراؤ کے بعد ایف سی اہلکار ایک جانب ہوگئے جبکہ پولیس کی جانب سے وقفے وقفے سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی تاہم بارش کے باعث شیلنگ مظاہرین پر اثر انداز نہ ہوسکی جس کے بعد پولیس اہلکار جواباً وہی پتھر اٹھا کر مظاہرین پر برسانے لگے جو انہیں مارے گئے تھے.

مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے نتیجے میں ایس ایس پی اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو بھی زخمی ہوگئے جنہیں پمز میں طبی امدا دی جارہی ہے۔ پتھراؤ کے بعد مظاہرین نے پاک سیکریٹریٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے موجود کنٹینر کو آگ لگانے کے بعد سیکریٹریٹ دروازہ توڑ دیا۔ جس کے بعد مظاہرین سرکاری ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے پوری عمارت کو قبضے میں لے لیا اور قومی چینل کی نشریات بند کردی گئیں۔ وزارت داخلہ کی ہدایت پر پہلے رینجرز کے اہلکار موقع پر پہنچے اور جس کے بعد پاک فوج کے دستوں نے عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا اور مظاہرین کو نکال دیا۔ ریڈ زون میں اب بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

واضح رہے کہ ہفتے کی رات سے ریڈ زون میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں اور اس میں اب تک 4 افراد جاں بحق جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔