(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - دیوتا کی دھرتی

آصف محمود  جمعـء 28 نومبر 2014
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ دیوتا کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے وجود میں آنیوالے اس مقدس تالاب میں نہانے سے انسان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ فوٹو آن لائن

ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ دیوتا کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے وجود میں آنیوالے اس مقدس تالاب میں نہانے سے انسان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ فوٹو آن لائن

میں تالاب کنارے بیٹھا سبزپانی کو غورسے دیکھ رہا تھا ،ساکت پانی میں اچانک ہلچل ہوئی،خاموشی کا راج ٹوٹ گیا تھا ،میں نے بائیں جانب دیکھا جہاں ایک ہندونوجوان نے تالاب میں چھلانگ لگائی تھی ،اس نوجوان کے بعد پھرتوجیسے تالاب میں اشنان کرنے والوں کا تانتابندھ گیا ،سردی کے اس موسم میں ہندوؤں کو تالاب کے ٹھنڈے پانی میں نہاتا دیکھ کرمیرے جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی مگرہندو جن میں خواتین بھی شامل تھیں بڑے آرام سے اس تالاب کے پانی سے اشنان کررہے تھے۔

یہ کٹاس راج کا مقدس تالاب ہے، کہا جاتا ہے کہ جب دیوتا شیو مہاراج کی بیوی ستی اس دنیا سے رخصت ہوئی تو دیوتااس کی جدائی کے  غم سے بے قابو ہو کر اس طرح رویا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی جاری ہو گئی۔ان متبرک آنسوؤں سے دھرتی پر دو تالاب وجود میں آئے، ایک اجمیرشریف کے نزدیک پشکر کا تالاب اور دوسرا چکوال کے کوہستان نمک میں کتکشہ کے نام سے مقبول ہوا، قدیم سنسکرت میں کتکشہ کا مطلب ہی برستی آنکھیں ہیں۔اس مقدس تالاب کے پانی کی یہ خاصیت بھی ہے کہ سردموسم میں بھی اس کا پانی نیم گرم ہوتا ہے ،ہندوؤں کے مطابق یہ تالاب چونکہ دیوتا کے آنسوؤں سے وجود میں آیا اس لئے پانی میں آنسوؤں کی گرمی آج تک محسوس ہوتی ہے ۔تاہم ماہرین پانی کے نیم گرم ہونے کی وجہ کیمیائی عمل بتاتے ہیں، چونکہ یہ مقدس دیوتائی آنسوؤں سے بنا ہے  تو یہاں شیو دیوتا کا مندر بھی قائم ہے، جو وقت کے ساتھ پورے برصغیر کے اہم ترین مندروں میں شمار ہونے لگا۔ وقت گزرنے اور کثرت استعمال سے کتکشہ کا نام بھی مختصر ہو کر کٹاس بن گیا۔

میں بھارت سے آنے والے ہندویاتریوں کے ساتھ یہاں آیا تھا، سکھوں کے ساتھ توملک کے طول وعرض میں پھیلے ان کے سبھی مقدس مقامات اور گوردواروں میں جاچکا ہوں لیکن ہندوؤں کے مقدس مقامات دیکھنے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا تھا ،اسی لئے جب بھارت سے ہندو یاتری شیوراتری منانے پاکستان آئے تومیں بھی لاہورسے ان کے ساتھ ہولیا۔ چکوال کے نواحی علاقہ چواسیدن شاہ سے چندکلومیٹرکے فاصلے پربوسیدہ عمارتیں دکھائی دیتی ہیں یہ کٹاس راج کی عبادت گاہیں ہیں جہاں شیو کے ماننے والے صدیوں سے آتے رہے ہیں ، کٹاس راج کے یہ مندر برسوں ویران رہے ،زمانے کی گرم سردہواؤں نےان قدیم عمارتوں کو کافی نقصان بھی پہنچایا ہے ،تاہم 1987 میں پہلی بارپاکستانی سرکار نے ان مندروں کی مرمت اوردیکھ بھال کا سلسلہ شروع کیا اوربھارت سے ہندویاتری شیومہاراج کے بھجن گاتے یہاں آئے۔

فوٹو؛ آن لائن

میں ان خوبصورت اور قدیم عمارتوں کے سحرمیں گم مقدس تالاب کنارے بیٹھا تھا ،مجھے یہاں اکیلے بیٹھے دیکھ کرمتروکہ وقف املاک بورڈ کے ڈپٹی سیکرٹری فرازعباس نے آوازلگائی ،بھائی یہاں اکیلے کیا کررہے ہو،آؤ آپ کو اس قدیم عمارت کی سیر کراتاہوں،میں تالاب کنارے سے اٹھ کرفرازبھائی کے پاس پہنچ گیا اوروہ مجھے ساتھ لئے عمارتوں کے اس سلسلے کی طرف ہولئے۔ تالاب کے شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان میں بلند ترین گمبدی عمارت شیو کا مندر ہے۔ اس کو عرف عام میں اب کالا مندر کہا جاتا ہے ، صدیوں کی نمی نے اس پر کائی کی ایک ایسی تہہ جما دی ہے جو قدرے سیاہی مائل ہے۔ چار منزلہ اس عمارت کی پہلی دو منزلیں مختلف نقوش سے آراستہ تھیں جو کہ اب بمشکل ہی نظر آتے ہیں۔

شیو مندر کے پیچھے یعنی شمال کی طرف ایک ڈھلان کٹاس راج کی عمارتوں میں قدیم ترین عمارتیں کھڑی ہیں۔ ان میں ایک سفید چونے کا جسیم مندر ہے جو کالے مندر کی طرح چار منزلہ ہے۔ یہ عمارت 300 یا 400 سال پرانی ہے ، سفید مندر کے سامنے دو چھوٹے اور بالکل خستہ حال مندر ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دو مندر کٹاس کی تمام عمارتوں میں سب سے زیادہ قدیم ہیں۔ یہاں مختلف غاربھی نظرآتے ہیں جن میں گرو عبادت کیا کرتے تھے ۔یہاں بدھ مت کے بھی کئی آثارنظرآتے ہیں ،یہاں ہری سنگھ نلوا کی تاریخی حویلی بھی ہے جس کے صرف آثارہی باقی ہیں۔

فوٹو؛ آن لائن

کٹاس راج کے ان مندروں میں پوجا کے لئے آنیوالے ہندوؤں نے پہلے دن روزہ رکھا اورشیوراتری کےبعد بھوجن اورپھراشنان کیا ،ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ دیوتا کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے وجود میں آنے والے اس مقدس تالاب میں نہانے سے انسان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔

ہندو یہاں شیودیوتا کے جسم کے ایک مخصوص حصے کی پوجا بھی کرتے ہیں ،پتھرسے بنا شیو کے جسم کا یہ اہم حصہ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے زمین کے سینے میں گم ہوچکا تھا لیکن محکمہ آثارقدیمہ نے بڑی محنت سے اس حصے کونکالا اوراس کی مرمت کی،اب ہندو پتھر سے بنے شیو دیوتا کے اس جسمانی حصے کی پوجا کرتے ہیں ،اس عبادت میں صرف شادی شدہ جوڑے ہی شریک ہوسکتے ہیں ،ہندوؤں کا منانا ہے کہ اس پوجا سے بانجھ عورتیں ماں بن سکتی ہیں۔

بھارت سے آنیوالے ہندوؤں میں زیادہ تربڑی عمرکے لوگ شامل تھے ، ہم لوگ دودن دیوتا کے ان مندروں میں رہے اورپھرواپس لاہورآگئے ، لیکن میرے دل ودماغ پرابھی تک ان قدیم مندروں اورکھنڈرات کا سحرچھایا ہوا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔