’’اُردو کرکٹ کمنٹری کے بانی منیر حسین بھی رخصت ہوگئے‘‘

سلیم خالق  ہفتہ 3 اگست 2013
سلیم خالق کی مرحوم منیر حسین اور تسلیم عارف کے ساتھ کئی برس پرانی ایک یادگار تصویر ۔ فوٹو : فائل

سلیم خالق کی مرحوم منیر حسین اور تسلیم عارف کے ساتھ کئی برس پرانی ایک یادگار تصویر ۔ فوٹو : فائل

انسان کو اپنا ماضی کبھی نہیں بھولنا چاہیے، میری آفس ڈیسک پر کئی برس پرانی2تصاویر لگی ہیں ۔

جس میں کسی اسٹیڈیم میں بطور پرستار عامر سہیل اور عاقب جاوید کے ساتھ موجود ہوں، اسی دور میں مجھے کرکٹ کا شوق ہوا جس کی وجہ سے صحافت میں آنے کا موقع ملا، مجھے یہ بتانے میں کوئی عار نہیں کہ کلب میچز میں اپنی عمدہ کارکردگی کی خبریں چھپوانے کے لیے منیر حسین، سید محمد صوفی اور ماجد بھٹی کے پاس لے جایا کرتا تھا، ان سب نے کسی نہ کسی طرح میری بہت رہنمائی کی،کلب کی جانب سے میں نے ایک تقریب سجائی جس میں منیر صاحب کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔

اس کے بعد اخبار وطن میں بطور عام قاری لکھنا شروع کیا، کھلاڑیوں کے نام پیغامات سے آغاز کیا اور پھر بعد میں وہاں ملازمت کر لی، مجھے یاد ہے پہلا اعزازیہ 1200روپے دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’’ بیٹے یہ توآغاز ہے تم بہت آگے جاؤ گے‘‘، اس کے بعد ان سے ذاتی تعلق بن گیا، اس زمانے میں ہم نے کئی تخلیقی کام کیے، انہی کی سرپرستی سے میں نے کرکٹ کی پہلی آڈیو کیسٹ کا بھی اجرا کیا جس میں کھلاڑیوں کے انٹرویوز وغیرہ شامل رہے۔

اس سلسلے کو بڑی مقبولیت ملی، منیر صاحب کو کمنٹری کے لیے بیرون ملک جانا ہوتا تب بھی وہ میگزین کے معاملات سے غافل نہ ہوتے اور روز مرہ کی بنیاد پر معاملات سے آگاہی لیتے رہتے، میں نے اکثر ضرورت مندوں کو ان کے دفتر میں آتے دیکھا جن کی وہ خاموشی سے مدد کرتے رہتے تھے، جب میں اخبار وطن کا عام قاری تھا تب ہی سے یہ بات پڑھتا چلا آ رہا تھا کہ عمران خان، منیر حسین کے گہرے دوست ہیں، اس کا ثبوت تب دیکھتے کو ملا جب وہ مجھے لاہور لے کر گئے۔

وہاں شوکت خانم اسپتال میں سابق کپتان کو ان کی آمد کا علم ہوا تو خود لینے آئے اور پورے اسپتال کا دورہ کرایا، اس وقت ان کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ دونوں کی کتنی گہری دوستی تھی اور عمران، منیر صاحب کی کس قدر عزت کرتے تھے۔ اسی طرح جاوید میانداد، انضمام الحق، شاہدآفریدی، معین خان سمیت تمام کرکٹرز ان کے بڑے قدر دان تھے، انھیں جب بھی کسی مشورے کی ضرورت پڑتی تو منیر صاحب کو ہی یاد کرتے۔

اس دوران جب کبھی ان کے ساتھ کہیں جانا ہوتا کئی افراد کو ان کی طرف بے چینی سے لپکتے ہوئے دیکھتا، سب کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح ان سے مصافحہ کر کے کچھ بات کی جائے، میں جب اس بارے میں پوچھتا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتے کہ ’’ بیٹا کسی سے اچھی طرح بات کرو تو وہ ہمیشہ کے لیے گرویدہ بن جاتا ہے، میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے الفاظ سے کسی کو ٹھیس نہ پہنچاؤں‘‘ منیر صاحب میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اگر وہ غلطی کرتے تو اسے مان بھی لیتے تھے، ایک بار مرحوم صحافی گل حمید بھٹی کسی بات پر ناراض ہو گئے، انھیں علم ہوا تو خود جا کر غلط فہمی دور کی، آج کے انا پرست دور میں ایسی خوبیاں کم ہی لوگوں میں ہوتی ہیں۔

درمیان میں ایک بار وہ شدید علیل ہوئے تو ان کے صاحبزادے اختر منیر کے ساتھ چند ماہ تک میگزین کے ادارتی معاملات مکمل طور پر سنبھالے، بعد میں انھوں نے بھی اسے سراہا، مجھے کئی برس اخبار وطن کا ایڈیٹر رہنے کا شرف حاصل ہوا، منیر حسین کا اپنے اسٹاف کے ساتھ رویہ بیحد دوستانہ ہوا کرتا تھا، وہ اردو کرکٹ کمنٹری کے بانی تو ہیں ہی، اسی کے ساتھ اسپورٹس صحافت کو فروغ دینے میں ان کا بہت بڑا کردار ہے، سید محمد صوفی، ماجد بھٹی، احسان قریشی، شاہد ہاشمی، رشید شکور یہ سب ان کے میگزین سے وابستہ رہے اور آج بڑے بڑے اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اسی طرح سینئر صحافیوں مشتاق احمد سبحانی، نادر شاہ عادل اور ساجد علی ساجد نے بھی اخبار وطن میں طویل عرصے فرائض نبھائے،ایک زمانہ تھا جب بڑے بڑے کھلاڑی اس میگزین کے ٹائٹل پر تصویر چھپوانے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔

منیر صاحب اصولوں پر سودا نہیں کرتے اور اکثر بڑے بڑے لوگوں کے سامنے ڈٹ جایا کرتے تھے، کسی کرکٹر کے ساتھ ظلم ہو تو اخبار وطن ہی اس کی آواز بنتا تھا،انھوں نے کھیلوں کا میگزین سپر اسٹار، فلمی رسالے فلم ایشیا اور فوڈ میگزین کا بھی اجرا کیا، جس وقت میں نے اخبار وطن چھوڑا اور صوفی صاحب مجھے ایکسپریس میں لے کر آئے تو منیرحسین خاصے ناراض ہوئے لیکن پھر جلد ہی مان گئے، حالیہ دنوں میں ان سے جب بھی گفتگو ہوتی وہ یہی بتاتے کہ ’’ بیٹے گھٹنوں میں تکلیف سے پریشانی کا سامنا ہے‘‘۔

ان کی نماز جنازہ میں صاحبزادے اختر منیر نے بھی یہی بات بتائی کہ گھٹنوں کے سوا اور کوئی مسئلہ نہیں تھا، اچانک گلا خراب ہوا اور بولنے میں تکلیف ہونے لگی، بہانہ کچھ بھی بنا ہو موت تو سب ہی کو آنی ہے، شاہد آفریدی کے والد صاحبزادہ فضل الرحمان کے بعد ڈاکٹر محمد علی شاہ اور اب منیر حسین کی صورت میں اپنے تیسرے بڑے سرپرست سے محروم ہو گیا، اﷲ ان تمام کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔