جب لال لال لہرائے گا؟

نصیب خان  جمعرات 5 دسمبر 2019
کیا جب لال لال لہرائے گا تو اس وقت بھی انصاف یونہی بِکے گا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا جب لال لال لہرائے گا تو اس وقت بھی انصاف یونہی بِکے گا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب لال لال لہرائے گا تو اس وقت بھی ہماری ریاست کے شہری طبقاتی نظام کے تحت تعلیم حاصل کریں گے؟ افسر کا بیٹا افسر، وزیر کا بیٹا وزیر اور مزدور کا بیٹا مزدور ہی بنے گا؟

کیا اس وقت بھی انسانوں کی بیماری ایک ہی ہوگی، لیکن پیسے اور وسائل کے فرق ہونے کی وجہ سے مختلف اسپتالوں اور مختلف دواؤں سے علاج ہوگا؟

جب لال لال لہرائے گا تو اس نظام میں بھی کمسن اور لاوارث بچیوں کو دارالامان سے اٹھا کر وزرا کے سامنے ان کی خواہشات کی تسکین کےلیے پیش کیا جائے گا؟

غریب نوجوانوں سے کہا جائے گا کہ نوکری کےلیے حکومت کی طرف نہ دیکھو۔ یا تو چھولے کی ریڑھی لگاؤ یا چوریاں کرو؟

عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے حکمرانوں کے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس بھرے جائیں گے اور غریب غربت کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت نہروں میں کود کر خودکشی کریں گے؟

صوبائی دارالحکومتوں میں کھربوں روپے کی میٹرو بنائی جائے گی لیکن اسی صوبے کے دور دراز علاقوں میں ہمارے بچے تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کے اندھیروں میں پرورش پا رہے ہوں گے؟ پروٹوکول کی وجہ سے راستے بند ہوں گے اور بچے رکشوں میں پیدا ہوں گے؟

جب لال لال لہرائے گا تو پھر بھی الیکشن ہوں گے؟ اور لوگوں کے ساتھ ہر پانچ سال بعد وعدے ہوں گے؟ ہر بار لوگ مذہب، علاقے، قومیت، تبدیلی، کپڑے و مکان، اور سڑکوں اور پلوں کے نعروں پر پانچ سال بعد پھر سے بے وقوف بنیں گے؟

جعلی پولیس مقابلے ہوں گے؟ انصاف بِکے گا؟ غریب قتل، فراڈ، چوری اور بدکاری پر مجرم کہلائے گا، جبکہ امیر یہی کچھ کرنے کے باوجود حاجی کہلائے گا؟

بازار میں پھر بھی تین قسم کا دودھ دستیاب ہوگا؟ خالص دودھ، کم پانی والا اور پانی والا؟ شہد کے نام پر چینی کا شوربہ ملے کا؟ ’’ہیرو‘‘ مرغی کے نام پر شادی ہالوں میں مردہ مرغی پکے گی؟ ہوٹلوں میں مٹن کے نام پر آوارہ کتوں کا گوشت لوگوں کو کھلایا جائے گا؟

کیا اس وقت بھی زینب اور فرشته مومند جیسے واقعات ہوں گے، جن کا ذکر کرتے ہوئے ہم شرمائیں گے؟ صلاح الدین اور ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات کے مجرم کھلے عام پھریں گے؟

وہ نظامِ حکومت بھی آج کی طرح ہوگا جب ریل گاڑیوں اور طیاروں میں محکموں کی غفلت سے لوگ جل کر کوئلہ بن رہے ہیں، لیکن وارثین کو پانچ لاکھ دے کر یہ کہا جارہا ہے کہ غلطی مرحومین کی تھی۔ مطلب وه اگر ریل اور طیاروں میں نہ بیٹھتے تو نہ آگ لگتی نہ وہ مرتے۔ کیا لال پرچم کے لہرانے کے بعد بھی ایسا ہوگا؟

جب ’’سبز سبز‘‘ کے لہراتے ہوئے ہم ان سب چیزوں کا مشاہدہ کررہے ہیں تو کس منہ سے ہم ’’لال لال‘‘ والوں کو این جی اوز کی پیداوار، اپنا جسم اپنی مرضی والے، سرخے اور حسب سابق اسرائیل اور انڈیا کے ایجنٹ قرار دے رہے ہیں؟ ہم کیوں ان چند سو طلبا کے نعروں سے گھبرا رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ’’لال لال‘‘ کے لہرائے جانے سے زیادہ ہمیں ’’سبز سبز‘‘ کے نام پر اپنا کیا جانے والے کاروبار بند ہونے کا خدشہ ہے؟

کہیں ہمیں یہ ڈر تو نہیں کہ ہمیں ’’سبز سبز‘‘ کے نام پر کیے گئے کرتوتوں کا حساب دینا پڑے گا؟ ہم لال لال کے لہرانے پر اس لیے سخت ردِعمل دکھا رہے ہیں کہ کوئی ہم سے پوچھ نہ لے کہ سبز سبز کے نام پر آپ نے اپنے عوام کو کیا دیا؟

ہاں لال لال کو بھی 1978 میں افغانستان میں نور محمد ترہ کئی نے لہرایا تھاـ اس دن سے سے آج تک چالیس سال ہوگئے، جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ امن کو لوگ تڑپ رہے رہیں۔ تو اب بھی وقت ہے کہ سبز سبز والے سدھر جائیں۔ ابھی بھی توبہ کے دروازے بند نہیں ہوئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔