ایک خط اوپر سے

وسعت اللہ خان  پير 13 مئ 2013

اے میرے پیارے مڈل کلاس بچو !

خوش رہو۔سب سے پہلے تو میں تمہیں پہلی بار پولنگ اسٹیشنوں کے باہر تپتی دھوپ میں ووٹ کی خاطر گھنٹوں انتظار کی زحمت اٹھانے اور ہر قیمت پر اپنے بنیادی حق کا استعمال کرنے کی پرخلوص کوشش پر مبارکباد دیتا ہوں۔امید ہے کہ اگلے انتخابات تک تمہارا یہ جذبہ برقرار رہے گا۔

چونکہ تم نوجوان ہو اور ہر نوجوان کا خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے زورِ بازو اور زورِ دلیل سے راتوں رات سب کچھ بدل ڈالے۔لوگ نا صرف فوری طور پر اس کی بات سمجھ بھی لیں بلکہ سمجھنے کے بعد اس کے ہمراہ چل پڑیں اور جس تبدیلی کا خواب تم نے دیکھا ہے، وہ چٹکی بجاتے آجائے۔

اے لڑکو بالو ! تمہارا یہ جذبہ اس لیے قابلِ تعریف ہے کہ اس میں نوجوانی کا خلوص ، آئیڈیل ازم ، توانائی اور جوش سب ہی کچھ شامل ہے۔بلکہ وہ نوجوان ہی کیا جس میں یہ تمام مصالحے شامل نا ہوں۔جب ہم تمہاری عمر کے تھے تو تم سے بھی زیادہ آدرشی اور دیوانے تھے۔لیکن وقت نے ہمیں یہ سکھایا کہ یہ دنیا آئیڈیل نہیں ہے۔لہٰذا اسے راتوں رات بدلنے میں اپنی قیمتی توانائیاں یکدم صرف کرنے کے بجائے پہلے اس دنیا اور اس کی پیچیدگیوں ، مسائل ، مجبوریوں ، نفسیات اور گنجائش کو سمجھنے کی کوشش کرو۔جن لوگوں کی زندگیاں تم بہتر بنانا چاہتے ہو ان کی قربت میں رہ کر انھیں جانو، یوں رفتہ رفتہ تم ان پر اور وہ تم پر اعتماد کرنا سیکھ لیں گے۔جب وہ تمہاری جینز اور تم ان کی دھوتی ، وہ تمہارے منرل واٹر اور تم ان کی لسی ، تم ان کے سادے لٹھے کی قمیض اور وہ تمہاری برانڈڈ شرٹ ، تم ان کی ٹھیٹھ مقامی زبان اور وہ تمہاری اردش ، تم ان کا حقہ اور وہ تمہارا سگار سمجھ لیں گے تو پھر وہ تمہارا خواب اور تم ان کی خواہشات بھی باآسانی سمجھ جاؤ گے۔

دیکھو۔۔۔۔اس ملک کے نوے فیصد ووٹروں نے انٹر نیٹ کا نام سنا تو ہوگا لیکن شائد انھیں ای میل کرنی نا آتی ہو کیونکہ اس کے لیے کمپیوٹر ہونا ضروری ہے۔ٹویٹر ، فیس بک ، سوشل میڈیا جیسی اصطلاحات ان کے پلے نہیں پڑتیں۔ان بے چاروں کو تو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی ہی میسر نہیں تو وہ اپنا موبائل فون کیسے چارج کریں گے۔چہ جائیکہ وہ یہ سمجھ پائیں کہ ایپس کیا بلا ہے۔وہ تو ابھی تک چٹھی کے دور میں رہ رہے ہیں اور ان میں سے اکثر چٹھی یا اخبار پڑھنے کے بجائے سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس لیے میرے پیارو! تمہیں خود کو ڈی کلاس کرکے ان کے پاس جانا پڑے گا تاکہ تمہیں بھی تعلیم ملے کہ نیچر کیا ہوتی ہے اور نیچرل لوگ کیسے ہوتے ہیں۔تمہیں پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں سے تعلیم تو مل سکتی ہے لیکن لیاقت ( وزڈم ) اگر حاصل کرنی ہو تو اس کے لیے کسی دیہاتی سے ملنا بہت ضروری ہے۔وہ ان پڑھ ضرور ہوسکتا ہے مگر جاہل نہیں۔اسے اپنے اردگرد کے ماحول کو جاننے کے لیے کسی ایگریکلچر ڈپلومے یا جینیاتی چارٹ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔یہ علوم تو صرف چند سو سال پہلے ہی نصاب میں شامل ہوئے ہیں۔وہ تو ہزاروں برس سے یہ نصاب پڑھ اور پڑھا رہا ہے۔تم زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہو کہ اس کے تجربے اور مشاہدے کو جدید دنیا کے تقاضوں کے حساب سے بہتر بنانے میں اس کی غیر محسوس طریقے سے مدد کرو۔اس کے بدلے تم نیچر کے راز اس سے حاصل کرسکو۔

یقیناً دوا بہت اچھی چیز ہوتی ہے لیکن اگر تم یکدم کسی کو صحت مند بنانے کے جوش میں ڈھائی سو ملی گرام کے بجائے ہزار ملی گرام کی ڈوز دے دو گے تو کیا ہوگا ؟ جب مریض ہی نہیں رہے گا تو اچھا کسے کرو گے۔لہذا اکثر امراض میں دھیرج ، برداشت اور ثابت قدمی ہی سب سے بہتر دوا ثابت ہوتی ہے۔

لیکن یہ کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل۔مزید مشکل یہ ہے کہ کوئی شارٹ کٹ بھی نہیں ہے ورنہ بڑے بڑے دیوتاؤں کو تپسیا کرنے یا عظیم ولیوں کو چلا کاٹنے کی ضرورت نا ہوتی۔بس ہا کا نعرہ لگاتے اور دنیا اور اس کے لوگ ان کی مرضی کے سانچے میں ڈھل جاتے۔

لہذا اے میرے پیارے بچو! اگر تم واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہو تو اپنی عجلت کو لگام دو ، صبر و ضبط کا دامن تھامو۔خواہشات اور خوابوں کو زمینی حقائق سے علیحدہ رکھنا سیکھو۔تبدیلی اور انقلاب کے کتابی معنوں سے باہر نکلو اور سب سے اہم یہ ہے کہ اپنے اندر سے نکلو۔ڈپریشن پر خود کو نہیں بلکہ خود کو ڈپریشن پر سوار کرنے کی کوشش کرو۔کیونکہ ڈپریشن انسان کے جوش اور امنگ کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے دیمک لکڑی کو۔اگلے پانچ برس نا تم کہیں جارہے ہو نا تمہاری عمر اور نا یہ ملک۔

اور ہاں ایک اہم بات تو میں بتانا بھول ہی گیا۔کیا کروں بوڑھا ہوگیا ہوں نا۔وہ بات یہ ہے کہ شکر ادا کرنا سیکھو۔دیکھو کل تک تمہارا کوئی سیاسی وجود نہیں تھا اور صرف دو سے تین برس میں تم اس ملک کی دوسری یا تیسری سیاسی قوت بن چکے ہو۔اپنے اردگرد دیکھو۔کتنی تنظیمیں اور افراد ہوں گے جنہوں نے اپنی عمریں صرف کردیں مگر آج بھی اپنی سیاسی و سماجی شناخت کے لیے مسلسل سرگرداں ہیں۔اور کسی سے نہیں تو اپنے لیڈر سے ہی کچھ سیکھ لو۔جب کل اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا تب بھی وہ گھر میں نہیں بیٹھا اور آج بھی وہ کھڑا ہوا ہے۔

ہاں مجھے احساس ہے کہ جب شہزاد رائے اور راحت فتح علی خان کے نغمے پر لاکھوں قدم تھرک رہے ہوں۔جب میڈیا اور سوشل میڈیا ’’جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے ’’ کا شامیانہ تان رہا ہو تو کسی کی بھی گنتی ، تجزیہ اور جذبات تہہ و بالا ہوسکتے ہیں اور حقائق کے سورج کا آدمی کچھ دیر کے لیے سامنا نہیں کرسکتا۔لیکن یہاں تو تمہیں کچھ نہیں سے بہت کچھ مل گیا ہے۔کم ازکم ایک ایسا پلاٹ تو مل ہی گیا ہے جس پر اگلے چند برسوں میں تم اپنی مرضی کی عمارت اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہو۔اور یہ سب تمہیں کس نے دیا ؟ اسی ملک کے لوگوں نے نا۔انھوں نے ہی تو ملک بنانے میں میرا ساتھ دیا تھا ورنہ میں اکیلا کیا کرسکتا تھا۔۔لہذا کسی کو غصے میں بھی گالیاں نا دو یا انھیں جاہل کا لقب مت دو۔وہ ہرگز جاہل نہیں۔جاہل وہ ہوتا ہے جسے اردگرد وہی دکھائی دے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔اب تم ہی بتاؤ کہ کیا تمہیں، میں اس آئینے میں پرکھنے کی کوشش کروں تو تمہیں اچھا لگے گا۔۔۔

اب تم کہیں دوبارہ اپنے کمرے میں بند نا ہوجانا۔کم ازکم کھڑکی کھلی رکھنا تاکہ تمہیں خوابناک چاند کے ساتھ ساتھ حقیقت کا سورج بھی دکھائی دیتا رہے…

دعاگو۔۔۔محمد علی جناح۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔