گمان ممکن اور کرونا

جاوید قاضی  اتوار 15 مارچ 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بات دراصل کرونا کی نہیں ہے۔ بات ہے اس وبا سے بچنے کے انتظامات کی۔ بات ہے کیا ٹیسٹ آلات اور ادویات موجود ہیں۔ بات ہے گمان کے ممکن کی ۔ کس کو یہ وائرس لگ سکتا ہے اور کیا کیا تدابیر ہیں اس سے بچنے کی؟

اٹلی کا شمار دنیا کے چند بڑے سیاحتی ملکوں میں ہوتا ہے جو آج چائنا کے بعد کرونا وائرس سے متاثر دوسرا بڑا ملک ہے۔ یورپ میں اسپتال بھر چکے ہیں ۔ پورا صحت کا نظام بیٹھ گیا ہے اور مریضوں میں اضافہ در اضافہ ہے۔ یہ چین جیسا ملک تھا جو چھ دنوں میں آٹھ سو بستروں کا اسپتال وہاں تعمیر کر گیا مگر اب یہ وبا اگر ہماری طرف رخ کرتی تو ہم کہاں ٹھہرتے ہیں۔

ان تمام وباؤں کی دو ہزار سال پر مبنی تاریخ ہے۔ یہ وبائیں ایک دم چند مہینوں میں ختم نہیں ہوتیں، ان کو کبھی کبھی لمبا عرصہ درکار ہو تا ہے، دو سال بھی اور تین سال بھی لگ سکتے ہیں۔ اور دنیا کی آبادی پونے آٹھ ارب ہے اس وقت تو پھر ایک اندازے کے مطابق رکتے رکتے بھی اس نے لاکھوں انسانی جانوں کو لپیٹ میں لینا ہے۔ یہ جان لیوا نہیں ہے اگر علاج ہو تو ٹھیک، اگر علاج نہ ہو تو یہ جان لیوا بھی ہے۔ ہمارے پاس کیا اتنے آئی سی یو یا انتہائی نگہداشت کے یونٹ ہیں ؟

اٹلی نے جب یہ دیکھا کہ اسپتال کمزور پڑ چکے اور مریض کم نہیں ہورہے تو انھوں نے سارے شاپنگ مالز اور سات آٹھ شہروں کو دوسرے شہروں سے کاٹ دیا جہاں یہ وبا تیزی سے پھیلی۔  ایسے حالات میں اگر حقیقت کو چھپایا گیا تو یہ اور زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔ ایسی وباؤں سے مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی یہ ہے کہ حقیقت سامنے ہوکہ اس وبا کے پھیلنے کی رفتار کتنی ہے اور اس رفتار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسپتالوں میں Isolation یونٹ تیار رکھنے ہوں گے۔

یہ وبائیں وہ بیماریاں ہیںجو زیادہ تر غریبوں کے لیے خطرناک ہیں کیوں کے ان کو اچھی اسپتالوں تک رسائی نہیں ہے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے ہم سب کو تدابیر لینے کی اہم ضرورت ہے۔ وہ اس لیے بھی کہ ہم اٹلی یا چین نہیں، ہم بری حکمرانی کی زد میں ہیں۔ بچنے کی سب سے اہم تدابیر میں ایک یہی ہے کہ اہم سماجی میل جول کو محدود کردیں ، بازاروں میں یا ایسی جگہوں پر غیر ضروری جانا بند کردیں ۔

اپنے ہاتھ صاف رکھیں، صابن کا استعمال زیادہ کریں اور ضرورت پڑنے پر ماسک بھی پہن لیں۔ اور اگر کہیں سے ہم پھر بھی یہ وائرس لگ جاتا ہے تو فوراً اطلاع کریں، اپنے پیاروں سے بھی گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی خیال رکھیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم کی بیوی کو کرونا وائرس کے لگنے کی علامات ظاہر ہوئیں تو کینیڈا کے وزیر اعظم خود دفتر نہیں آئے اور گھر سے ہی فرائض انجام دے رہے ہیں۔

پوری دنیا ایک ہوگئی ہے اس وبا کو مات دینے کے لیے، کرونا وائرس نے یہ بخوبی ہمیں بتلا دیا۔ شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی بار اتنی تیزی سے بہت سے ممالک میں پھیلنے والی بیچاری وبا جہاز رانی کی صنعت ہو یا توانائی کی یا خود سیاحت کی سب کے بھٹے بیٹھ گئے ہیں ۔ گیارہ ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ دنیا کی اسٹاک ایکسچینجیز گر گئی ہیں۔ اگر یہ رجحان چار مہینے تک اور چلا تو اندازہ ہے کہ بہت سی کمپنیوں کا دیوالیہ ہو جائے گا۔

جس تیزی سے یہ وبا معاشی بحران میں تبدیل ہورہی ہے، اس سے پہلے آج تک کوئی مثال نہیں۔ جتنی میڈیکل سائنس آج ایڈوانس ہے، پہلے کبھی نہ تھی لیکن دنیا کی آبادی بھی پہلے اتنی نہ تھی۔ معاملہ کرونا وائرس کا بھی نہیں کیونکہ ایک دن اس کا اینٹی وائرس آجائے گا اور یہ ایک عام فلو والی بیماری کی حیثیت اختیار کریگا۔ معاملہ ہے اس کا تیزی سے پھیلنے کا خدشہ کہ جہاں اسپتال کم پڑ جائیں ،کسی بھی ریاست کے صحت کا نظام بیٹھ جائے، یہ ہے وہ لمحہ جس سے بچنے کی ضرورت ہے اور اگر احتیاطی تدابیر پر زیادہ زور دینا ہے تو اس سے معیشت بیٹھنے کا بھی خطرہ ہے۔ اس طرح احتیاطی تدابیر خود بھاری قیمت ادا کرنے کے برابر ہے۔ حد سے زیادہ احتیاط غیر ضروری خوف کو دعوت دیتا ہے۔

ایسے کسی بھی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کرونا وائرس جلدی چلا جائے گا۔ ہوسکتا ہے ہم جیسے گرم ممالک کے لیے خبر اچھی ہو کیوں کہ یہ وائرس گرمیوں میں نہیں پھیل سکتا۔ ہم تب تک سکون سے نہیں رہ سکتے جب تک اس کا توڑ یا اینٹی وائرس بن جائے اور وہ بھی متوسط طبقے کی مالی حیثیت کی برداشت کے برابر ہو۔

کرونا نے یہ تو کم از کم ثابت کردیا کہ اب ریاستیں ایک دوسرے کی معاونت اور دوستی کے ساتھ رہیں گی، اسطرح ان کا نظام بھی چلے گا، دنیا کا نظام بھی چلے گا۔ وبا کا وہ بازار جہاں سے کرونا نے جنم لیا ہے وہ ہر قسم کے گوشت کی عالمی منڈی تھی ۔ شیر، سانپ، کتے، بلی، ہاتھی گھوڑے ہر قسم کے جانور کا وہاں گوشت ملتا تھا۔ کم از کم اب جانوروں کی شامت کم ہو گی۔ ان کو بھی زندہ اب چھوڑ دیا جائے گا۔ یوں کہیے کہ اگر یہ بحران دو چار مہینے اور رہا، اگر پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے تو اس سے بڑا معاشی بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے دنیا کی سب حکومتوں کو ایک ہو کے اس بحران کو لپیٹنا اور سمیٹنا ہو گا کیوں کہ بقول جون ایلیا

’’ اب نہیں کوئی بات خطرہ کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔